سیکولر ازم کی اقسام اور مسلم دُنیا

960

سلیم احمد نے کہا ہے:
سلیم میرے حریفوں میں یہ خرابی ہے
کہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں
سلیم احمد کے حریفوں میں دو خرابیاں تھیں۔ پاکستان کے سیکولر صحافیوں اور دانش وروں میں تین خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ جھوٹ بولتے ہیں، دوسری یہ کہ خراب لکھتے ہیں اور تیسری یہ کہ ان کی تحریروں میں علم کا دیدار نہیں ہوتا۔ ان کی تحریروں میں صرف پروپیگنڈا بھنگڑا ڈال رہا ہوتا ہے۔
ڈان کے کالم نویس فاروق ایف پراچہ بھی خیر سے سیکولر اور لبرل ہیں اور ان کی تحریروں میں بھی مذکورہ بالا عیوب بہ در ج�ۂ اتم موجود ہوتے ہیں۔ البتہ حال ہی میں ان کالم میں ایک کتاب اور ایک مقالے کے حوالے سے علم نہ سہی معلومات کی ایک جھلک نظر آئی ہے۔
ندیم ایف پراچہ نے 3 ماراچ 2019ء کے کالم Secularization Without Secularism میں کینیڈا کے فلسفی چارلس ٹیلر کی تصنیف A Secular Age اور جیفرلیٹ کے مقالے Secularity کا تذکرہ کیا ہے۔ ندیم ایف پراچہ نے کتاب اور مقالے یا مضمون کے حوالے سے کیا کہا ہے اس کا تلخیص ملاحظہ کیجیے۔ اس تلخیص کا تجزیہ بعد میں ملاحظہ کیجیے گا۔
چارلس ٹیلر نے اپنی تصنیف میں سیکولر ازم کو تین اقسام میں ظاہر کیا ہے۔ چارلس ٹیلر کے مطابق سیکولر ازم کی پہلی قسم وہ ہے جس میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے مذہب کو مکمل طور پر خارج یا بے دخل کردیا گیا۔ اس قسم کے سیکولر ازم کا ایک مظہر انقلاب فرانس تھا۔ اس کا دوسرا مظہر ماؤزے تنگ کا چین تھا۔ اس کا تیسرا مظہر لینن اور اسٹالن کا سوویت یونین تھا۔ اس کا چوتھا مظہر خیمروج کا کمبوڈیا اور پانچواں مظہر موجودہ شمالی کوریا ہے۔ چارلس ٹیلر کے بقول مصطفی کمال کے ترکی میں بھی اسی قسم کا سیکولر ازم موجود تھا۔ تاہم چارلس ٹیلر سیکولر ازم کی اس قسم کو اصل سیکولر ازم یا Secularism Proper قرار دینے سے گریزاں ہیں۔ ان کے بقول سیکولر ازم کو تین تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ سیکولر ملک میں تمام عقاید یا Faiths کو مساوی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ تمام روحانی گروہوں کی بات سنی جانی چاہیے۔ تیسرے یہ کہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کو اپنے مذاہب پر عمل کی آزادی ہونی چاہیے۔
چارلس ٹیلر کے بقول دوسری قسم کا سیکولر ازم وہ ہے جو اپنی اصل ایک دانش ورانہ حقیقت ہے اور معیشت کے روایتی طریقوں کو ترک کرکے جدید طریقوں کو اختیار کرتا ہے۔ لیکن اس سیکولر ازم کا اصل تشخص یہ ہے کہ اس سیکولر ازم کے تحت یورپ میں چرچ کی طاقت کم ہوتے ہوتے پس منظر میں چلی گئی اور چرچ کی جگہ آئینی جمہوریت نے لے لی۔ اس تناظر میں چرچ اور ریاست کی علیحدگی، جدید سائنس اور صنعتی زندگی سیکولرازم کی اس قسم کی پہچان ہیں۔ لیکن اس سیکولر ازم میں (وحی پر) عقل کی فوقیت اور مرکزیت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے کہ اس سیکولر ازم میں انسان کی (آزاد) عقل بجائے خود اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس سیکولر ازم کو مذہب دشمن یا Anti-relegion نہیں کہا جاسکتا البتہ سیکولر ازم کی یہ قسم مذہب اور عقیدے کو انسان کا انفرادی اور نجی مسئلہ قرار دیتی ہے۔
چارلس ٹیلر کے مطابق بہترین سیکولر ازم سیکولر ازم نمبر تین ہے۔ یہی سیکولر ازم ’’سیکولر عہد‘‘ کو Define کرتا ہے۔ چارلس ٹیلر کے بقول سیکولر ازم نمبر تین عیسائیت کی داخلی اصلاح کی کوشش سے وجود میں آیا ہے۔ چارلس ٹیلر کے بقول عیسائیت نے خود کو منہدم ہونے سے بچانے کے لیے جدیدیت یا تبدیلی کے ساتھ مفاہمت کرکے اپنی ’’اصلاح‘‘ کی۔ چارلس ٹیلر کے مطابق عیسائیت کے دائرے میں اصلاح کا عمل گزشتہ ہزاروں سال سے جاری ہے۔ اس اصلاحی عمل کے تحت یورپ میں ریاست مذہب کا اخلاقی اور سیاسی اظہار نہیں رہی۔ چارلس ٹیلر نے لکھا ہے کہ اصلاحی عمل کے باعث عیسائیت کو اپنے عقیدے کی تکذیب یا مذمت نہیں کرنی پڑی یا اسے Renounce نہیں کرنا پڑا۔ چارلس کے بقول اس صورتِ حال کی وجہ سے امریکا جیسے ملک میں سیکولر ازم موجود ہے حالاں کہ امریکیوں کی اکثریت خود کو ’’مذہبی‘‘ کہتی ہے۔
جیفرلیٹ کے مطابق سیکولر ازم نمبر چار جنوبی ایشیا اور پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ اس سیکولر ازم کو جیفرلیٹ نے ’’سیکولریت کے بغیر سیکولرازم‘‘ یا Secularization Without Secularity کا نام دیا ہے۔ ندیم ایف پراچہ کے بقول جیفرلیٹ کہتا ہے کہ انگریزوں نے برصغیر میں اقتصادی، سیاسی اور سائنسی جدیدیت متعارف کرادی تھی۔ چناں چہ مسلمانوں کے جدید مصلحین نے اسلام کے Rituals کو تو نجی معاملہ بنادیا مگر اسلام کو برصغیر میں مسلم تشخص کی تعریف متعین کرنے والی حقیقت یا Identity Mrker قرار دیا۔ جیفرلیٹ کے بقول مسلم مصلحین مثلاً سرسیّد، اقبال اور جناح نے خیال ظاہر کیا کہ جدیدیت اور اسلام ہم آہنگ ہیں۔ یعنی جدیدیت اور اسلام Compatable ہیں۔ جیفرلیٹ کے بقول سرسیّد، اقبال اور جناحؒ نے اپنے مذہبی تشخص پر سودے بازی کیے بغیر Non-theological یا تھیوکریسی سے پاک سیاست و ریاست کی راہ ہموار کی۔ اس طرح ریاست نے اسلام کو قومیالیا اور تھیوکریسی سے خود کو محفوظ کرلیا۔ جیفرلیٹ کے مطابق جنرل ایوب اور بھٹو کا عہد Secularization Without Secularism کی مثال ہے۔ تاہم بعد میں ریاست کو مذہبی عناصر کی ضرورت پڑی تو وہ بھی ریاست کو بیانیہ مہیا کرنے والوں میں شمار ہونے لگے۔ تاہم ابھی حال ہی میں عمران خان نے کہا ہے کہ طاقت کے استعمال یا Violence پر صرف ریاست کی اجارہ داری ہے۔ ندیم ایف پراچہ کے بقول یہ بیان اس امر کی علامت ہے کہ ریاست ایک بار پھر سیکولر ازم کے بغیر سیکولریت کی طرف جارہی ہے۔
اب آپ مذکورہ بالا خیالات کا تجزیہ ملاحظہ کیجیے۔ پاکستان کے سیکولر عناصر کہتے رہتے ہیں کہ سیکولر ازم اور اسلام میں کوئی مخاصمت نہیں اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کھلے دل کے ساتھ سیکولر ازم کو گلے لگالیں۔ لیکن چارلس ٹیلر نے سیکولر ازم کی جو تین بڑی قسمیں بیان کی ہیں ان میں سے سیکولرازم کی کوئی قسم بھی ’’اسلام دوست‘‘ نہیں۔ سیکولر نمبر ایک کو خود چارلس ٹیلر نے Anti-Relegion یا مذہب دشمن کہا ہے اور فرمایا ہے کہ چین، سابق سوویت یونین، شمالی کوریا، کمبوڈیا اور کمال اتا ترک کا ترک اس کی مثال ہے۔ اتفاق سے پاکستان کے سیکولر عناصر میں بہت سے سابق سوشلسٹ بھی شامل ہیں۔ چناں چہ یہ لوگ جب کہتے ہیں کہ اسلام اور سیکولر ازم ہم آہنگ یا Complatable ہیں تو وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں اور پاکستان کے لوگوں کی لاعلمی یا کم علمی سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ عیاں ہے۔ سیکولر نمبر ایک کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ اسلامی تہذیب اور تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود ہے۔ اس لیے کہ سیکولر نمبر ایک فکری اور تاریخی اعتبار سے ’’یورپی حقیقت‘‘ ہے یا اس کا تعلق بے خدا اور لا مذہب سوشلسٹ ممالک سے ہے۔
چارلس ٹیلر کے بقول سیکولر نمبر 2 ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے الگ کرلیتا ہے۔ قرآن و سنت میں مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ مسلمانوں کا بہترین زمانہ رسول اکرمؐ کا عہد اور خلافت راشدہ کا دور ہے اور ان دونوں زمانوں میں مذہب اور ریاست متحد تھے اور مذہب کو ریاست پر کامل غلبہ حاصل تھا۔ چناں چہ مسلمان رسول اکرمؐ اور خلافت راشدہ کی پیروی پر مجبور ہیں۔ بلاشبہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی اور حکمرانوں کے معیار میں زوال در آیا، یہاں تک کہ عالم اسلام میں بادشاہت شروع ہوگئی مگر مسلمانوں کے بہتر ملوک اور بادشاہوں نے بھی ریاست کو مذہب سے یا مذہب کو ریاست سے جدا کرنا پسند نہیں کیا اگر کسی نے ایسا کیا بھی تو مسلمانوں کے سوادِ اعظم نے اس کو پسند نہ کیا اور اس کی مزاحمت کی۔ جیسا کہ مجدد الف ثانی نے جہانگیر کو خلاف اسلام پالیسیاں بدلنے پر مجبور کیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیکولر لوگوں کا سیکولر ازم نمبر دو بھی اسلام کی روح کے منافی ہے اور اس کا بھی ہماری تہذیب اور تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔
چارلس ٹیلر کا سیکولر نمبر یعنی عیسائیت میں ’’اصلاح‘‘ کا نتیجہ ہے۔ اس اصلاح کا آغاز بھی یورپ میں ہوا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ سیکولر لوگوں کا سیکولر نمبر تین بھی ایک ’’یورپی پروجیکٹ‘‘ ہے اور اس کا بھی اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سلسلے میں یہ دلیل بھی اہم ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اہل اسلام، اسلام میں ’’اصلاح‘‘ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ مسلمانوں کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جو فکر، جو نظام، وحی کی بالادستی کو قبول نہیں کرتا وہ فکر اور وہ نظام ایک لمحے کے لیے بھی مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ اور مسلم دنیا بھی وحی پر عقل کی بالادستی کو قبول نہیں کرسکتی۔ چوں کہ سیکولر نمبر تین کے دائرے میں اصل چیز ’’آزاد عقل‘‘ یا وحی کی منکر اور اس سے بے نیاز عقل ہے اس لیے سیکولر ازم نمبر تین بھی مسلمانوں کے لیے ہرگز ہرگز قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
سیکولر ازم نمبر چار کا قصہ یہ ہے کہ جیفرلیٹ اور ندیم ایف پراچہ نے سیکولر لوگوں کی فطرت اور عادت کے عین مطابق اقبال اور قائد اعظم کے حوالے سے دوچار فی صد نہیں دو سو فی صد جھوٹ بولا ہے اور پوری ڈھٹائی، بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ اقبال کا اصل تشخص ان کا شاعر ہونا ہے اور اقبال کی پوری شاعرانہ کائنات خدا مرکز، قرآن مرکز، رسول مرکز اور اسلام مرکز ہے اور اقبال نے جدیدیت کی ہر علامت کا مذاق بھی اُڑایا ہے اور اسے رد بھی کیا ہے۔ اقبال نے صاف کہا ہے۔
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
کیا ایسا شاعر مذہب اور ریاست کی علیحدگی کا قائل ہوسکتا ہے۔ مغرب کے جدید علوم کی حقیقت آشکار کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے۔
محسوس پر بنا ہے علوم جدید کی
اس دور میں ہے شیشہ عقاید کا پاش پاش
کیا اقبال عقاید کے شیشے کو پاش پاش کرنے والے علوم کو پسند کرسکتے تھے؟ اقبال نے عقل کے بارے میں فرمایا ہے۔
برپا مرے ضمیر میں پھر معرکۂ کہن ہوا
عشق تمام مصطفےٰ عقل تمام بو لہب
کیا عقل کو ’’بولہب‘‘ کہنے والے اقبال مسلم فکر میں عقل کو وحی پہ بالادست دیکھ سکتے تھے؟۔ اقبال نے جدیدیت کی علامت جمہوریت کے بارے میں کہا ہے۔
گریزاز طرزِ جمہوری غلام پختہ کارِ شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
اقبال کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت سے گریز کر اور کسی پختہ کار کا غلام ہو جا۔ یاد رکھو دو سو گدھوں کے دماغ مل بھی جائیں تو ان سے ’’انسانی فکر‘‘ پیدا نہیں ہوسکتی۔
جہاں تک قائد اعظم کا تعلق ہے تو انہوں نے صاف کہا ہے کہ پاکستان کا آئین قرآن ہوگا۔ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا۔ قائد اعظم نے پوری زندگی میں سیکولر ازم کی حمایت میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر ازم نمبر چار کا بھی اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاں تک سرسید کا تعلق ہے تو سرسید نے بیشک جدیدیت کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے اور انہوں نے مغرب کو اپنا آقا بنایا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آقا اور غلام ’’ہم آہنگ‘‘ یا Compatable نہیں ہوتے‘ برتر اور کمتر ، فاتح اور مفتوح ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام کبھی جدیدیت کا غلام ہوسکتا ہے نہ مفتوح۔
سیکولر اور لبرل عناصر اکثر کہتے رہتے ہیں کہ اسلام میں اتنے مکاتب فکر اور اتنے مسالک ہیں کہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ ہم کس مکتب فکر اور کس مسلک کی تعبیر اسلام کو قبول کریں۔ چارلس ٹیلر کے بیان سے ظاہر ہے کہ سیکولر ازم بھی ’’ایک‘‘ نہیں بلکہ اس کے بھی کئی ’’فرقے‘ یا ’’مسالک ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر سیکولر ازم کے مالک اور مکاتب فکر ہوسکتے ہیں تو اسلام کے کیوں نہیں ہوسکتے؟ جس طرح دنیا کے بعض ملکوں میں سیکولر نمبر ایک غالب ہے اور کچھ ملکوں میں سیکولر نمبر دو، تین اور چار غالب ہیں۔ اس طرح عالم اسلام میں کہیں حنفیت کا غلبہ ہوسکتا ہے کہیں شافعیت، جنبلیت اور مالکیت کا غلبہ ہوسکتا ہے۔ یاد رہے کہ حنفیت، شافعیت، مالکیت اور جنبلیت اسلام نمبر ایک، اسلام نمبر دو، اسلام نمبر تین اور اسلام نمبر چار کی علامت نہیں بلکہ چاروں فقہ کے یہاں ایک ہی اسلام جلوہ افروز ہے۔ اس کو اصطلاح میں کہتے ہیں وحدت میں کثرت۔