راز کیا ہے

444

آج میڈیا انڈسٹری اپنی تاریخ کے ایک سخت بحران سے گزر رہی ہے‘ میڈیا سے وابستہ افراد آج کل یہ جملہ بہت سن رہے ہیں‘ لیکن ذرا سوچیے کیا واقعی ایسا ہی ہے جیسا بیان کیا جارہا ہے؟ پاکستان میں اور دنیا بھر میں دور جدید کی میڈیا انڈسٹری کاروباری اداروں اور سرکار کے اشتہارات پر انحصار کیے ہوئے ہے‘ یہ معاملہ یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے‘ کاروباری ادارے اپنی مصنوعات کی تشہیر کرتے ہیں اور حکومتیں بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں‘ پرنٹ اور الیکٹرونک ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنا پیغام عوام الناس تک پہنچاتی ہیں‘ یہ کہنا کہ صحافت مشن تھا اب نہیں رہا یہ بات جزوی طور پر تو تسلیم کی جاسکتی ہے اسے مکمل حقیقت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کبھی بھی کسی زمانے میں بھی مشن نہیں رہی ہاں البتہ ذرائع ابلاغ کے اداروں کے مالکان ضرور اب کا خیال رکھتے ہیں کہ مفاد عامہ کے اشتہار‘ جیسا کہ تلاش گم شدہ‘ کسی کے انتقال کی اطلاع جیسے چھوٹے اشتہار بلا معاوضہ شائع کیے جاتے تھے لیکن آج کل یہ اشتہارات بھی اسٹیٹس سمبل بن چکے ہیں میڈیا انڈسٹری میں ان تبدیلوں کے باعث حکومت کہہ رہی ہے کہ ’’جاگتے رہو ہم پر نہ رہو‘‘۔
وزیر اطلاعات فواد حسین چودھری کی کچھ باتوں سے تو اتفاق ہے لیکن کچھ سے نہیں‘ بطور حکومت ان کی ذمے داری ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے جاری سرکاری اداروں کے ان تمام اشتہارات کے واجبات ادا کرنے کا بندوبست کریں شائع یا نشر ہوچکے ہیں یہ رقم کم و بیش ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ ہے اور تلخ حقائق بھی یہ ہیں کہ اس رقم کا بیش تر حصہ بلکہ بڑا حجم چند بڑے میڈیا ہاؤسز ہی لے جائیں گے اور چھوٹے میڈیا ہاؤسز کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اس سے بڑا تلخ سوال یہ ہے کہ بڑے میڈیا ہاؤسز ہی ملازمین کی چھانٹی کررہے ہیں یہاں حکومت کی ذمے داری شروع ہوتی ہے کہ وہ بے روزگاری کے عمل کو روکے‘ ذرائع ابلاغ کے اداروں کو قانون قاعدے پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے۔
پاکستان میں پرنٹ میڈیا انڈسٹری کے حالات یا مسائل تو فی الحال ایک جانب رکھیں‘ یہ تو معلوم کیا جائے کہ نجی برقی ذرائع ابلاغ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک سترہ سال میں کتنے ارب کمائے ہیں؟ کتنا ٹیکس دیا ہے‘ کتنا منافع کمایا ہے اور ملازمین کی فلاح پر کتنا خرچ کیا ہے‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق چند نجی برقی میڈیا مالکان ان سترہ سال میں ایک کھرب روپے کما چکے ہیں حقائق سامنے لانے کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے (2003-2019) تک کے ان سترہ سال میں ہونے والی آمدنی کی تفصیلات پیش کی جانی چاہیے یہ کام حکومت کا ہے جو نہیں کر رہی‘ ابھی حال ہی میں الیکشن کمیشن کے روبرو انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں اور سیاسی جماعتوں نے اپنے اخراجات کے گوشوارے داخل کرائے ہیں ان اخراجات میں میڈیا کو جاری کیے جانے والے اشتہارات کی مد میں خرچ کی جانی والی رقم کی تفصیلات کیا ہیں؟ یہ سب رقم کہاں گئی؟ کیا اس بات کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے؟ وزارت اطلاعات اس جانب ضرور توجہ دے۔
حکومت نے اخباری ملازمین کے لیے ویج بورڈ ایوارڈ کے لیے بورڈ تشکیل دیا تھا‘ جسٹس (ر) حسنات احمد اس کے چیئرمین بنائے گئے ہیں یہ کمیٹی اپنی سفارشات مرتب کرچکی ہے اور اعلان میں کیا امر مانع ہے یہ بھی بہت ہی دلچسپ کہانی ہے‘ خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ ویج بورڈ کی سفارشات کا اعلان اے پی این ایس کے انتخابات کے بعد اپریل میں کیا جائے یہ کس کی خواہش ہے؟ اور کیوں ہے؟ معاملہ سامنے آنا چاہیے ہوسکتا ہے کہ کچھ ادارے ویج بورڈ کے نفاذ کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہوں؟ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اخباری ملازمین کے مسائل ختم کرنے کے لیے آگے بڑھے‘ جو بھی آجر رکاوٹ بنے اسے قانون کے تابع لایا جائے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ نئے ویج بورڈ ایوارڈ کی سفارشات کے حوالے سے تفصیلی مشاورت ہوچکی ہے ویج بورڈ کے چیئرمین جسٹس (ر) حسنات احمد خان اپریل کے پہلے ہفتے میں اس کا اعلان کرنے والے ہیں اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ حکومت کے اداروں کے ذمے ایک ارب تیس کروڑ کے لگ بھگ واجبات کی ادائیگی کا کوئی قابل عمل لائحہ عمل بنائے مسائل کے شکار ملازمین کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے ویج بورڈ کے نفاذ کا معاملہ کس پر بوجھ ہے اور کس کے لیے بوجھ نہیں‘ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں میڈیا کے ان تمام اداروں کو جاری ہونے والے اشتہارات اور ان کی ادائیگیوں کی تفصیلات پیش کی جائیں اور اس بارے میں اپوزیشن کیوں کوئی سوال نہیں پوچھتی؟؟ شاید اس لیے نہیں پوچھتی کہ اپوزیشن کو حکومت ان ویٹنگ کہا جاتا ہے۔