ہندوستان کا اخلاقی زوال

423

انسانوں کی اکثریت اس لیے شریف، ایماندار اور مظلوم ہوتی ہے کہ انہیں کبھی بدمعاشی، بے ایمانی اور ظلم کا موقع نہیں ملا ہوتا۔ عیسائیت کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو اسے دوسرا گال بھی طمانچے کے لیے پیش کردو۔ مگر پوپ اربن دوم کی ہدایت پر صلیبی فوجوں نے 1099 میں مسلمانوں کے روحانی، تاریخی اور سیاسی مرکز بیت المقدس پر یلغار کی تو انہوں نے بیت المقدس میں بڑے پیمانے پر عام مسلمانوں کو قتل کیا۔ انہوں نے مرد، عورت اور بچوں میں تخصیص کرنے سے انکار کردیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ’’عیسائی بیت المقدس‘‘ کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت بیت المقدس میں ایک لاکھ عیسائی موجود تھے۔ عیسائیوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس ’’موقع‘‘ تھا کہ وہ ماضی کے صلیبیوں کا حساب برابر کرتا۔ مگر سلطان صلاح الدین ایوبی نے طاقت ہونے کے باوجود عام عیسائیوں کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے اگلے مرحلے میں اس سے بھی بڑا کام کیا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان معاہدہ طے پایا کہ عیسائی تاوان ادا کرکے اپنے مال و اسباب سمیت بیت المقدس چھوڑ کر کہیں بھی جاسکتے ہیں۔ ’’مالدار عیسائیوں‘‘ نے تاوان ادا کیا اور کھسک لیے۔ مگر اپنے پیچھے ہزاروں غریب عیسائیوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے۔ ان عیسائیوں کے پاس تاوان ادا کرنے کے لیے رقم ہی نہ تھی۔ چناں چہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں وہ مالی وسائل مہیا کیے جو تاوان ادا کرنے کے لیے ضروری تھے۔ اس کو کہتے ہیں طاقت پر مذہب کا غلبہ۔ اس کو کہتے ہیں طاقت پر اخلاقیات کی فوقیت۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کے ہندوؤں کی تاریخ شرمناک بھی ہے اور المناک بھی۔
ہندو ایک ہزار سال تک مسلمانوں کے سامنے سر جھکائے کھڑے رہے۔ اس دوران وہ ’’مہذب‘‘ بھی تھے اور ’’صاحب اخلاق‘‘ بھی۔ انگریزوں کے سامنے بھی ہندوؤں کی اکثریت نے ڈیڑھ سو سال تک چوں نہ کی۔ مگر جیسے ہی طاقت ہندوؤں کے ہاتھ میں آئی ہندوؤں نے پورے ہندوستان کو مسلمانوں کے لیے آگ کا دریا بنادیا۔ انہوں نے قیام پاکستان کے موقع پر پورے ہندوستان میں مسلم کش فسادات کراکے دس لاکھ مسلمانوں کو مار ڈالا۔ ہندوستان نے طاقت کے بل پر کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر قبضہ کرلیا۔ بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو خود مسئلہ کشمیر کو لے کر اقوام متحدہ میں گئے مگر انہوں نے کبھی کشمیر کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا پاس نہ کیا۔ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک ہندوستان پر حکومت کی مگر اتنی طویل مدت میں کبھی کوئی ہندوکش فساد نہ ہوا مگر ہندوستان کی ہندو قیادت نے 71 سال میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات کرا ڈالے ہیں اور مسلمانوں کو گائے سے بھی نچلی سطح پر لاکھڑا کیا ہے۔ یہ ہندوستان کے اخلاقی زوال کا ایک بڑا مظہر ہے۔
بدقسمتی سے ہندوستان گزشتہ ایک ماہ کے دوران اخلاقی زوال کے راستے پر تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ہے۔ بھارت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے طیاروں نے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں دہشت گردوں کے ایک مرکز پر حملہ کرکے ساڑھے تین سو سے زیادہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے۔ مگر بھارت اس دعوے کے ایک ماہ بعد بھی اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہ پیش کرسکا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارت کا مذکورہ بالا دعویٰ جھوٹ بھی ہے اور بھارت کی بزدلی کا ثبوت بھی۔ بھارت خود کو آزاد اور جمہوری کہتا ہے مگر بھارتی حکومت کے مذکورہ بالا دعوے کے حوالے سے بھارت کے ذرائع ابلاغ نہ آزاد نظر آئے نہ جمہوری۔ مودی کی حکومت نے بالا کوٹ کے حوالے سے جو دعویٰ کیا بھارت کے ذرائع ابلاغ نے کسی تحقیق اور چھان بین کے بغیر اس دعوے کو قبول کرلیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف مودی سرکار ہی جھوٹی اور بزدل نہیں ہے بلکہ بھارت کے ذرائع ابلاغ بھی جھوٹے اور بزدل ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جھوٹ اور بزدلی بھارت کا قومی کردار بن کر سامنے آئے۔
اتفاق سے پاکستان نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے اور بھارت کے ایک پائلٹ ابھی نندن ورتمان کو زندہ پکڑ لیا۔ دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی گرفتار ہونے والے فوجی کو ’’ہیرو‘‘ کا درجہ نہیں دیا گیا مگر بھارت اور اس کے ذرائع ابلاغ نے ابھی نندن کو ’’ہیرو‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ اس پر کسی پاکستانی نے سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرہ کیا۔ اس نے کہا کہ بھارت مزید ابھی نندوں کو پاکستان بھیجے ان شاء اللہ پاکستان انہیں بھی ’’ہیرو‘‘ بنا کر بھارت بھیج دے گا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ آخر وہ ذہن کتنا حقیر، معمولی اور اخلاقیات سے عاری ہوگا جو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے فوجی کو ہیرو کا درجہ مہیا کرے؟ اس قصے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ’’عظیم بھارت‘‘ کے پاس حقیقی ’’ہیروز‘‘ کی کتنی کمی ہے۔
یہ حقیقت پوری دنیا نے تسلیم کی ہے کہ پاکستان اور بھارت کی عسکری محاذ آرائی میں پاکستان فاتح بن کر اُبھرا اور بھارتی فوج کا ابھی نندن اور کئی دیگر حوالوں سے پوری دنیا میں مذاق اُڑایا گیا۔ کہا گیا کہ بھارتی فوج کے 60 فی صد ہتھیار پرانے ہیں۔ خود مودی نے تسلیم کیا کہ اگر بھارت کے پاس رافیل طیارے ہوتے تو محاذ آرائی کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ اس کے باوجود مودی نے اپنے نام کے ساتھ ’’چوکیدار‘‘ کا لفظ لگالیا۔ ان کا بس چلتا تو وہ خود کو ’’چوکیدار مودی‘‘ کے بجائے ’’فوجی مودی‘‘ کہتے مگر سوال یہ ہے کہ بھارت کے چوکیداروں نے آخر ایسا کیا کیا ہے کہ ان پر فخر کیا جائے؟۔ اس صورتِ حال سے بھی ہندوستان کی کمزور اخلاقی حالت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملوں کے حوالے سے تو ہندوستان نے اخلاقی دیوالیے پن کی انتہا ہی کردی۔
روزنامہ ایکسپریس کراچی کی ایک خبر کے مطابق نیوزی لینڈ کی مساجد میں دہشت گردی کے واقعے کی جہاں ساری دنیا میں مذمت کی جارہی ہے وہیں بھارت کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس حوالے سے جشن منایا جارہا ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس بات کا اعتراف دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لیے موردِ الزام ٹھیرانے والے طارق فتح نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیا۔
(روزنامہ ایکسپریس کراچی۔ 17 مارچ 2019ء)
باقی صفحہ7نمبر1
نیوزی لینڈ کی مساجد پر بھارت کے ہندوؤں کی خوشی کا اندازہ بھارت کے ایک ہندو گھنشیام لودھی کے اس تبصرے سے کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے لکھا: ’’نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملہ۔ سوچا (دوسروں کو) خبر کردوں کیوں کہ خوشی اکیلے نہیں سنبھلتی‘‘۔
(روزنامہ دنیا کراچی۔ 17 مارچ 2019ء)
ملکوں اور قوموں کی دشمنیاں سمجھ میں آتی ہیں۔ مذہبی امتیازات پر اصرار بھی تاریخ کا حصہ ہے مگر کسی مذہب کی عبادت گاہ پر حملے اور معصوم لوگوں کی ہلاکت کا جشن ناقابل فہم بات ہے۔ مگر بھارت کے ہندوؤں کی ذہنیت اتنی پست ہوگئی ہے کہ وہ نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملوں کا جشن منارہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جشن بھی گھروں میں بند ہو کر نہیں منایا جارہا بلکہ سوشل میڈیا کو اس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یعنی بھارت کی ہندو ذہنیت کہہ رہی ہے۔
’’ہمارا کام ہے ہم تو سرِ بازار ناچیں گے‘‘
یہ وہی ذہنیت ہے جو بابری مسجد کو دن دہاڑے شہید کرتی ہے اور بھارت کے گلی کوچوں میں اس کا جشن مناتی ہے مگر بابری مسجد کو ہندو متنازع کہتے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ بابری مسجد ایک مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی۔ تو کیا نیوزی لینڈ کی جن مساجد پر حملوں کو بھارت کے ہندو ’’Celebrate‘‘ کررہے ہیں کیا وہ بھی مندروں کو گراکر تعمیر کی گئی تھیں اور کیا ان مساجد پر حملوں میں جو مسلمان شہید ہوئے ہیں انہوں نے یا ان کے آباؤ اجداد نے ’’پاکستان‘‘ بنانے کا ’’جرم‘‘ کیا تھا؟ آخر بھارت کے ہندوؤں نے نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملے کا ’’جشن‘‘ کس بنیاد پر منایا؟ لیکن یہ صرف بھارت کے عام ہندوؤں کا حصہ نہیں۔
بھارت کے وزیراعظم مودی نے نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں کے حوالے سے جو بیان جاری کیا ہے اس میں نہ مساجد کا ذکر ہے اور نہ شہید اور زخمی ہونے والے مسلمانوں کا۔ چناں چہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو یہ کہنا پڑا ہے کہ نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملے کے سلسلے میں جاری ہونے والا بھارتی بیان افسوس ناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں یہ حوصلہ نہیں کہ وہ حملے کی مذمت میں مسجد یا مسلمان کا لفظ استعمال کرے۔ انہوں نے کہا کہ اگر خدانخواستہ مندر پر حملہ ہوتا تو پاکستان بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا۔
(روزنامہ جسارت 21 مارچ 2019ء)
اس کے معنی یہ ہیں کہ بھارت کا اخلاقی زوال صرف عام ہندوؤں کا مسئلہ نہیں بلکہ اس حوالے سے ایک عام ہندو اور ریاست ہندوستان میں کوئی فرق نہیں۔ یعنی اخلاقی زوال کے اعتبار سے ایک عام ہندو ہندوستان کا اجمال ہے اور ہندوستان ایک خاص ہندو کی تفصیل ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ التمش کے دور میں ایک شہزادہ ہاتھی پر سوار ہو کر کہیں جارہا تھا۔ راستے میں ایک ہندو کے گھر میں لڑکی نہا رہی تھی۔ شہزادہ ٹھیر گیا اور لڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے باپ نے التمش سے شہزادے کی شکایت کی۔ التمش نے سرعام شہزادے کو کوڑے لگوائے۔ لیڈی ماؤنٹ بیٹن اور نہرو کا معاشقہ معروف ہے۔ لیاقت علی خان کو کہیں سے نہرو کے وہ خط مل گئے جو انہوں نے لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو لکھے تھے۔ یہ خط لے کر لیاقت علی خان قائد اعظم کے پاس آئے۔ قائد اعظم ان خطوط کو عام کردیتے تو ایک سیاسی طوفان برپا ہوجاتا اور مسلمانوں کو ہندو قیادت پر ایک نفسیاتی برتری حاصل ہوجاتی مگر قائد اعظم نے ان خطوط کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے صاف انکار کردیا۔ چناں چہ شاہ محمود قریشی کے اس بیان میں بڑی صداقت ہے کہ کسی مندر پر حملہ ہوتا تو پاکستان بھارت کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ یہ دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کے مزاج کا فرق ہے۔ دیکھا جائے تو اس منظر نامے میں بھی ایک دو قومی نظریہ موجود ہے۔