معیشت کی بہتری کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں

300

وزیراعظم عمران خان نے اپنے منشور کے مطابق 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کی ٹھان لی ہے اور اس سلسلے میں چاروں صوبوں میں شہروں اور جگہوں کا تعین کرلیا گیا ہے جہاں بلند بالا عمارتوں کی شکل میں فلیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ اِن فلیٹ کی قیمت 30 لاکھ روپے ہوگی اور بقول اسٹیٹ بینک یہ بہت سستے فلیٹ ہوں گے جن میں 90 فی صد قرضہ شامل ہوگا اور ان تعمیراتی سرگرمیوں کے باعث تقریباً 40 صنعتیں جو تعمیرات سے متعلق ہیں ان کے کام میں اضافہ ہوگا اور اس سے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ تقریباً 40 بین الاقوامی تعمیراتی کمپنیاں اُن سے رابطے میں ہیں جو ان فلیٹس کی تعمیر میں دلچسپی رکھتی ہیں اور ان کمپنیوں کے ذریعے حکومت بہت جلد غریب عوام کو چھت فراہم کرے گی۔
ایک طرف یہ صورتِ حال ہے دوسری طرف ملک کی معیشت کو بہتری کی جانب لے جانے کے لیے جس منصوبہ بندی، جن اصلاحات اور سب سے بڑھ کر جس ذہن اور جس سوچ کی ضرورت ہے وہ حکومت کے ایوانوں میں، اجلاسوں میں، تقریبات میں اور اعلانات میں نظر نہیں آتی۔ عمران خان صاحب کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں بہت ٹیکس جمع ہوسکتا ہے، میں ٹیکس وصولی کو ڈبل کرکے دکھاؤں گا، جب کہ سال 2018-2019 کی پہلی ششماہی میں 57 ارب روپے کا شارٹ فال سامنے آیا ہے۔ 8 مہینوں کے باوجود نہ تو ٹیکس کے دائرے میں کوئی وسعت ہوئی ہے اور نہ ہی ایف بی آر میں کوئی واضح اصلاحات سامنے آئی ہیں۔ ایف بی آر میں دو طرح کی اصلاحات ہے جو لازمی ہیں، ایک ٹیکس وصولی کی پالیسیوں میں اصلاحات اور دوسرے انتظامی اصلاحات لیکن اس سلسلے میں حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔ نئی ایف بی آر بنالیں گے، اس قسم کے بیانات سے کوئی فائدہ نہیں، اصل میں معیشت کو دستاویزی بنانے، ٹیکس دہندہ اور ٹیکس وصول کنندہ کے تعلق کو کم کرنے اور ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مالیاتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے اس کو کم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ٹیکس کی وصولی میں اضافہ کیا جائے۔
دوسرا اہم مسئلہ پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کا ہے۔ بجلی کی چوری، ٹرانسمیشن کے دوران نقصانات اور تمام بلوں کی وصولی جیسے اہم معاملات شاید حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں، اسی لیے گردشی قرضہ 600 ارب روپے، 1000 ارب روپے اور اب 14 سو ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک آسان حل تو یہ ہے کہ جو صارفین ایمانداری سے بجلی کا بل ادا کررہے ہیں، ان پر مزید بوجھ لاد دیا جائے لیکن یہ اُن صارفین کے ساتھ ظلم ہے، وہ بھی تنگ آکر بجلی کی چوری کا راستہ اختیار کرلیں گے۔ یہ گردشی قرضہ ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے لیکن حکومت اس کے حل میں نہایت سست روی سے کام لے رہی ہے۔حکومت اس معاملے میں مطمئن نظر آتی ہے کہ اس نے دوست ممالک سے روابط کرکے اور ملکی معیشت کی کمزوری کو سامنے رکھ کر اِن سے سات آٹھ ارب ڈالر جمع کرلیے ہیں اور مزید تین چار ارب ڈالر اگلے چند مہینوں میں مل جائیں گے، اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو بڑھتا جارہا تھا اسے کنٹرول کرلیا ہے۔ اسی طرح درآمدات پر مختلف ریگولیٹری ڈیوٹیز لگا کر کچھ کمی کرلی ہے جب کہ برآمدات میں معمولی اضافہ بھی ہوا ہے، اس طرح تجارتی خسارے کی صورت حال میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن یہ سب مستقل حل نہیں ہیں ان سے حکومت کو بلاشبہ وقتی طور پر سانس لینے کا موقع مل گیا ہے لیکن مالی سال 2019-20 میں کیا ہوگا؟۔ اسی طرح رواں سال کی آخری سہ ماہی میں بیرونی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔
ایک طرف ملک کو زرمبادلہ کی ضرورت ہے جب کہ دوسری طرف سرکاری اداروں کی سست روی، قانونی پیچیدگیوں اور طویل کاغذی کارروائیوں کے باعث ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کے منظور شدہ فنڈ پاکستان میں پہنچ نہیں پاتے۔ چناں چہ سال 2018-19 کے وفاقی بجٹ میں بیرونی امداد کو 9.5 ارب ڈالر کا جو تخمینہ لگایا گیا تھا وہ حکومت کی نااہلی اور سست روی کے باعث 6 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ایک طرف ملک کی معیشت کی یہ صورتِ حال اور دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں ڈھٹائی، بے حسی اور خود غرضی کی یہ صورت ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی نے مل کر وزیراعلیٰ، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، وزرا اور ایم پی اے کی تنخواہ میں کئی گناہ اضافے کا بل منظور کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ ارکان کے ڈیلی الاؤنس، ہاؤس رینٹ، یوٹیلیٹی الاؤنس اور وزیراعلیٰ کو گھر دینے کا بل بھی منظور کرلیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اس بل کی منظوری کو روک دیا ہے لیکن کیا وہ ملک کی سب سے بڑی اسمبلی کا دباؤ برداشت کرلیں گے، یہ وقت بتائے گا۔