بیمارئ دِل اور سیاستِ دوراں

314

مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں نواز شریف اِن دنوں جیل میں ہیں انہیں سب سے پہلے ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔ انہوں نے اس سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی تو فاضل عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا لیکن اِن کی یہ رہائی ’’فلکِ ناہنجار‘‘ کو ایک آنکھ نہ بھائی وہ ابھی جاتی امرا میں اپنی آزادی کا لطف لے ہی رہے تھے کہ احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں انہیں پھر 10 سال قید کی سزا سنادی۔ میاں صاحب کو پہلے اڈیالہ جیل میں رکھا گیا پھر ان کی خواہش پر انہیں کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کردیا گیا جہاں انہیں وہ تمام سہولتیں فراہم کی گئیں جو ایک وی آئی پی قیدی کو ملنی چاہئیں۔ پھر یہاں سے جاتی امرا بھی قریب تھا جہاں سے ان کے خاص باورچی کا تیار کردہ کھانا بھی انہیں دونوں وقت ملتا تھا۔ ہر ہفتے اہل خانہ اور پارٹی لیڈروں سے ملاقات کا بھی بندوبست تھا لیکن جیل بہرکیف جیل ہوتی ہے، اس کی عمومی فضا آدمی کو اندر سے گھائل کردیتی ہے۔ میاں صاحب تو پہلے ہی دل کے مریض تھے، لندن میں ان کا بڑا آپریشن ہوچکا تھا اس لیے جب جیل میں ذہنی دباؤ بڑھا تو دل بھی ڈانوا ڈول ہوگیا۔ مریم نواز نے اپنے والد محترم کی عیادت کے بعد خبر دی کہ میاں صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہوگیا تو اس کی ذمے دار حکومت ہوگی۔ حکومت کو بھی لینے کے دینے پڑ گئے انہیں فوری طور پر دل کے اسپتال لے جایا گیا جہاں امراض قلب کے ماہر ڈاکٹروں نے ان کا معائنہ کیا، دوائیں تجویز کیں اور انہیں اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا لیکن میاں صاحب نے ان کا یہ مشورہ قبول نہ کیا اور واپس جیل جانے پر اصرار کیا۔ چناں چہ ان کے اصرار پر انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس اثنا میں میاں نواز شریف کے برادر خورد اور پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی کرپشن کے الزام میں نیب کے ہتھے چڑھ گئے تھے، وہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ہیں اس لیے ان پر نیب کا زیادہ زور نہ چل سکا اور وہ پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی میں شرکت کے دوران اپنی آزادی انجوائے کرتے رہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی گرفتاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی چیلنج کر رکھا تھا۔ جب کہ برادر بزرگ میاں نواز شریف نے بھی خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔ میاں شہباز شریف کو عدالت نے رہا کیا تو جاتی امرا میں جشن منایا گیا اور میاں نواز شریف نے بھی جیل میں اپنے ملنے والوں کو اطلاع دی کہ وہ بھی اگلا جمعہ جاتی امرا میں ادا کریں گے۔ لیکن ان کا یہ بڑا بول قدرت (یا عدالت) کو پسند نہ آیا اور یہی اسلام آباد ہائی کورٹ جو انہیں پہلے ریفرنس میں ضمانت پر رہا کرچکی تھی اب کی دفعہ خرابی صحت کی بنیاد پر انہیں ضمانت دینے سے انکاری ہوگئی۔ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملزم کی میڈیکل رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی بیماری پاکستان میں قابلِ علاج ہے، اس لیے رہائی کی ضرورت نہیں۔ واضح رہے کہ میاں صاحب رہا ہونے کی صورت میں بغرض علاج لندن جانا چاہتے ہیں اور ضمانت کی درخواست اسی بنیاد پر دی گئی تھی۔ میاں صاحب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل سپریم کورٹ میں بھی دائر کررکھی ہے لیکن ان کی بدقسمتی کہ سپریم کورٹ نے یہ گیند پھر نیب کے صحن میں پھینک دی ہے اور نیب کو نوٹس جاری کردیا ہے۔
بہرکیف میاں نواز شریف اِس وقت جیل میں ہیں وہ علاج کے لیے پاکستان کے کسی بھی اسپتال میں داخل ہونے سے انکار کررہے ہیں۔ ڈاکٹروں کے بورڈ نے ان کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد ان کی بیماری کو سیریس قرار دیا ہے اور میاں صاحب کو انجیو گرافی کرانے کا مشورہ دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے اہل خاندان بھی انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ دل کا معاملہ ہے، وہ بیماری کو طول نہ دیں اور اسپتال میں داخل ہو کر مناسب علاج کو یقینی بنائیں لیکن میاں صاحب بھی ضد کے پکے ہیں کسی کی سننے کو تیار نہیں، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی محترم والدہ کا مشورہ بھی رد کردیا ہے جو ان کی خاندانی روایت کے سراسر منافی ہے۔ حکومت نے کسی بھی غیر متوقع ناخوشگوار صورتِ حال سے بچنے کے لیے جیل ہی میں میڈیکل یونٹ قائم کردیا ہے جس میں تین ماہرین امراض قلب مرحلہ وار ڈیوٹی دے رہے ہیں اور میاں صاحب انڈر آبزرویشن ہیں۔ میاں صاحب بیمارئ دِل کے باوجود جیل میں سیاست بھی فرما رہے ہیں، سیاست کا یہ معاملہ ہے کہ:
چھوٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
سیاستدان خواہ بسترِ مرگ پر ہو، سیاست اسے نہیں چھوڑتی اور عیادت کرنے والے اس سے سیاست کی باتیں ضرور کرتے ہیں۔اب یہی دیکھیے کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول زرداری گئے تو تھے میاں صاحب کی عیادت کے لیے لیکن عیادت کے بجائے وہ میاں صاحب کے ساتھ ’’سیاست سیاست‘‘ کھیلتے رہے۔ انہوں نے میاں صاحب سے ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی ناکامی پر بات کی اور یہ خیال ظاہر کیا کہ نیا میثاق جمہوریت ہونا چاہیے۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ اب کی دفعہ میثاق جمہوریت میں دو جماعتوں کے بجائے سب اپوزیشن جماعتوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ واضح رہے کہ پہلا میثاق جمہوریت صرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوا تھا اور دونوں ہی جماعتیں اس میثاق کی آڑ میں ایک دوسرے کو دھوکا دیتی رہیں۔ میاں صاحب نے اس تاسُف کا اظہار کیا کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو ختم کرنے کی پیپلز پارٹی کی پیش کش کو رد کرکے غلطی کی تھی۔ دونوں لیڈروں نے ملک کی موجودہ صورتِ حال پر بھی بات چیت کی اور اس میں فعال کردار ادا کرنے پر اتفاق کیا۔ بعد میں بلاول زرداری نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف بیمار ضرور ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ حکومت سے کوئی ڈیل کریں گے۔ میاں صاحب اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب سنا ہے کہ حضرت مولانا فضل الرحمن بھی میاں صاحب کی عیادت کرنے والے ہیں جس میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا موضوع زیر غور آئے گا۔
بہرکیف میاں نواز شریف ایک بڑے سیاستدان ہیں وہ جہاں بھی رہیں سیاستِ دوراں ان کے گرد گردش کرتی رہے گی۔ اعتزاز احسن ذرا صاف گو سیاستدان ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف خود علاج نہیں کرانا چاہتے ورنہ پاکستان میں دل کا بہترین علاج موجود ہے۔ وہ بچوں کی طرح لندن جانے کی ضد کررہے ہیں۔ ہم اعتزاز احسن کے اس بیان پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں سمجھتے، البتہ یہ کہتے ہیں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر میاں صاحب لندن جانے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کی سیاست بھی وہاں منتقل ہوجائے گی اور سیاستدانوں کی لندن روانگی کا تانتا بندھ جائے گا اور پھر کیا عجب کہ حکومت کے خلاف کوئی لندن پلان وجود میں آجائے۔