خلوص نیت کا کرشمہ!

306

مطالعہ، مشاہدہ اور حالات و واقعات سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کے نظام عدل میں کامن سینس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے مگر گزشتہ دنوں ایک عدالتی فیصلے کی نقل کی ضرورت پڑی تو نقل حاصل کرنے کا طریقہ کار دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی اور یہ ماننا پڑا کہ اگر خلوص نیت سے بہتری کے لیے کام کیا جائے تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ پہلے نقول کا حصول بہت مشکل تھا یہاں بھی جج صاحبان کی طرح تاریخ پر تاریخ دینے کی روایت موجود تھی اور جب نقل تیار ہوجاتی تو سو، دو سو روپے ٹکٹوں کے نام پر دینا پڑتے تھے۔ حالاں کہ نقل فارم پر مطلوبہ ٹکٹیں چسپاں کردی جاتی تھیں مگر اب تو کمال ہی ہوگیا ہے۔ نقل فارم نقول برانچ کے بجائے سہولت سینٹر میں جمع ہوتے ہیں اور چند گھنٹوں کے بعد موبائل پر یہ پیغام ملتا ہے کہ فلاں تاریخ تک نقول تیار ہوجائیں گی اور پھر مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے پیغام آتا ہے کہ آپ کی مطلوبہ نقول تیار ہیں۔ نقول کے طریقہ کار سے یہ احساس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ وغیرہ سے جو آئے دن فوری انصاف کی فراہمی کے دعوے کیے جاتے ہیں وہ صرف بیانات کی حد تک محدود ہوتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ادارے کا سربراہ کوئی ہدایت یا حکم جاری کرے اور اس پر عمل نہ ہو۔
عزت مآب چیف جسٹس پاکستان کا ارشاد گرامی ہے کہ جلد انصاف کی فراہمی کے لیے جھوٹے گواہان اور جھوٹے مقدمہ بازوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے، حالاں کہ یہ ضمنی معاملات ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ جھوٹے مقدمے اور جھوٹی شہادتوں کو سنگین جرم قرار دیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ رویہ بھی سہولت کاری کے زمرے میں آتا ہے، ایسے مجرموں کی حوصلہ شکنی کے لیے ضروری ہے کہ جھوٹے مقدمات کی سماعت اور پیروی ہی نہ کی جائے یا ایسے قوانین وضع کیے جائیں کہ جھوٹے مقدمات کی پیروی اور سماعت مشکل ہوجائے اور جھوٹی شہادتیں ممکن ہی نہ رہیں۔ اس ضمن میں ایک وکیل صاحب سے بات ہوئی تو کہنے لگے کہ جب تک کسی مقدمے کی سماعت نہ ہو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ مقدمہ جعلی سازی پر مبنی ہے۔ ہم نے گزارش کی کہ دعوے کی صداقت کے لیے دستاویزی ثبوت پیش کیے جانا ضروری قرار دیا جائے مگر ہمارے ہاں جج صاحبان ثبوت طلب کیے بغیر ہی سماعت کا آغاز کردیتے ہیں اگر کوئی جج دستاویزی ثبوت طلب کرے تو وکیل اس کی عدالت کا بائیکاٹ کردیتے ہیں اور بار کونسل بنچ پر اتنا بوجھ ڈالتی ہے کہ جج کا تبادلہ کرکے اس بوجھ سے جان چھڑانا پڑتی ہے۔ اس تناظر میں چیف صاحب کا یہ فرمان کہ وکلا کو یہ بات ذہن میں رکھ کر پیروی کرنا چاہیے کہ روز محشر ان کو اپنے اعمال کا حساب دینا پڑے گا اور جج صاحبان کو بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ روز حساب ان کو اپنے فیصلوں کا حساب دینا ہوگا سو، لازم ہے کہ احکامات خداوندی پر عمل کرتے ہوئے مسائل کی داد رسی کی جائے اور بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
ہم بارہا انہی کالموں میں یہ گزارش کرچکے ہیں کہ بروقت انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ جھوٹے مقدمات کی سماعت پر پابندی عاید کی جائے۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ عدالتیں جھوٹے مقدمات کی سماعت کرتی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ جعل سازوں اور پیشہ ور گواہان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، جعل سازوں کو اپیل در اپیل کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں، یوں حق دار تاحیات اپنے حق سے محروم رہتا ہے، یہ کیسا ظلم ہے کہ دیوانی مقدمات نسل در نسل چلتے ہیں اور فیصلہ سننے والے کان زندگی کی حرارت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نظام عدل میں مقدمے کی نوعیت پر غور کیے بغیر ہی سماعت کا آغاز کرکے حق دار کو پیشی در پیشی کے عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے، اگر جج صاحبان یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مسند انصاف پر براجمان شخص میں خدا کا نائب ہوتا سو، اسے خدا کی نیابت کا فریضہ ہی سرانجام دینا چاہیے مگر المیہ یہ ہے کہ خدا کی نیابت سے زیادہ ابلیس کی جانشینی زیادہ پُرکشش ہے۔