نیشنل ایکشن پلان کا مقصد دینی جماعتوں کے رہنماؤں کی نظر بند کرنا ہے، سینیٹر مشتاق خان

193

پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا ہے کہ مودی کی دھمکیوں کے بعد حکومت کو نیشنل ایکشن پلان کی یاد آئی ۔ نیشنل ایکشن پلان کا مقصد مساجد و مدارس کو تالے لگانا ہے اور دینی جماعتوں کے رہنماؤں کو نظر بند کرنا ہے۔ مدارس و مساجد کو تالے لگانا، دینی جماعتوں کے مراکز پر چھاپے مارنا اور رہنماؤں کو گرفتار و نظر بند کرنا کسی صورت قبول نہیں۔ ختم نبوت ، ناموس رسالت ، مدارس و مساجد اور مسجد اقصیٰ ہماری ریڈ لائنز ہیں، ان کی حفاظت کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت بچوں کے اسکولوں میں پڑھنے کی فیس تو دیتے ہیں لیکن مدارس میں پڑھانے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔ دینی تعلیم بھی دنیاوی تعلیم کی طرح ضروری اور ناگزیر ہے۔ حکومت 127افراد کو اعلیٰ ترین سولم ایوارڈز دے رہی ہے لیکن ان میں قرآ ن و حدیث کے علما، مفسرین، محققین قرآن و حدیث اور مساجد و مدارس کو چلانے والے منتظمین کے نام شامل نہیں ۔ اعلیٰ ترین ایوارڈ کسی کی ذاتی نہیں پاکستان کی امانت ہے، مساجد و مدارس کے علما و محققین بھی پاکستانی شہری ہیں اور ان کی قابل قدر خدمات ہیں۔ ان کو نظر انداز کرنا زیادتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ مفتاح العلوم ڈگر نری ضلع کرک میں جلسہ دستار بندی و چادر پوشی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے نائب امیر مولانا تسلیم اقبال، ضلع کرک کے امیر محمد ظہور خٹک، لکی مروت کے امیر حاجی عزیزاللہ خان مروت، ڈیرہ اسماعیل خان کے امیر محمد یوسف خٹک اور بنوں کے امیر محمد اجمل سمیت دیگر ذمے داران اور علاقہ عمائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کامیاب طلبہ و طالبات میں اسناد تقسیم کیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملہ بدترین دہشت گردی ہے، حملوں میں ملوث شخص کی بندوق پر تاریخی حوالوں کے اندراج سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ذہنی مریض نہیں ، اس نے یہ کارروائی سوچ سمجھ کر اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے مقصد سے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی مسلمان کسی کو قتل کردے تو پوری مسلم امت کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے لیکن نیوزی لینڈ واقعہ کو کوئی بھی عیسائی دہشت گردی کہنے کے لیے تیار نہیں۔ مغرب اسلامو فوبیا میں مبتلا ہے اور یورپ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہے۔ عدل ومساوات کا نظام اسلام یورپ کا مقدر ہے۔ مدارس اور مساجد کا دفاع ہم سب کی ذمے داری ہے۔