پاک بھارت کشیدگی کو سرحدکے دونوں طرف حکومتوں نے اپنی سیاسی ساکھ بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس حملے سے مودی اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ نریندر مودی کو ایک ایسے وزیراعظم کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو پاکستان کا مقابلہ کرنے اور اسے مٹانے کا عزم رکھتا ہے۔ عمو ماً جنگی ماحول سے حکمران جماعت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ وزیراعظم مودی بالا کوٹ حملے کو اپنی فتح کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ کہاں وہ سما تھا کہ مودی کی شکست یقینی نظر آرہی تھی اور کہاں اب یہ حال ہے کہ تمام سروے بی جے پی کو کانگریس سے آگے ظاہر کررہے ہیں۔ دونوں طرف ماحول ایسا پیدا کردیا گیا ہے کہ بنیادی سوال پوچھنا غداری کے مترادف بنادیا گیا ہے۔ بھارت میں پلوامہ حملے میں پاکستان کے کردار پر تو طویل اور شور شرابے سے بھرپور بحث مباحثہ ہوسکتا ہے لیکن کسی کو ٹھنڈے دل سے یہ پوچھنے کی اجازت نہیں کہ بھارتی فوج کا وہ کون سا ظلم تھا جس نے عادل احمد ڈار کو خود کش حملہ آور بننے کی ترغیب دی۔ اس فاقہ کش مجاہد کے پاس لاکھوں روپے کا ڈھائی سو کلو دھماکہ خیز مواد کہاں سے آیا اور کس نے فراہم کیا۔ کنٹرول لائین پر تو اِدھر کی چیز اُدھر اور اُدھر کی چیز اِدھر جانا ممکن نہیں۔ تو پھر کہیں ایسا تو نہیں کسی گھر کے بھیدی نے یہ لنکا ڈھائی ہو؟ پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو یہاں جس طرح کسا گیا ہے اس کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز بھارتی طیاروں کے پے لوڈ گرانے کا تذکرہ کرسکتے ہیں، جلے ہوئے درخت اور گڑھے دکھا سکتے ہیں، ایک مرے ہوئے کوے کو بھی جائے وقوع پر لاکر ڈالا جاسکتا ہے لیکن کسی کو یہ پوچھنے کی اجازت نہیں کہ بھارت کے طیارے ساٹھ کلو میٹر تک اندر کیسے گھس آئے؟ ہمارے ریڈار اس وقت خوابیدگی کے کس مرحلے میں تھے؟ ان طیاروں کی بہ حفاظت واپسی کیسے اور کس نے ممکن بنائی؟ کہیں ایسا تو نہیں یہاں بھی کوئی چلمن سے لگا بیٹھا ہو؟
پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں جنگ کا ماحول اور قومی سلامتی کا موضوع عوامی بہبود سے متعلق تمام سوالات کو اس طرح نگل گیا کہ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ پاکستان میں ’’میرے وطن‘‘ کی صداؤں میں پٹرولیم مصنوعات سمیت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ بھارت میں اقتدار میں آنے کے بعد مودی سرکار
کے وعدوں اور کارکردگی کے فرق کو جانچنے اور اس کی بنیاد پر ووٹ دینے یا نہ دینے کا معاملہ دیار حرماں سے کوسوں دور نکل گیا تو پاکستان میں بھی عوام کی توجہ بنیادی سہولت، روزگار کے مواقع اور توانائی کی کمی جیسے دیرینہ مسائل سے ہٹ گئی۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں بارش اور سیلابوں نے تباہی مچادی لیکن حکومتی کارکردگی کہیں زیر بحث نہیں آئی۔ بھارت میں مودی سرکار کا مقابلہ کرنے میں اپوزیشن کی جماعتیں مشکل میں نظر آرہی ہیں تو یہاں بھی حکومت اور فوج کی ایک پیج پر یکجائی کے بعد اپوزیشن کو اسی میں خیر نظر آئی کہ وہ حکومت سے مکمل یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ بالاکوٹ حملے کے بعد بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے مواقع میں اضافہ ہوا ہے تو پاکستان میں بھی دگر گوں حکومتی کارکردگی کو سنبھلنے کا موقع ملا ہے۔ اب یہاں نہ کوئی وزیر اعلیٰ پنجاب پر خندہ زن ہے اور نہ کسی کو وفاق اور سندھ کی محاذ آرائی یاد ہے۔ ایک سال ہونے کو آرہا ہے حکومت نے کتنے روزگار کے مواقع مہیا کیے، صحت اور علاج کی کتنی سہولتیں دریافت کیں، مستقبل میں تعلیم کی درگت کس طرح بنائی جائے گی، اس ضمن میں کون کون سے منصوبے سرکار کے زیر غور ہیں، کتنے اسکول اور کالج بن چکے ہیں کتنے زیر تعمیر ہیں۔ عوام کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے پولیس ریفارم کن دیواروں پر بال کھولے سو رہی ہے، حکومت نے قرضوں کے بوجھ کو اور کتنا بوجھل
کردیا۔ ڈیموں کی تعمیر کا کیا بنا، سانحہ ساہیوال کے مجرمان کن پناہ گاہوں میں آرام کررہے ہیں، اپنے راؤ انوار کا کیا حال چال ہے، کسی کو یاد ہے اور نہ حکومت سے پوچھنے کا یارا ہے۔ رہی سہی کسر سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاج معالجے سے انکار نے پوری کردی ہے۔ پاکستان کو لاحق دیرینہ مسائل میں سے کسی ایک کا بھی کوئی ایک بال ٹیڑھا کیے بغیر وزیراعظم عمران خان کی جے جے ہورہی ہے حالاں کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں امریکی مداخلت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
بھارت میں پاکستان کے خلاف گرج چمک دکھانا انتخابات میں کامیابی کا آزمودہ اور کارگر نسخہ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو پاکستان کے حوالے سے بھارتی عوام کو مشتعل کرنے کے مواقع کم ہی میسر تھے پلوامہ حملے نے انہیں یہ مواقع چھپر پھاڑ کر مہیا کردیے۔ پاکستان میں امریکا کے دباؤاور احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے بھارتی مفادات کو فائدہ پہنچانے کا عمل آسان نہیں تھا، اب روزانہ کی بنیاد پر بھارت کے مفاد میں اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جن پر لیبل ’’پاکستان کے قومی مفاد‘‘ کا چسپاں ہوتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے عہد سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں یہ خیال تقویت پارہا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ جس کی وجہ جہادی تنظیمیں ہیں۔ اس معاملے میں پوری دنیا ایک طرف ہے اور پاکستان ایک طرف۔ تب سے اسٹیبلشمنٹ جہادی تنظیموں کے خلاف ایکشن کے درپے تھی۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی اور پلوامہ حملے میں جیش محمد کے ملوث ہونے کو ایک موقع باور کیا گیا اور وہ سب کچھ کیا گیا جو بھارت اور امریکا کا دیرینہ مطالبہ تھا۔ پلوامہ حملے کی تحقیقات کی پیشکش کے جواب میں بھارت نے جو ڈوزئیز دیا تھا اس میں پاکستان کی حکومت کو 20افراد کو پکڑنے کا حکم دیا گیا تھا ہماری حکومت نے خلوص کی شدت سے جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت کے 300 سے زائد کارکن گرفتار کرلیے۔ ان تین سو افراد کا کیا جرم تھا؟ کیا یہ سب دہشت گرد تھے؟ اگر دہشت گرد تھے تو ان کو پہلے گرفتار کیوں نہیں گیا؟ ڈوزئیز کے بعد ہی کیوں گرفتار کیا گیا؟ یہ کیسے دہشت گرد تھے جو اس آسانی سے اتنی بڑی تعداد میں گرفتار کر لیے گئے؟ امریکا اور بھارت ان گرفتاریوں کے بعد مطمئن ہوگئے؟ امریکا کے بعد اب ہمیں بھارتی ڈومور کی تعمیل بھی کرنا ہوگی؟
جماعت الدعوہ، فلاح انسانیت اور دیگر تنظیموں کے سیکڑوں تعلیمی ادارے، مدارس، اسکول، کالجز، ایمبولنس سروس، رفاعی اور ریسکیو ادارے حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیے ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد امداد، مختلف نوعیت کی آسانیوں، ریلیف اور سہارے سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہزاروں بچوں پر تعلیم کے حصول کے دروازے بند ہوگئے ہیں اور ہزاروں افراد بے روزگار۔ کالعدم تنظیمیں اور مدارس دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مدارس بند کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کے امریکی اور بھارتی ایجنڈے کی تعمیل میں طریقہ واردات یہ وضع کیا گیا ہے کہ نام کالعدم تنظیموں کا لیا جائے اور کارروائی مدارس کے خلاف کی جائے۔ یہ تمام ادارے مخیر افراد کے تعاون سے خدمات انجام دیتے تھے۔ حکومتی تحویل میں جانے کے بعد یہ کسی طور ممکن نہیں کہ مخیر افراد حکومت پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی ا مداد کا سلسلہ جاری رکھیں۔ وہ بچے جن کی تعلیم کا سلسلہ آج نہیں تو کل بند ہوجائے گا، وہ لاکھوں افراد جو امداد اور سہارے سے محروم ہوگئے، وہ ہزاروں افراد جو بے روزگار ہوگئے ان سب کے دکھوں کا مداوا کرنے کا حکومت کے پاس کوئی پلان یا منصوبہ ہے؟ یا ایسے کسی منصوبے کا تصور بھی حکومت کے حاشیہ خیال میں ہے؟ پہلے ملک بھر میں تجاوزات کے خاتمے کے نام پر لاکھوں افراد کا روزگار چھین لیاگیا اب اُن اداروں سے بھی محروم کیا جارہا ہے جو انہیں بھیک مانگنے سے بچاتے تھے۔ اور یہ سب کچھ ہورہا ہے بھارت کی مدد اور اس کی راہ کے کانٹے چننے کے لیے۔ پاکستان اور بھارت دونوں طرف حکومتوں نے قومی سلامتی سے متعلق جذباتی ماحول سے خوب خوب اپنے مفادات کشید کیے ہیں وہ مفادات جن کا ملک کے دیرینہ مسائل اور قومی ترجیحات سے کوئی تعلق نہیں۔