انسانی وسائل کی اہمیت

437

پاکستان کے قیام کے سو سال بعد یہاں کا سیاسی نقشہ کیسا ہوگا اور کیا ہونا چاہیے‘ معاشی طور پر سو سال کے سفر کے بعد پاکستان کی مشکل کیسی ہوسکتی ہے‘ اپنی سو سالہ سالگرہ بہتر اور تابناک انداز میں منانے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے‘ اس سے پہلے جتنے مندرجات پر مشتمل ورلڈ بینک نے پاکستان پر ایک رپورٹ ’’پاکستان سو کے نمبر پر‘‘ حال ہی میں جاری کی ہے جس میں ایک طرف موجودہ صورت حال کا جائزہ پیش کیا ہے اور دوسری طرف ایک خوش حال اور آسودہ پاکستان کے لیے موجودہ ارباب اقتدار کو کیا کرنا چاہیے اس سلسلے میں مختلف تجاویز و مشوروں سے ہمیں نوازا ہے۔
مثلاً ایک مستحکم پاکستان کے لیے پالیسیوں کا تسلسل‘ شفافیت اور احتساب بہت ضروری ہے۔ یہ بات اس سے پہلے بھی بارہا دہرائی جا چکی ہے کہ کاروبار کو اعتماد دینے کے لیے سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اور روزگار پیدا کرنے کے لیے پالیسیوں کا تسلسل بہت ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں صورت حال بالکل برعکس ہے۔ کبھی نان فائلر پر مختلف پابندیاں لگائی جاتی ہیں پھر پابندیاں ختم کرتے ہوئے آٹھ سو سی سی گاڑی خریدنے کی اجازت دے دی جاتی ہے پھر یہ اجازت بڑھا کر اور بڑی گاڑیاں لینے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ گیس کے نرخ اچانک سو فی صد تک بڑھا دیے جاتے ہیں پھر حکومت اس اضافے کو منسوخ کر دیتی ہے اور اضافی وصول شدہ رقم واپس کرنے پر سوچ بچار شروع ہو جاتی ہے۔ کھانے پینے کی غیر ملکی اشیا کی درآمد پر ایک حکم آجاتا ہے کہ پہلے ان اشیا برآمد میں لیبل لگوائیں اس کے نتیجے میں سیکڑوں درآمدی کینیٹرز پھنس جاتے ہیں‘ درآمد کنندگان کی رقم خطرے میں پڑ جاتی ہے جب شور مچتا ہے تو ان اشیا کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ چینی کی برآمد بالکل روک دی جاتی ہے جب طاقتور طبقات طرح طرح سے دباؤ ڈالتے ہیں تو چینی کی برآمد شروع ہو جاتی ہے۔ انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ کا اعلان ہوتا ہے پھر اس میں توسیع ہوتی ہے دوسری بار توسیع ہوتی ہے‘ تیسری بار توسیع ہوتی ہے اور ہر سال یہ تماشا ہوتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کاروباری ماحول بہتر بنانا ہوگا‘ دنیا میں اس کا ایک پیمانہ ہے جس کا نام ہے (Ease of doing Business) پاکستان اس معاملے میں 175 ممالک میں 138 نمبر پر ہے۔ کاروباری پیچیدگیوں‘ غیر ضروری سرکاری کارروائیوں اور سرکاری محکموں کے اہلکاروں کی رشوت ستانی سے تنگ آکر لوگ کاروبار بند کرکے بیرون ملک کی راہ لیتے ہیں۔ صرف انکم ٹیکس کے معاملات ہی کو لیجیے تنگ کرنے کے لیے غلط اور بے بنیاد نوٹس بھیج دیے جاتے ہیں اور اس کے بعد آپ ایف بی آر کے اہلکاروں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ٹیکس کا تخمینہ (assessment) غلط لگا کر زیادہ ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے بعد میں آپ اپیل کرتے رہیں کوئی شنوائی نہیں۔ حال ہی میں ایف بی آر کے چیئرمین نے یہ اعتراف کیا کہ ٹیکس دہندگان‘ نادہندگان اور ٹیکس چوری کرنے والوں کا تمام ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے مگر ہمارے ملازمین کی یہ صلاحیت نہیں کہ وہ تمام ٹیکس ناہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لا سکیں۔
اسی طرح رپورٹ میں یہ تجویز بھی دی گئی کہ تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے 2 فی صد سے بڑھا کر 5 فی صد کیا جائے۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو تعلیم پر بہت کم خرچ کرتے ہیں سرکاری اسکولوں کی حالت زار سب پر واضح ہے‘ اساتذہ کی بھرتیاں رشوت لے کر کی جاتی ہیں‘ وہ پڑھانے کے بجائے دوسرے روزگار میں مصروف رہتے ہیں اس وجہ سے لاکھوں بچے اسکول جانے سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو پرائمری اسکول میں داخلہ لیتے ہیں ان میں سے بہت کم تعداد پانچویں جماعت تک پہنچ پاتی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیکنڈری اسکول میں جانے والے بچوں کا تناسب کتنا ہے۔ اکثر سیکنڈری اسکول بچوں کی رہائش سے میلوں دور ہوتے ہیں اسی طرح شرح خواندگی میں پاکستان اپنے ہی خطے کے دوسرے ممالک مثلاً بھارت‘ بنگلا دیش اور سری لنکا سے بہت پیچھے ہے۔
عالمی بینک کی رپوررٹ انسانی سرمایہ کاری کانفرنس میں پیش کی گئی جس میں اسد عمر صاحب نے اپنی حکومت کا یہ عزم و ارادہ بیان کیا کہ ہم انسانی وسائل کی ترقی کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور تعلیم و صحت کے شعبے حکومتی ترجیحات میں شامل ہیں۔ اس قسم کے بیانات سال ہا سال سے عوام سن رہے ہیں کیا اس مرتبہ ان بیانات پر کوئی عملی اقدام سامنے نظر آئے گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔