یورپ پر انتہا پسندی کے تاریک سائے 

540

اب یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ہولناک حملوں میں پچاس نمازیوں کو ہلاک کرنے والا 28 سالہ آسڑیلوی برینٹن ٹارنٹ فرانس میں اسلام دشمن تحریک سے متاثر ہوا تھا۔ ٹارنٹ نے مساجد پر حملہ سے پہلے جو طویل منشور انٹرنیٹ پر شائع کیا تھا اس میں اس نے کہا تھا کہ دو سال پہلے جب وہ فرانس گیا تھا تو اسے اس بات پر سخت حیرت ہوئی تھی کہ فرانس نے ساٹھ لاکھ مسلمانوں کو کس طرح اپنے ہاں بسا رکھا ہے جو مغربی یورپ میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ اس مسئلے پر ٹارنٹ کی فرانس کے دائیں بازو کے انتہا پسندوں سے بات چیت ہوئی اور اس پر اتفاق ہوا کہ مسلمان، فرانس اور یور پ کے دوسرے ملکوں میں چھاتے جارہے ہیں اس کا حل مسلمانوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ پر قابو پاکر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ٹارنٹ کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں لازمی ہے کہ شرح پیدائش بدلی جائے۔ ٹارنٹ کا کہنا تھا کہ سفید فام یورپی شہریوں کی جگہ باہر سے آکر بسنے والے مسلمان لے رہے ہیں جو بے تحاشا بچے پیدا کررہے ہیں اور یہ مغربی تہذیب کے لیے خطرہ ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹارنٹ نے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے مساجد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا تھا۔ اور در اصل فرانس، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی میں سر اٹھاتے ہوئے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا یہی نعرہ ہے کہ باہر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی وجہ سے یورپی معاشرے کی بقا کو خطرہ ہے۔
یورپی ممالک میں انٹیلی جنس ادارے کرائسٹ چرچ کے سانحے سے بہت پہلے سے دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کے بارے میں خبردار کر رہے تھے کہ یہ مسلم شدت پسندوں اور مسلمانوں کی امیگریشن کی آڑ میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہیں اور ان کی کارروائیاں، اتنی ہی خطرناک ہیں جتنی کہ مسلم شدت پسندوں کی کارروائیاں۔ انٹیلی جنس اداروں کا کہنا تھا کہ انہیں دراصل دو مونہی شدت پسندی کا سامنا ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے دوران میں دائیں بازو کے اسلام دشمن جرائم اور دہشت گرد تشدد میں زبردست اضافہ ہوا ہے خاص طور پر داعش کے حملوں کے بعد۔ ان کے اعداد وشمار کے مطابق پچھلے پانچ سال میں دائیں بازو کے جرائم میں 88 فی صد اضافہ ہوا ہے، برطانیہ اور جرمنی کے انٹیلی جنس اداروں نے خبردار کیا ہے کہ یہاں نیوزی لینڈ کی طرح حملوں کا شدید خطرہ ہے۔ اس صورت حال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اسلام دشمن برطانوی تنظیم برٹش نیشنل ایکشن نے یورپ میں دوسری اسلام دشمن تنظیموں سے گہرے روابط قائم کیے ہیں۔ اب تک یورپ میں دائیں بازو کے گروپ بکھرے ہوئے تھے لیکن پچھلے پانچ سال کے دوران میں اب یہ گروپ پورے یورپ میں مربوط اور منظم ہوگئے ہیں۔ یہی نہیں برطانیہ میں دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں اور عناصر کو یورپ سے آنے والے نازیوں اور اسلام دشمنوں سے بڑی تقویت پہنچی ہے۔ اس بات کا پہلی بار انکشاف 2013 میں اُس وقت ہوا تھا جب یوکرین سے اسکالر شپ پر آنے والے طالب علم پاولو شین برمنگھم میں مسلم برادری پر حملوں میں ملوث پایا گیا۔ سب سے پہلے اس نے ایک پاکستانی محمد سلیم کو قتل کیا اور اس کے بعد اس نے ویسٹ مڈلینڈز میں مساجد میں آتش زدگی کے لیے کئی بم نصب کیے۔ اس کو جب پولیس نے گرفتار کیا تو پتا چلا کہ یہ بم تیار کرنے میں ماہر ہے اور یورکرین میں اس کے انتہا پسندوں سے گہرے تعلقات تھے۔ یورپ کے انتہا پسندوں کے ساتھ برطانیہ کی نسل پرست نیشنل ایکشن سے قریبی روابط کے نتیجے میں برطانیہ میں مسلمانوں پر حملوں کا سلسلہ تیز ہوا ہے اور ان تنظیموں کا سب سے بڑا نشانہ مساجد بنی ہیں۔
برطانیہ میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر اب تک پولیس نگاہ رکھتی تھی لیکن اب یہ خطرہ اتنا شدید ہوگیا ہے کہ برطانیہ کی خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی MI5 کو یہ ذمے داری سونپی گئی ہے۔ مارچ 2017 سے اب تک برطانیہ میں اٹھارہ دہشت گرد حملوں کے منصوبے پکڑے گئے ہیں اور انہیں ناکام بنایا گیا ہے ان میں 14 منصوبوں میں دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیمیں ملوث تھیں۔
دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیموں کے بڑھتے ہوئے اثر اور مقبولیت کی وجہ سے یورپ کا سیاسی نقشہ بدل رہا ہے۔ اٹلی میں گزشتہ سال کے عام انتخابات میں دائین بازو کی دو جماعتیں پانچ ستاروں کی تحریک اور نارتھ لیگ نے اعتدال پسند جماعتوں کو ہرا کر مخلوط حکومت قائم کی ہے۔ ان جماعتوں کا تمام تر زور شمالی افریقا سے آنے والے پناہ گزینوں کے خلاف رہا ہے۔ جرمنی میں نسل پرست تنظیم AfDنے جو صرف پانچ سال قبل قائم ہوئی تھی جرمن عوام پر ایسا اثر کیا ہے کہ وہ نہایت سرعت سے پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے جس فراغ دلی سے شام، عراق اور افغانستان کے پناہ گزینوں کو جرمنی میں آباد کیا ہے اس پر AfDنے نہ صرف مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکائی ہے بلکہ انجیلا مرکل کی حکومت کو اتنا دق کیا ہے کہ آخر کار چانسلر مرکل کو اگلے انتخابات سے پہلے سبک دوش ہونے اور سیاست سے کنارہ کش ہونے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
جرمنی کی طرح آسٹریا میں دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت فریڈم پارٹی نے اتنی مقبولیت حاصل کر لی کہ یہ مخلوط حکومت میں شامل ہوگئی۔ سویڈن میں امیگریشن کی مخالف جماعت سویڈن ڈیموکریٹس نے پچھلے عام انتخابات میں اہم کامیابی حاصل کی ہے، ہنگری میں وزیر اعظم وکٹور اوریان کی قیادت میں دائیں بازو کی جماعت نے تیسری بار انتخابات جیتے ہیں۔ سلووینیا میں مسلمانوں کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی گزشتہ سال کے انتخابات میں اکثریتی جماعت بن کر ابھری ہے۔ پولینڈ، ڈنمارک، چیک جمہوریہ اور فن لینڈ میں بھی دائیں بازو ج کی جماعتوں نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔
غرض یورپ میں سیاسی نقشہ تیزی سے بدل رہا ہے اور اسلام دشمن اور انتہا پسند حاوی ہوتے جارہے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ کے بحران کی وجہ سے سیاسی نقشہ میں تبدیلی کے امکانات نمایاں ہورہے ہیں اور کوئی پتا نہیں کہ برطانوی سیاست کیسی کروٹ لے۔ موجودہ حالات میں کوئی تعجب نہیں کہ یورپ میں بھی نیوزی لینڈ کی طرح ہولناک حملوں کا سلسلہ شروع ہو۔ غرض یورپ پر انتہا پسندی اور مسلم دشمنی کے سائے بْری طرح سے منڈلا رہے ہیں اور یورپ تاریک دور میں داخل ہوتا نظر آتا ہے۔