ہم کہاں کھڑے ہیں

312

پوری قوم نے گزشتہ ہفتے 23 مارچ کو 79واں یوم پاکستان منایا‘ زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اسلاف کو یاد رکھتی ہیں‘ محسنوں کو بھولتی نہیں۔ نائن الیون امریکا میں ہوا‘ دو تجارتی مرکز جہاز ٹکرانے سے گر گئے‘ امریکا نے یہ واقعہ دہشت گردی قرار دیا اور پوری دنیا پر چڑھ دوڑا‘ ناٹو فورسز کا قافلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی گٹھڑی کندھے پر اٹھائے افغانستان جاپہنچا‘ امریکا نے یہی کافی نہیں سمجھا آگے بڑھ کر مسلم دنیا کے تعلیمی نصاب تبدیل کرنے لیے دباؤ ڈالا‘ اور ہم نے اسلامیات‘ تحریک پاکستان کا تعلیمی نصاب ہی بدل ڈالا‘ امریکا پھر بھی مطمئن نہیں ہوا‘ مطالبہ ہوا کہ واہگہ بارڈر پر ہر روز شام کو پرچم اتارنے کی تقریب میں پاکستانی جوانوں کے انداز بھی تبدیل ہونے چاہیے‘ ہم نے یہ بات اور مطالبہ تو تسلیم نہیں کیا البتہ خاموشی کے ساتھ یہ ضرور کردیا کہ اب یوم پاکستان ہو یا یوم آزادی‘ ہمارے اخبارات میں تاریخ پاکستان‘ تحریک پاکستان کے آرٹیکل بہت کم ملتے ہیں سارا روز ان ایام کی آڑ میں کاروباری اشتہارات کی نذر ہوجاتا ہے۔ اخبارات میں اشتہارات کی اشاعت بھی ضروری ہے‘ اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں‘ یہی وہ شعبہ جو کسی بھی اخبار کی اشاعت زندہ رکھنے میں مددگار ہے‘ لیکن یوم پاکستان کا ہم پر یہ حق ہے ہم اس روز اپنے اسلاف کو بھی یاد رکھیں‘ تحریک پاکستان کب شروع ہوئی‘ کیسے شروع ہوئی اور کن حالات سے گزری اسے بھی یاد رکھا جائے محمد علی جناح‘ نواب سلیم اللہ خان‘ نواب وقارا لملک‘ اسماعیل خان‘ جہاں آرا، شاہ نواز‘ بیگم تصدق حسین‘ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا شوکت علی‘ بی جی‘ نصیر احمد ملہی‘ خواجہ ناظم الدین‘ بہادر یار جنگ‘ فضل حق‘ علامہ اقبال‘ جلال الدین جلال بابا‘ شیریں جناح‘ نور الاامین غرض بے شمار رہنماء‘ جنہیں یاد رکھاجانا چاہیے یہ دن انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا ہے‘ مگر کتنے اخبارات ہیں جو‘ جن کی 23 مارچ کی اشاعت میں ان رہنماؤں اور ملی رہبروں کی خدمات کا تذکرہ تھا؟
23 مارچ 1940ء ہی کو قرارداد لاہور کی منظوری کے موقع پر قائداعظم نے جو نظریہ پیش کیا تھا وہ آج تناور درخت بن چکا ہے ہمارے میڈیا کو بھی ناقابل تسخیر قلعہ بن کر ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنا چاہیے اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ کی حیثیت سے دشمنانِ پاکستان و اسلام کی ہر سازش کا منہ توڑ جواب دیتے رہنے کے لیے تجدید عہد بھی کرنا چاہیے اخبارات کا مطالعہ کرکے ہماری نسل ہاؤسنگ اسکیموں کے بجائے تحریک پاکستان کا سبق یاد کرنے کے قابل ہونی چاہیے۔ نائن الیون کے واقعہ کو دہشت گردی سے جوڑ کر امریکا نے کچھ سیاسی فوائد تو حاصل کیے‘ لیکن اب انہی قوتوں کے ساتھ مل کر معاہدے کرنے پر مجبور ہوا ہے اور کیا امریکا جب ان قوتوں سے معاہدے کرلے گا ہم بھی مطالعہ پاکستان اور اسلامیات جیسے مضامین میں غائب کیے جانے والے اسباق واپس لائیں گے؟ اسلام ہمارا دین ہے‘ یہ واحد دین ہے جس نے انسان کی عزت اور زندگی کو کعبہ سے بھی زیادہ عزیز قرار دیا ہے مسلمانوں کو دہشت گردی کا طعنہ دینے والے امریکا نے مسلم دنیا میں کامیابی اس لیے حاصل کی کہ ہمارے حکمران ہی بزدل تھے‘ انہیں دین کی سمجھ تھی اور نہ اسے اپنانا چاہتے تھے‘ فتح مکہ کے وقت کیا ہوا تھا کسی کو علم ہے؟ کہ کعبہ کی چابیاں اسی خاندان کے حوالے کر دی گئی تھیں جو فتح مکہ سے قبل اس کا نگران تھا یہی ہماری روشن تاریخ ہے‘ اور اعلان ہوا کہ جو ابوسفیان کے گھر پناہ لے لے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ حکم دیا گیا کہ عورتوں‘ بچوں اور پھل دار درختوں کو نقصان نہیں پہنچانا‘ اس حکم پر حرف بہ حرف عمل ہوا لیکن جہاں حکمران ہی گرین کارڈ کے اسیر بن جائیں تو وہاں ایسے ہی فیصلے ہوتے جیسے پرویز مشرف نے کیے تھے ہمیں نجی میڈیا سے کیا گلہ؟ 23 مارچ کو تو سرکاری میڈیا بھی تحریک پاکستان کے اسلاف کو بھلائے بیٹھا رہا‘ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر کوئی ایک پروگرام بھی اس موضوع پر نہیں ہوا‘ صرف روایتی جملے بولے گئے‘ اور سمجھا کہ 23 مارچ یوم پاکستان کا حق ادا ہوگیا ہے۔
تحریک پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور مذہبی حقوق کی جنگ تھی اور آج بھی ہے۔ ہندو کل بھی مکار تھا آج بھی مکار ہے۔ 23 مارچ کو مودی کا پیغام اس کی سیاسی چال ہے‘ دشمن کے لیے ہمارا پیغام یہی ہے کہ ہمارا حسن صدیقی تمہارے ابھے نندن پر بھاری ہے‘ لیکن ہم امن چاہتے ہیں اپنی قوم کے لیے ہمارا پیغام یہی ہے کہ جنگ سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے گھوڑے تیار
رکھو۔ یوم پاکستان کی تقریب سے صدر پاکستان عارف علوی نے بھی خطاب کیا‘ صدر ذی وقار کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ دنیا کے ایک طاقت ور ایٹمی ملک کے صدر ہیں‘ ان کی سادگی اپنی جگہ‘ مگر انہیں اس باوقار ملک کے سب سے بڑے آئینی منصب کے وقار کا لحاظ بھی رکھنا ہے‘ ہم دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہم انتہاء پسند نہیں‘ نہ کبھی اس کے ہامی رہے ہیں‘ نہ انتہاء پسندی کے قائل ہیں اور نہ اسے اپنے ہاں پنپنے دینا چاہتے ہیں ہم اپنے نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں کی طرف لے جارہے ہیں‘ جہاں وہ اپنے ملک اور دنیا بھر میں ایک مفید شہری بن کر انسانوں کی سماجی خدمت کرنا چاہتے ہیں ہم اپنی نوجوان نسل کی تیاری اس نہج پر کر رہے ہیں اس کاز کے لیے فوج اور قوم پرعزم ہے یوم پاکستان اس امر کا متقاضی ہے کہ ملک خداداد کو پہلے کی طرح امن و آشتی کا گہوارا بنا دیا جائے تاکہ یہاں بانیان پاکستان قائد و اقبال کا اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے آج جیسا پاکستان نظر آرہا ہے بانیان پاکستان ایسا ہرگز نہیں چاہتے تھے آدھا عرصہ آمریت کی نذر ہو گیا جمہوری ادوار میں بھی جمہوریت کبھی مضبوط نہیں رہی آئین سے انحراف جمہوریت کے دعویداروں کے ادوار حکومت میں بھی نظر آتا رہا ہے قائداعظم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے مگر ہمارے جمہوری اور جرنیلی آمر حکمرانوں نے اسے ذاتی مفادات کی آماج گاہ بنا لیا بہرحال اب بھی اصلاح کی گنجائش ہے روایتی تجدید عہد سے آگے نکل کر اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کے لیے انفرادی اور اجتماعی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پاکستانی قوم ہی ارض وطن کو نکھار کر جنت بناسکتی ہے۔