پاکستان کے حکمران طبقے کا دوغلا پن

496

پنجاب کے وزیر اطلاعات و نشریات فیاض الحسن چوہان نے بھارت کے جنگی جنون اور بھارتی جارحیت کے ردِعمل میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ گائے کا پیشاب پینے والے اور بتوں کو پوجنے والے ہم سے نہیں لڑ سکتے۔ عمران خان نے اسے ہندو برادری کی توہین قرار دیتے ہوئے فیاض الحسن چوہان کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ حالاں کہ فیاض الحسن چوہان اپنے بیان پر معذرت کے لیے تیار تھے مگر عمران نے ان کی معذرت بھی قبول نہ کی۔ دوسری جانب آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ اللہ کے بعد عمران بڑا آدمی ہے۔ اس بیان پر قومی اسمبلی میں پوری حزب اختلاف نے بجا طور پر احتجاج کیا اور فیصل واوڈا کے بیان کو توہین رسالت قرار دیتے ہوئے سزا کا مطالبہ کیا مگر اس سنگین ترین واقعے پر عمران خان کی رگِ حمیت پھڑکی نہ انہوں نے فیصل واوڈا سے استعفا لیا۔ البتہ فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ ان کی زبان پھسل گئی۔
توہین ہندو برادری کی ہو یا عیسائی اور مسلمان برادری کی اسے کسی طرح برداشت نہیں کیا جاسکتا مگر فیاض الحسن نے جو کچھ کہا وہ امر واقعہ یا Matter of fact ہے۔ ہندو صرف گائے کو نہیں اس کے پیشاب کو بھی ’’متبرک‘‘ اور ’’مفید‘‘ خیال کرتے ہیں۔ چناں چہ ہندوستان میں ہزار لاکھوں ہندو گاؤ ماتا کا پیشاب پیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہندو گائے کے گوبر کو اپنے باورچی خانے اور صحن وغیرہ میں لیپا پوتی کے لیے بروئے کار لاتے ہیں۔ بعض ہندو حکیم یعنی وید گائے کے پیشاب کو دواؤں میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ گائے کے پیشاب میں بیماریوں کے لیے شفا ہوتی ہے۔ ہمیں یاد آیا کہ 1970 کی دہائی کے اواخر میں مورار جی ڈیسائی بھارت کے وزیراعظم ہوگئے تھے۔ وہ پاکستان کے لیے اتنے نرم خو تھے کہ جنرل ضیا الحق نے ان کے لیے پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز کا اعلان کیا تھا۔ مگر مورارجی ڈیسائی اپنا پیشاب نوش فرماتے تھے۔ یہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ ہماری ’’ایجاد‘‘ نہیں بلکہ اس بات کا انکشاف خود مورار جی ڈیسائی نے کیا تھا۔ ان کا مشورہ تھا کہ تمام انسانوں کو اپنا پیشاب پینا چاہیے۔ بدقسمتی سے تمام مذکورہ بالا حقائق ہندو برادری کی توہین نہیں بلکہ امر واقعہ یا Matter of fact ہیں۔ جنہیں دنیا کا کوئی شخص خواہ وہ ہندو ہی کیوں نہ ہو جھٹلا نہیں سکتا۔ ہندوؤں کی بت پرستی بھی عیاں ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں ایک ایسے خدا کا تصور موجود ہے جس کی نہ کوئی شکل ہے نہ صورت، نہ شبیہ مگر ہندوؤں نے اپنے مذہب کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ان دیکھے خدا کے بت بنالیے ہیں اور وہ ہزاروں سال سے انہیں پوج رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر فیاض الحسن چوہان نے کہاں غلط بیانی کی ہے اور کہاں جھوٹ کے ذریعے ہندوؤں کی توہین کی ہے؟۔
ہندوؤں کا ایک فرقہ ہے جس کو ’’جینی ازم‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے ماننے والے ’’جین‘‘ کہلاتے ہیں۔ جینیوں کی مذہبی یا روحانی شخصیات دنیا سے اتنی بے نیاز ہوتی ہیں کہ وہ لباس بھی زیب تن نہیں کرتیں۔ چناں چہ یہ لوگ ہندوستان کے طول و عرض میں سرعام مادر زاد ننگے ہو کر گھومتے ہیں۔ ان کی معیت میں خواتین بھی ہوتی ہیں۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ ہندوستان میں ہزاروں جینی ننگے گھومتے ہیں تو کیا وہ ہندوستان کی توہین کرے گا؟ جی نہیں وہ صرف ایک ’’حقیقت‘‘ کو ’’رپورٹ‘‘ کرے گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح فیاض الحسن چوہان نے ہندوؤں کی ’’مورتی پوجا‘‘ اور گائے کا پیشاب پینے کو رپورٹ کیا ہے۔ پاکستان میں لوگوں کی عظیم اکثریت ہندو ازم اور ہندوؤں کے معاملات کی الف ب سے بھی آگاہ نہیں ورنہ اہل پاکستان کو معلوم ہوتا کہ ہندوؤں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مرد کے آلہ تناسل کو پوجتے ہیں اور اسے ’’لِنگم پوجا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کو ہندوستان میں ایسے مندر بھی مل جائیں گے جہاں چوہوں کی پوجا کی جاتی ہے۔ اب اگر کوئی شخص ان باتوں کو رپورٹ کرے تو کیا وہ ہندو برادری کی توہین کرے گا؟ کیا ہندوؤں کی ’’عبادات‘‘ کی تفصیل بیان کرنا ہندوؤں کی توہین ہے؟ ماضی کو چھوڑیے حال ہی میں ہندوستان کی عدالت عظمیٰ نے زنا بالرضا اور ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دیا ہے اب اگر کوئی کہے کہ ہندوستان ہم جنس پرستوں کا ہندوستان ہے یا ہندوستان میں زنا بالرضا قانونی ہے تو کیا وہ ہندوستان کی تذلیل کرے گا۔ یا صرف ایک حقیقت کو بیان کرے گا؟۔
بدقسمتی سے فیصل واوڈا نے جو کچھ کہا ہے وہ ’’توہین الٰہی‘‘ بھی ہے اور ’’توہین رسالت‘‘ بھی۔ فیصل واوڈا کے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی میں عمران خان کو کس طرح ’’پوجا‘‘ جارہا ہے۔ مگر چوں کہ ’’عمران پوجا‘‘ کا تعلق عمران خان سے ہے اس لیے اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ عمران خان تو ہیں ہی پوجے جانے کے قابل۔ اناللہ واناالہ راجعون۔ چناں چہ فیصل واوڈا عمران خان کو خدا کے بعد سب سے بڑا انسان کہہ کر بھی وفاقی وزیر کا منصب ’’انجوائے‘‘ کیے چلے جارہے ہیں اور عمران خان کو ان کے بیان پر اتنی بھی تشویش نہیں ہوئی کہ وہ ان کو بلا کر ان سے پوچھ ہی لیتے کہ یہ تم نے کیا بکواس کردی ہے۔ بلاشبہ یہ عمران خان کا دوغلا پن ہے۔ ہندوؤں کے لیے وہ اتنے حساس ہیں کہ Matter of fact کا بیان بھی انہیں ہندوؤں کی توہین نظر آرہا ہے اور اسلامی اور مسلمانوں کے سلسلے میں وہ اتنے سنگ دل ہیں کہ ان کا وزیر شرک بک رہا ہے اور عمران خان کو رسول اکرمؐ سے بڑھا رہا ہے تو بھی انہیں اس کی فکر نہیں۔ لیکن عمران خان اور پاکستان کے حکمران طبقے کے حوالے سے یہ بات رّتی برابر بھی حیران کن نہیں۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ عمران خان ریاست مدینہ کا نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار میں آئے تھے مگر انہوں نے اقتدار میں آتے ہی ختم نبوت کے منکر ایک قادیانی کو اپنے اقتصادی مشیروں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ کچھ اور وقت گزرا تو ملعونہ آسیہ کا کھیل سامنے آگیا اور عمران خان نے جسٹس ثاقب نثار اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والی ایک عورت کو رہا کردیا۔ حالاں کہ وہ ماتحت عدالت ہی سے نہیں لاہور ہائی کورٹ سے بھی سزا یافتہ تھی۔ عمران خان کا یہی دوغلا پن فیاض الحسن چوہان اور فیصل واوڈا کے حوالے سے بھی پوری طرح آشکار ہوکر سامنے آیا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کا بل لے کر آئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عاید ہوجائے کیوں کہ ان کے بقول شراب صرف اسلام ہی میں نہیں ہندوازم اور عیسائیت میں بھی ممنوع ہے۔ مگر تحریک انصاف، نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے ’’مسلمان‘‘ اراکین شراب پر پابندی کے خلاف متحد ہو گئے اور انہوں نے قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کا بل پیش ہی نہ ہونے دیا۔ یہ بھی دوغلے پن کی ایک مثال تھی۔ اس سے قبل میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں میاں صاحب قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک شعبے کو قادیانی ڈاکٹر سلام کے نام سے منسوب کرنے میں کامیاب رہے۔ پھر انہوں نے ختم نبوت کے تصور پر بھرپور حملہ کیا اور ختم نبوت کا معاملہ بال بال بچا۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب میاں صاحب کے عہد میں اقوام متحدہ نے ایک دستاویز کی صورت میں مطالبہ کیا کہ زنا بالرضا کو قانونی قرار دیا جائے۔ اس مطالبے کے جواب میں میاں صاحب کے عہد حکومت میں زنا بالرضا کے مطالبے کی دستاویز پر ’’Noted‘‘ لکھا گیا۔ یعنی میاں صاحب کی حکومت نے اقوام متحدہ کو مطلع کیا کہ وہ زنا بالرضا کو قانونی قرار دینے پر ’’غور‘‘ کرے گی۔ یہ بھی دوغلے پن کی مثالیں تھیں۔
یادش بخیر جنرل ایوب خان نے اسلام ترک کرنے کا اعلان نہیں کردیا تھا مگر انہوں نے اپنے دور میں سود کو اسلامی قرار دینے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی۔ انہی کے دور میں وہ عائلی قوانین بھی منظور ہوئے جو اسلام سے متصادم ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں ’’اسلامی سوشلزم‘‘ ایجاد کیا۔ حالاں کہ اسلام اور سوشلزم کا تعلق ایسا ہی تھا جیسے روشنی اور تاریکی کا ’’امتزاج‘‘ تیار کیا جائے۔ اس امتزاج کی وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ پاکستان کے مسلمان ’’خالص سوشلزم‘‘ کو کبھی قبول نہ کریں گے۔ چناں چہ انہوں نے سوشلزم کے قالین میں اسلام کے ٹاٹ کا پیوند لگانا ضروری سمجھا۔ مگر اس سے معلوم ہوا کہ بھٹو صاحب نہ اسلام کے ساتھ مخلص تھے نہ سوشلزم کے ساتھ۔ ان کی دلچسپی صرف اپنے اقتدار سے تھی مگر یہ بھی دوغلے پن ہی کی ایک مثال تھی۔
جنرل ضیا الحق کا اسلام آج تک زیر بحث ہے مگر ضیا الحق کا اصل مسئلہ بھی اسلام نہیں اقتدار تھا۔ چناں چہ انہوں نے اسلام کو کبھی موثر نہ ہونے دیا اور اپنے اقتدار کو کبھی غیر موثر نہ ہونے دیا۔ انہوں نے ملک میں نماز کو نظام میں ڈھالا، نظام زکوٰۃ متعارف کرایا، غیر سودی بینکاری رائج کی مگر ان کی ہر اسلامی چیز ’’نمائشی‘‘ تھی۔ البتہ انہوں نے اپنے اقتدار کے لیے جو کچھ کیا وہ ’’حقیقی‘‘ تھا۔ انہوں نے 90 دن میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا اور اس وعدے سے مکر گئے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ مسلمان وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔ اسلام صاف کہتا ہے کہ جس نے عصبیت کو آواز دی وہ مسلمانوں میں سے نہیں ہے اور جنرل ضیا الحق نے سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے ذریعے لسانی عصبیت کا طوفان برپا کردیا۔ ان تمام باتوں سے بھی دوغلے پن کی بُو آتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے کے دوغلے پن کا سبب کیا ہے؟۔
پاکستان کے حکمران طبقے کا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام اس کی ’’ضرورت‘‘ اور دنیا اس کی ’’محبت‘‘ ہے۔ حکمران طبقہ اگر اسلام کو چھوڑے گا تو پاکستان کے عوام کی نظروں سے گر جائے گا اور اس کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا لیکن اگر پاکستان کا حکمران طبقہ صرف اسلام سے وابستہ ہوجائے گا تو امریکا، یورپ اور اب چین اور روس بھی اس کو دھتکار دیں گے۔ چناں چہ یہ طبقہ عوام کو خوش کرنے کے لیے اسلام، اسلام کرتا رہتا ہے مگر اس کے عمل سے دنیا، دنیا، دنیا کی صدائیں آتی رہتی ہیں۔ اس کشمکش سے وہ چیز برآمد ہوتی ہے جسے ساری دنیا دوغلا پن کہتی ہے۔ اسلام کی اصطلاح بروئے کار لائی جائے تو دوغلا پن نفاق کے سوا کچھ نہیں۔ نفاق ایک روحانی اور اخلاقی بیماری ہے، سرطان سے بھی زیادہ سنگین بیماری مگر ہمارے حکمران طبقے نے نفاق کو ’’پالیسی‘‘ اور ’’حکمت عملی‘‘ میں ڈھال لیا ہے۔ رسول اکرمؐ نے منافق کی پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا اور جھگڑا کرتا ہے تو گالم گلوچ پر اُتر آتا ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ 70 سال سے جھوٹ بول رہا ہے، وعدہ خلافی کررہا ہے اور پاکستان کے حکمران طبقے نے جب بھی قوم کو کچلا ہے اپنے قول اور عمل کو گالی بنادیا ہے۔