مذہب اور جنگ

570

اقبال نے اپنی ایک نظم میں مولانا سے سوال کیا۔
اے نگہ تیری مرے دل کی کشاد
کھول مجھ پر نکتہ حکمِ جہاد
مولانا روم نے اس کے جواب میں فرمایا:
نقش حق را ہم بہ امر حق شکن
بر زجاجِ دوست سنگیں دوست زن
ترجمہ:۔ حق یعنی خدا کی بنائی ہوئی تصویر کو خدا ہی کے حکم سے توڑ مطلب یہ کہ دوست کے شیشے پر دوست کا پتھر مار۔
خورشید ندیم عہد جدید کے کسی مفکر اور کسی قوم کے یہاں سے جنگ کا یہ تصور نکال کر دکھائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا تصور جہاد عہد حاضر کے تصور جنگ سے کروڑوں گنا بہتر ہے مگر خورشید ندیم اس بات پر بھنگڑا ڈال رہے ہیں کہ اب اسلام کا تصور جنگ بھی کہیں بروئے کار نہیں آسکتا۔ ارے بھائی جس طرح پوری انسانیت کو اسلام کے دیگر تصورات کی ضرورت ہے اسی طرح پوری انسانیت کو اسلام کے ’’تصور جنگ‘‘ کی بھی حاجت ہے۔ اس لیے کہ اس تصور جنگ کے بغیر انسانیت جنگ کی اصل کو نہیں پاسکتی، قیامت تک بھی نہیں۔مگر خورشید ندیم اسلام کے تصور جنگ کو سراہنے کے بجائے اس بات پر خوش ہورہے ہیں کہ اب اسلام کا تصور جنگ باقی و موثر نہیں ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ تک کہہ دیا کہ اب دنیا میں جنگیں ہوں گی تو مفادات کی بنیاد پر مذہب کی بنیاد پر نہیں۔
انسانیت کی تاریخ یہ ہے کہ ’’حق‘‘ نے ہمیشہ جنگ ’’اصول‘‘ کی بنیاد پر اور باطل نے ہمیشہ جنگ مفادات کی بنیاد پر کی ہے۔ رسول اکرمؐ کی حیات طیبہ کے زمانے میں ہونے والی ساری جنگیں اس کا ثبوت ہیں۔ غزوہ بدر میں ایک طرف مسلمان تھے جو صرف اور صرف حق کے غلبے کے لیے صف آرا تھے اور دوسری جانب کفار اور مشرکین کا لشکر تھا جو سردارانِ مکہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے میدان جنگ میں موجود تھا۔ آج بھی مسلمانوں کو اسلام کے علمبردار حکمران میسر آجائیں گے تو آج بھی مسلمان کسی نہ کسی درجے میں غزوہ بدر کی مثال کی پیروی کریں گے۔ افغانستان میں سوویت یونین اور امریکا کے خلاف ہونے والا جہاد اس کی ایک بہت اچھی مثال ہے۔
بلاشبہ مغربی دنیا کے غلبے نے مذہب کو بظاہر پس منظر میں دھکیل دیا ہے مگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو آج بھی مذہبی جذبہ اور مذہبی پس منظر مختلف اقسام کی جنگوں کی پشت پر موجود ہے۔ یورپ کہنے کو ایک سیکولر خطہ ہے مگر یورپ نے گزشتہ پچاس سال سے صرف اس لیے ترکی کو یورپی یونین کا رکن نہیں بنایا کہ وہ ایک مسلمان ملک ہے۔ حالاں کہ ترکی آئینی اعتبار سے ’’سیکولر‘‘ ہے۔ سیاسی اعتبار سے ’’جمہوری‘‘ ہے اور شراب، جسم فروشی اور جوئے خانوں کے اعتبار سے ’’جدید‘‘ مگر یورپی اتحاد میں شمولیت کے سلسلے میں نہ ’’آئینی سیکولرازم‘‘ ترکی کے کام آرہا ہے نہ یورپی اتحاد میں شمولیت کے لیے ترکی کی ’’جمہوریت‘‘ اس کے کام آرہی ہے اور نہ یورپی اتحاد میں شمولیت کے سلسلے میں ترکی کے شراب خانے، جوئے خانے اور جسم فروشی کے مراکز کام آرہے ہیں۔ ترکی کا وہ اسلام جو نہ آئین میں ہے نہ حکومت میں نہ ریاست میں ترکی کی راہ کا پتھر بنا ہوا ہے۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذہب ترکی اور یورپی اتحاد کی ’’سیاسی جنگ‘‘ کا مرکز ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا کے صدر جارج بش نے امریکی قوم سے خطاب میں ’’کروسیڈ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جس کا ترجمہ ’’صلیبی جنگ‘‘ ہے اور صلیبی جنگ ایک مذہبی جنگ تھی۔ جارج بش کے خطاب کے بعد اٹلی کے وزیراعظم سِلویو برلسکونی نے اخباری نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ یہ بھی ایک مذہبی پس منظر کا حامل بیان تھا اور اس سے بھی یہی ثابت ہوا کہ مغرب مسلمانوں کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے اس کا محرک مذہب بھی ہے اور تہذیب بھی۔ اٹلی کے وزیراعظم کے بعد جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام اور عیسائیت کے تصورِ خدا کا موازنہ کر ڈالا۔ انہوں نے کہا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے کیوں کہ ان کے بقول عیسائیت کے خدا نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے حضرت عیسیٰؑ کو صلیب پر لٹکا دیا۔ ایش کرافٹ نے کہا کہ اس کے برعکس اسلام کا خدا ایسا خدا ہے جو اپنی عظمت کے اظہار کے لیے اپنے پیروکاروں سے جہاد کی صورت میں قربانی طلب کرتا ہے۔ ان بیانات سے ثابت ہوا کہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں نے نائن الیون کے بعد سے اب تک مسلمان ممالک اور خود مسلمانوں کے ساتھ جو کیا ہے اس کا پس منظر مذہبی ہے۔ مطلب یہ کہ افغانستان کے خلاف جارحیت بھی مذہبی تھی اور ہے اور عراق کے خلاف جنگ بھی مذہبی تھی۔ خورشید ندیم کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کشمیر اور فلسطین کے مسائل مسلمانوں کے مسائل نہ ہوتے تو وہ کب کے حل ہوچکے تھے۔ اگر بوسنیا، چیچنیا، سنکیانگ، کوسوا، شام، لیبیا، برما کے مسئلوں کا پس منظر اسلامی نہ ہوتا تو یا تو ان علاقوں میں کوئی قتل و غارت گری ہوتی ہی نہ یا ہوتی تو مسئلہ کب کا حل ہوچکا ہوتا۔ خود یورپ، امریکا اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو ’’سلوک‘‘ ہو رہا ہے اس کی وجہ بھی مذہب ہی ہے مگر خورشید ندیم نے مسلمانوں کے حالات کو نہ دیکھنے اور نہ سمجھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ چناں چہ انہیں حال اور مستقبل میں جنگیں مذہب کی بنیاد پر ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہیں۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ سیکولر ازم نے اپنے ساتھ وہی جامعیت اور تقدیس وابستہ کرلی ہے جو مذہب کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ چناں چہ سیکولر ریاستیں اور حکمران جو مسائل اور جو بحران پیدا کررہے ہیں اور کریں گے اس کی پشت پر ’’سیکولر مذہبیت‘‘ موجود ہوگی۔