نیوزی لینڈ کی مساجد میں دہشت گردی کیوں؟ 

680

نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر جمعہ 15 مارچ کو تنہا دہشت گرد نے مسلسل کم و بیش 20 منٹ تک فائرنگ کرکے 49 افراد کو شہید اور متعدد کو زخمی کردیا۔ دہشت گرد آسٹریلین بتایا جاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے اس کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا مگر واقعے میں شہید اور زخمی ہونے والے سب ہی مسلمان ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ’’دنیا‘‘ خاموش ہے کہیں سے کوئی سخت ردعمل نہیں آرہا نہ آیا۔
نیوزی لینڈ کا شمار دنیا کے پرامن ممالک میں ہوتا ہے جہاں اس طرح کے خطرناک واقعات کم ہی ہوا کرتے ہیں۔ خوش فہمی تھی کہ مسلمان بھی وہاں محفوظ ہیں یا یہ کہ مسلمانوں کے لیے یہ ملک بہت بہتر ہے۔ مگر مساجد پر تنہا مسلح شخص کی اس خونیں کارروائی نے نیوزی لینڈ کے حوالے سے اس غلط فہمی کا پردہ چاک کردیا۔ خیال ہے کہ اس واقعے پر بیش تر ممالک اپنے شدید ردعمل کا اظہار کریں گے مگر سوال یہ بھی ہے کہ کسی قسم کا ردعمل آئے گا بھی کیوں؟ حملہ آور مسلمان بھی نہیں تھا اور مرنے والے غیر مسلم بھی نہیں تھے۔ حملہ بھی کسی شراب خانے، نائٹ کلب یا مندر اور گرجا گھر میں بھی نہیں ہوا۔ یہ حملہ تو مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں ہوا ہے۔ دنیا تو خود مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے ہوئے نہیں تھکتی اس لیے کیسا ردعمل اور کس کے لیے ردعمل۔
خوش قسمتی ہے کہ سوشل میڈیا اس پر خاموش نہیں ہے۔ اس میڈیا کے مطابق نیوزی لینڈ دہشت گرد کی بندوق پر لکھا ہوا تھا ’’حملہ آور دہشت گرد کو عالمی امن کے ٹھیکیدار ذہنی مریض کہہ دیں، غور کیجیے کہ دہشت گرد کی بندوق پر کیا لکھا ہوا ہے۔ اس کی بندوق اور میگزینوں پر متعدد عبارتیں درج ہیں جن میں سے ایک جملہ ہے “vienna? 1683” اس جملے کا پس منظر محاصرہ ویانا اور جنگ ویانا ہے جب جولائی 1683ء میں عثمانی فوج نے قرۃ مصطفی پاشا کی قیادت میں دو ماہ تک ویانا کا محاصرہ کیا تب 70 ہزار صلیبی فوجیں ویانا پہنچی تھیں، یہ عثمانیوں اور صلیبیوں کے درمیان ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ جب کہ بندوق کی نالی پر ایک عبارت درج ہے جس میں مہاجرین اور سیاحوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’جہنم میں خوش آمدید‘‘ اس کے علاوہ بھی متعدد حملے لکھے گئے ہیں جن سے یقین کی حد تک شبہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد عیسائی مذہبی پس منظر رکھنے والا شخص تھا جو مسلمانوں سے شدید نفرت کرتا تھا اور اس نفرت کی وجہ وہ خود تاریخ سے ڈھونڈ کر لائے الفاظ جو اس نے بندوق پر لکھ دیے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی جن مساجد میں موجود نمازیوں کو مسلح ملزم نے گولیوں کا نشانہ بنایا ان میں ایک مسجد النور بھی ہے۔ چوں کہ یہ حملہ مسلمانوں پر ہوا ہے اس لیے ہمیشہ کی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے حملہ آور کا دماغی توازن درست نہیں تھا۔ لیکن ایسا بھی کوئی پاگل ہوسکتا ہے کیا جو گاڑی درست طریقے سے چلاکر اپنے ہدف کی طرف پہنچے اور پھر مساجد میں موجود مسلمانوں پر گولیاں برسا دے؟ ہوسکتا ہے کہ دنیا پر حاوی جدید ماہر ین اس سوال کا جواب اثبات میں دے ڈالیں۔ کیوں کہ مسلمانوں کا خون تو ہے ہی بے قیمت سو کچھ بے وقعت بھی ہوگیا تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔
دہشت گرد تو صرف مسلمان ہوسکتے ہیں جو انتہائی چالاکی سے منصوبہ بندی کی کارروائیاں کرتے ہیں اور اپنا نشان تک نہیں چھوڑتے۔۔۔ رہی بات دیگر مذاہب کے جنونیوں کی تو انہیں تو ان کا اپنا ملک قانون اور معاشرہ بھی ’’پاگل‘‘ کا سرٹیفکیٹ دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ اس لیے یہ بات بھی درست ہی تو ہے کہ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیموں کو آواز اٹھانے کے لیے شرم دلانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ایسی تنظیمیں اتنی فارغ بھی نہیں کہ وہ ’’معمول‘‘ کے تحت مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر شور کریں۔ وہ تو ان دنوں عورت کو حق دلانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس لیے اگر آپ سمجھتے ہے کہ اس طرح کی باتوں سے آپ ان کی غیرت جگا سکتے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں، بھلا جن کا وجود ہی بے غیرتی کا نتیجہ ہو ان میں غیرت کہاں سے آسکتی ہے۔ لیکن پھر ہمیں سوچنا تو ہوگا کہ نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے کے پیچھے کیا عوامل ہے۔ ایسا تو نہیں کہ اس حملے کے پیچھے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگی کارروائیاں ہوں جس میں مسلمان فوج نے ہندو فوج کو منہ توڑ جواب دے کر خاموش کرادیا ہے۔ جس کا جواب نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کو اس طرح دیا ہو۔!
یہ بات تو طے ہے کہ مسلمانوں کی جوابی طاقتور کارروائیوں کو موجودہ حالات میں غیر مسلم باآسانی برداشت نہیں کر پارہے۔ وہ ہر صورت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں۔ ایسے میں تمام مسلمان ممالک خصوصاً پاکستان کو اپنے دشمنوں سے مذاکرات کرتے ہوئے بھی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ خوش فہمی ہے کہ پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کا خواب دکھانے والے وزیراعظم عمران خان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے مثالی اور قابل تقلید اقدامات کریں گے۔ خیال رہے کہ آسٹریلوی وزیراعظم نے بھی دہشت گرد کے آسٹریلوی شہری ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا انتہا پسند اور متشدد دہشت گرد ہے جس نے مسجد پر فائرنگ کر کے کئی معصوم انسانی جانوں کو ختم کیا جس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ ہمارے وزیراعظم پاکستان عمران خان سمیت دنیا بھر سے لوگوں نے کرائسٹ چرچ میں مساجد پر ہونے والے حملے کی پرزور مذمت کی ہے۔ لیکن مذمت کرنے والوں کی غیر مسلم اکثریت ایسی ہے کہ جن کی مذمت کے اظہار کو بھی نیک نیتی سے تعبیر کیا جائے۔ یاد رہے کہ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنے بیان میں کہا کہ نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں مساجد پر ہونے والے حملوں میں 4 پاکستانی شہری زخمی ہوئے جب کہ ان واقعات کے بعد سے 5 پاکستانی شہری لاپتا بھی ہیں۔