کہنے کو تو ہندوستان کا الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار ہے، لیکن اگلے عام انتخابات کی تاریخوں کے بارے میں گزشتہ اتوار کو الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے جو اعلان کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی خواہشات اور سیاسی مصلحتوں کے مطابق تاریخیں طے کی گئی ہیں اور مقصد، بھارتیا جنتا پارٹی کو زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ پہنچانا ہے۔ اعلان کے مطابق لوک سبھا کے لیے انتخابات 11 اپریل سے شروع ہوں گے اور 19 مئی تک سات مراحل میں ہوں گے۔ سب سے زیادہ متنازع فیصلہ ہندوستان کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے بارے میں ہے جہاں لوک سبھا کی 6 نشستوں کے لیے انتخابات پانچ مراحل میں ہوں گے۔ ہندوستان کی دوسری کئی ریاستوں میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوں گے لیکن کشمیر میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات بیک وقت کرانے کے بجائے فی الوقت لوک سبھا کے انتخابات ہوں گے اور ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان لوک سبھا کے انتخابات کے بعد کیا جائے گا۔ اس وقت کشمیر میں صدارتی راج نافذ ہے جو لوک سبھا کے انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد تک نافذ رہے گا۔ الیکشن کمیشن نے کشمیر میں فی الحال ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے التوا کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ سیکورٹی کے حالات مخدوش ہیں۔ یہ جواز اس لحاظ سے عجیب و غریب ہے کہ جب لوک سبھا کے انتخابات 11 اپریل سے ہو سکتے ہیں تو ریاستی اسمبلی کے انتخابات بیک وقت کیوں نہیں ہو سکتے۔ پھر یہ بھی عجیب و غریب بات ہے کہ اننت ناگ میں لوک سبھا کی ایک نشست کے لیے انتخاب تین مراحل میں ہوگا۔ وجہ ابھی تک نہیں بتائی گئی ہے جب کہ نریندر مودی کی ریاست گجرات میں لوک سبھا کے لیے انتخاب صرف ایک مرحلہ میں ہوگا۔ عام خیال ہے کہ مرحلہ وار انتخاب کی وجہ سے انتخابی مہم میں بہت زیادہ دشواری پیش آتی ہے۔ اتر پردیش میں جہاں مسلم ووٹرز کی بڑی تعداد ہے، انتخابات سات مراحل میں رمضان المبارک کے دوران میں ہوں گے۔ بیش تر مسلم رہنماؤں نے رمضان المبارک میں پولنگ کی تاریخوں کے تعین پر احتجاج کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ تاریخیں انہیں ووٹ سے محروم کرنے یا ان کے لیے دقتیں پیدا کرنے کے لیے رکھی گئی ہیں۔
ہندوستان میں اگلے ماہ ہونے والے عام انتخابات جن میں توقع ہے نوے کروڑ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اس لحاظ سے بے حد اہم تصور کیے جارہے ہیں کہ پچھلے پانچ سال کے دوران کٹر ہندو قوم پرستی، ہندوتوا کے بے پایاں فروغ کے بعد اب ہندوستانی معاشرے کے مستقبل کی کیا سمت ہوگی اور ہندوستان کی جمہوریت جو اس وقت سخت نرغے میں ہے مستقبل میں اپنا دفاع کر سکے گی؟۔ پچھلے پانچ سال کے دوران میں نریندر مودی کے انداز حکمرانی نے وفاقی نظام کو مسمار کر دیا ہے اور اقتدار کی مرکزیت ابھری ہے جن میں سارے اہم فیصلے فرد واحد نریندر مودی نے کیے ہیں۔ جس میں نمایاں فیصلہ دسمبر 2016 میں متوازی معیشت اور کالے دھن کے خاتمے کے نام پر ملک میں نوٹ بندی کا تھا جس میں پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ منسوخ کر کے پانچ سو اور دو ہزار کے نئے نوٹ جاری کیے گئے تھے اس فیصلے کی وجہ سے ایک لمبے عرصے تک ملک میں کیش کی سخت قلت رہی اور معیشت معطل ہو کر رہ گئی۔ اس فیصلے کی زد سے ملک کا کوئی شہری نہیں بچا۔ لوگوں کو اپنے نوٹ بدلوانے کے لیے دن دن بھر لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا اور اس دوران کئی اموات بھی ہوئیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام معیشت سے کالے دھن کے خاتمے کے سلسلے میں ناکام رہا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ نریندر مودی کا تھا اور اس بارے میں وزیر خزانہ کو بھی علم نہیں تھا۔ اسی طرح پلوامہ کے خود کش حملے کے بعد سرحد پار پاکستان میں بالا کوٹ پر فضائی حملے کا فیصلہ بھی نریندر مودی نے خود کیا تھا جس کی اطلاع صرف ان کے قومی سلامتی کے مشیر اور مسلح افواج کے تین سربراہوں کو تھی۔ حتیٰ کہ وزیر دفاع نرملاسیتارمن کو نہ تو اعتماد میں لیا گیا تھا اور نہ انہیں اس فیصلہ کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔
مودی کا دور اس بنا پر بے حد بدنام رہا ہے کہ حکومت کی پالیسی کے بارے میں جس نے بھی سوال کیا اسے دیش دشمن قرار دیا گیا، خاص طور پر پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگی کشیدگی کے دوران۔ جس نے بھی بالا کوٹ میں جیش محمد کے ساڑھے تین سو افراد کی ہلاکت کے دعوے کے بارے میں سوال کیا یا تشکیک کا اظہار کیا اسے غدار قرار دیا گیا۔ اس دوران میں بڑے بڑے سرمایہ داروں کے میڈیا نے اپنے مفادات کی خاطر مودی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت میں ساری حدود پار کر دیں جس کی وجہ سے ان کا نام ’’گودی میڈیا‘‘ مشہور ہوگیا ہے۔ بلا شبہ اس وقت مودی کا حامی میڈیا ملک پر پوری طرح سے چھایا ہوا ہے اور بیش تر ٹیلی وژن چینلز مودی کے دیوانہ وارگن گاتے نظر آتے ہیں۔ ہندوستان کے میڈیا کا اس سے پہلے کبھی یہ حال نہیں رہا۔ دی ہندو اور ہندوستان ٹائمز ایسے سنجیدہ اخبارات ان حالات میں گہنا گئے ہیں۔
مودی کا دور گائے کے تحفظ کے نام پر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف تشدد اور گائے کشی کا الزام عاید کر کے مسلمانوں کے قتل کے جنون کی وجہ سے ہندوستان کی تاریخ پر بد نما داغ رہے گا۔ گائے کے تحفظ کی مہم کی وجہ سے گائے کا گوشت غیر ممالک میں برآمد کرنے والے تاجروں کو تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور کھالوں کی شدید قلت کی وجہ سے موچیوں کو پریشانی کا الگ سامنا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ دلت بھی ظلم و تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ گاندھی جی نے دلتوں کو ہندو دھارے میں لانے کے لیے انہیں ہری جن کا نام دیا تھا لیکن کٹر ہندوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے گاندھی جی کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں اور ہندووں اور دلتوں کے درمیان وسیع خلیج حائل ہوگئی ہے۔
پاکستان کے بارے میں نریندر مودی کی پالیسی عجیب و غریب ادوار سے گزری ہے۔ کبھی اس پر سیاسی مفادات کی خاطر جنگ کی آگ بھڑکانے کا جنون طاری رہا ہے اور کبھی امن کی نقاب اوڑھ کر دوستی کی پینگیں بڑھانے کی خواہش کا اظہار اس پر چھایا رہا ہے۔ پچھلے پانچ سال کے دوران نریندر مودی کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کا محاصرہ کیا جائے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے افغانستان، ایران، عمان اور متحدہ عرب امارات کے پے در پے دورے کیے۔ اگلے عام انتخابات میں اس کا فیصلہ ہوگا کہ آیا ہندوستان کو مودی کے اس انتہا پسند دور سے نجات ملے گی یا نہیں اور کیا یہ دور اگلی کئی دہایوں تک جاری رہے گا۔ اس وقت کٹر ہندوتوا اور پاکستان دشمنی کا جو جنوں پورے ملک پر طاری ہے اس کے پیش نظر مودی کے دور کے خاتمے کے امکان کچھ کم ہی نظر آتے ہیں۔