خونیں واقعے کے بعد نیوزی لینڈ میں تمام مساجد بند کردی گئیں ،آج کھولے جانے کا امکان

236

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) نیوزی لینڈ کے شہرکرائسٹ چرچ میں جمعہ کو ہونے والی دہشت گردی کے واقعہ پر وہاں موجود مقامی اور پاکستان سمیت غیر ملکیوں میں تشویش تو ہے لیکن کسی قسم کا خوف نہیں ہے بلکہ وہاں کے مسلمان اس بات پر مسرت محسوس کررہے ہیں کہ تمام مذاہب کے لوگ ان سے واقعہ پر اظہار تعزیت و ہمدردی کررہے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے شہر اوک لینڈ میں مقیم کراچی کے سابق ڈی آئی جی میر اکرام الحق نے ” جسارت ” سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے اس سانحہ پر تشویش اس لیے ہے کہ یہاں جرائم ہوتے ہی نہیں اور یہاں کی پولیس بھی غیر مسلح ہوتی ہے جبکہ خوف اس لیے نہیں کہ ایسے واقعات یہاں ہوتے ہی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی ناخوشگوار واقعے سے نمٹنے کے لیے یہاں اسپیشل آرمڈ فورس ہے جسے کل عام لوگوں نے دہشت گردی کے واقعے کے بعد آپریشن کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس فورس نے واقعے کے صرف نصف گھنٹے بعد کرسچن دہشت گرد برینٹن ٹرسٹ سمیت 4 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔ اکرام الحق کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ میں تمام لوگ فرقہ اور مذہب سے بالاتر ہوکر ” انسان دوست ” کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد دیگر مذاہب کے تمام لوگ مسلمانوں سے جس طرح کی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کررہے ہیں وہ بھی مثالی ہے۔ سب کو اس واقعے پر افسوس اور حیرت ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ خونی واقعے کے بعد حکومت نے حفاظتی اقدامات کے طور پر تمام مساجد بند کر دی ہیں۔ یہ مساجد اتوار کو کھولے جانے کا امکان ہے۔ اوک لینڈ میں رہنے والے انگریز اخبار کے کراچی کے صحافی شیخ تاج نے “جسارت ” سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پورے نیوزی لینڈ کی آبادی تقریبا 50 لاکھ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہوگی۔ لیکن جمعہ کو 2 مساجد میں حملے کے بعد جس طرح یہاں کے غیر مسلم مقامی باشندوں سمیت سب ہی مسلمانوں سے جس طرح کی ہمدردی اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کررہے ہیں اس سے عدم تحفظ کا احساس تک نہیں ہو رہا۔ متعدد افراد بلا تفریق رنگ و نسل دونوں مساجد پہنچ کر مسلمانوں سے ملاقات کررہے ہیں اور انہیں یہ احساس دلارے ہیں کہ وہ بھی اس غم میں ان کے ساتھ ہیں۔ شیخ تاج نے اس بات سے اتفاق کیا کہ نیوزی لینڈ پر اس واقعے بعد ” دہشت گردی ” کے خونی واقعے کا داغ تو لگ گیا ہے۔ تاہم شیخ تاج کا کہنا ہے یہاں کی خاتون وزیراعظم جیسیڈا آرڈن کا یہ مؤقف کہ واقعے میں شہید ہونے والے بھی ہم جیسے انسان تھے اس لیے وہ خود اس واقعے کی مذمت کرتی ہیں۔ دہشت گرد آسٹریلین ہے اب ہم دیکھنا پڑے گا کہ اسے اسلحہ رکھنے کی اجازت کس نے دی۔ صحافی شیخ تاج نے بتایا ہے کہ ابھی تک یہ بات حتمی طور پر معلوم نہیں ہوسکی کہ شہید ہونے والے کتنے پاکستانی تھے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ النور مسجد میں ان کے خاندان کے بھی مرد و خواتین نماز کے لیے پہنچے تھے مگر خوش قسمتی اور اللہ کی مہربانی سے وہ گولیوں کی زد میں نہیں آئے۔ البتہ ان کی بیٹی کے سامنے موجود ایک بچی دہشت گرد کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوگئی ۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں کام کرنے والی این جی اوز بھی مسلمانوں کے ساتھ خاصی ہمدردی کا اظہار کررہے ہیں اور متاثرہ خاندانوں اور مساجد کی مالی مدد بھی کر رہے ہیں۔