کراچی کا پانی 48 انچ کی پائپ لائن سے 25 مقامات سے چوری ہونے لگا،

391

کراچی (اسٹا ف رپورٹر)کراچی کا پانی 48 انچ کی پائپ لائن سے 25 مقامات سے چوری ہونے لگا،حب ڈیم میں بارشوں کے بعد پانی آیا لیکن پانی مافیا نے اس پر پنجے گاڑھ رکھے ہیں۔ 

کراچی کے 25 مقامات سے پانی چوری کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔کراچی میں واٹرمافیا ایک بار پھر سرگرم ہوگیا ہے۔ کراچی والوں کو حب ڈیم سے ملنے والی پانی کی 48 انچ کی مین لائن میں 25 مقامات سے پانی چوری ہونے لگا ہیں۔عینی شاہد نے بتایا کہ مافیا کے کارندوں نے گھروں میں ٹینک بنائے ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ خیرآبادگوٹھ، یارمحمدگوٹھ، رمضان گوٹھ، الطاف نگر، مہران سٹی، گرم چشمہ، نادرن بائی پاس، کیماڑی، منگی گوٹھ، نورانی ہوٹل، کیماڑی اور دیگر مقامات سے غیر قانونی کنکنشنز لیے گئے ہیں۔

اس حوالے سے ایم ڈی واٹربورڈ انجینئر اسد اللہ خان کا کہنا ہے کہ شہریوں کے حصے کا پانی چوری کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں،ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی ،شہری خصوصاً منتخب نمائندے پانی چوروں کی نشاندہی کریں اور ان کو قانون کی گرفت میں لانے میں واٹربورڈ سے تعاون کریں ،

ایم ڈی واٹربورڈ نے کہا کہ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی پانی چوری سے متعلق اطلاعات پر پانی چوروں کیخلاف کریک ڈاؤن کے احکامات دیدیئے گئے ہیں ، شہر خصوصاً دور دراز غیر آباد علاقوں اور کچی آبادیوں میں پانی چوری کے کسی نیٹ ورک کو نہیں چھوڑا جائے گا اور اس میں ملوث افراد کیخلاف پانی چوری کے قانون کے تحت مقدمات متعلقہ تھانوں میں درج کرائے جائیں گے ،

انہوں نے بتایا کہ شہر میں باقاعدہ کوئی غیرقانونی ہائیڈرنٹ قائم نہیں ہے ،بعض علاقوں میں غیرقانونی کنکشن لے کر ،پانی کی لائنوں کو نقصان پہنچا کر یا رہائشی مکانات کی آڑ میں پانی چوری کی کوشش کی جاتی ہے ،

ایسے عناصر کیخلاف واٹربورڈ کا عملہ اطلاع ملتے ہی وقتاً فوقتاً کارروائی کرتا ہے ،پچھلے کئی برس کے دوران واٹربورڈ نے شہر کے مختلف علاقوں خصوصاً دوردراز غیر آباد علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے کارروائی کرکے سیکڑوں غیر قانونی ہائیڈرنٹس ختم کردیئے ہیں ،

یہی وجہ ہے کہ آج شہر میں ایک بھی باقاعدہ غیر قانونی ہائیڈرنٹ قائم نہیں ہے،ایم ڈی واٹربورڈ نے واٹربورڈ کے متعلقہ افسران اور انجینئرز کو ہدایت کی کہ وہ ذرائع ابلاغ کی نشاندہی کردہ کچی آبادیوں میں پانی چوروں کیخلاف سخت اقدامات کریں ،اس ضمن میں ضرورت پڑنے پر ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد بھی لی جائے۔