عرفات تحسین
آج ہم سب ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جو انٹرنیٹ کی بدولت جڑی ہوئی ہے۔ آن لائن ٹیکنالوجی کی ہوش ربا ترقی کے باوجود اس جدید عہد نے ہمارے لیے کئی لحاظ سے مشکلات بھی پیدا کردی ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان ٹیکنالوجیز کا اجمالی جائزہ پیش کریں گے۔
پہلے کچھ ذکر پاکستان کا ہوجائے۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق اس وقت ملک میں ساڑھے 6 کروڑ افراد براڈ بینڈ، تھری جی یا فور جی کی صورت میں انٹرنیٹ سے منسلک ہیں۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر صارفین کی تعداد ساڑھے 3 کروڑ ہے جن میں سے 83 فیصد فیس بک پر، 5 فیصد ٹوئٹر اور بقیہ 4 فیصد پاکستانی یوٹیوب استعمال کرتے ہیں یا اس کا اکاؤنٹ رکھتےہیں۔ اس لحاظ سے انٹرنیٹ کے تیزی سے بدلتے ہوئے رحجانات سے آگاہ رہنا بہت ضروری ہے۔
پاکستان دنیا کا ایک انوکھا ملک ہے جہاں انٹرٹینمنٹ سے زیادہ نیوز چینل دیکھے جاتے ہیں اور تفریحی یا معلوماتی پروگراموں کے بجائے چٹپٹی خبروں کو زیادہ پذیرائی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیوزچینل کی ریٹنگ اور دھواں دار ٹاک شوز کے درمیان چلنے والے اشتہارات مہنگے داموں بکتے ہیں۔ چونکہ ٹی وی دیکھتے وقت ناظرین کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ چینل تبدیل کرکے کچھ اور دیکھیں، اسی بنا پر جو کچھ دکھایا جاتا ہے مجبوراً ناظرین کو وہی سب دیکھنا پڑتا ہے۔ لیکن سوشل میڈیا پر یہ مجبوری نہیں، وہاں انسان قدرے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی مرضی کہ جس وڈیو پر کلک کرے یا جس پوسٹ کو چاہے دیکھے یا نہ دیکھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی پوسٹ، تصاویر اور وڈیوز بنانے اور انہیں نشر کرنے میں بھی خود مختار ہوتا ہے۔
اب اسی رحجان سے مستقبل کو دیکھتے ہیں کیونکہ آنے والا وقت ویب بیسڈ ٹیکنالوجی کا ہوگا بلکہ اس کے واضح آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ اسی بنا پر ٹی وی اور دیگر براڈ کاسٹنگ صنعت سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی اور اس پر اپنے قدم جمانے کی بھرپور کوشش کررہی ہے۔ اب تو ایسے کئی خواتین و حضرات پاکستان میں بھی ہیں جن کی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر فالوئنگ یا مداحوں کی تعداد ان نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز سے بہت زیادہ ہے۔ ان میں کھانا پکانے کے ماہر شیف بھی ہیں، تجزیہ کار بھی ہیں اور اداکار و فنکار بھی شامل ہیں۔ لوگ انہیں پسند کرتےہیں، ان کے کام پر تبصرے کرتے ہیں اور ان کی ہر بات کو من و عن مانتے بھی ہیں۔ بالخصوص پرستار قسم کے فالوورز ان کی ہاں میں ہاں اور ان کی نہ میں نہ کہتے ہیں؛ یعنی ان کی ہر بات کو درست سمجھتے ہیں۔
اس صدی کے چند عشروں میں ٹیکنالوجی اور اختراعات (انوویشن) نے جتنی تیزرفتار ترقی کی ہے، اسے دیکھ کر ہم قدم سے قدم ملاکر بھی چلنے میں دقت محسوس کررہے ہیں۔ ماضی میں ایسی ترقی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سوشل میڈیا اور خود انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پر مہارت کے بعد انسان کچھ بھی کرسکتا ہے اور اس کی بعض مثالیں آگے آرہی ہیں۔ لیکن آپ اس کی مزید مثالوں کو خود دیکھیں گے اور محسوس بھی کریں گے۔
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سے امریکی انتخابات پر جعلی خبریں پھیلانے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کی بابت باز پرس کی گئی ہے۔ امریکا اور یورپ کے آزاد تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ یہ مہم شاید روس سے چلائی گئی تھی اور اس کے بعض شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں۔ اس بحث کے بعد سوشل میڈیا اور جعلی خبروں پر ایک طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا انقلاب کے بعد جعلی خبروں، جعلی اکاؤنٹس، جعلی ٹوئٹر ہینڈل اور دیگر جعلی پوسٹس پر ایک بحث چل پڑی ہے۔ دنیا بھر کے صحافی جعلی خبروں سے بچنے کی تکنیکوں پر غور کررہے ہیں اور یوں افواہ سازی کی آن لائن فیکٹریوں کو بند کرنے پر سرجوڑ کر غور جاری ہے۔ لیکن مجھے جن چیزوں نے یہ بلاگ لکھنے پر مجبور کیا، ان پر ایک عرصے سے کام تو جاری تھا لیکن وہ اسی برس اور گزشتہ سال کے درمیان رونما ہوئی ہیں اور اسے میں ’انٹرنیٹ پر موجود مصنوعی ذہانت یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس‘ کا نام دوں گا۔ اس کے لیے ہم مختصراً اے آئی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل کہ ہم آگے بڑھیں، اے آئی کا تھوڑا ذکر ہوجائے۔
آپ جانتے ہیں كہ آرٹی فیشل یا مشین انٹیلیجنس، کمپیوٹر سائنس کا ایک میدان ہے جس کے ذریعے مشین کو مصنوعی طور پر اتنا قابل بنایا جاتا ہے كہ وہ انسانی دماغ کی طرح کام کرسکے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال دینا چاہوں گا۔ آپ سب نے فیس بک تو استعمال کیا ہی ہوگا۔ جب آپ اپنے کسی عزیز کی تصویر اپ لوڈ کرتے ہیں تو وہ فوراً ہی آپ کو یہ بتا دیتا ہے كے اس تصویر میں کون کون ہے، تاکہ اسے ٹیگ کیا جاسکے۔
ہم مشینی ٓذہانت کے وہ علمی دھماکے دیکھیں گے کہ ایسی ذہین مشینیں بنیں گی جن کے سامنے ہماری ذہانت محض گھونگھے کی رفتار جتنی ہوگی۔ ہمیں کوشش کرنا ہوگی کہ ایسے ذہین کمپیوٹروں کے مقاصد خود انسانی مفاد کے تحت ہوں۔ اگر ہم ذہانت بھرے ان کمپیوٹروں کو سائنس فکشن کا عنوان دے کر اس بات کو مسترد کردیں تو یہ ہماری بھول اور سنگین غلطی ہوگی۔
یہاں آرٹی فیشل انٹیلی جنس یا آے آئی سے مراد وہ کمپیوٹر پروگرام ہیں جو انسانوں کی طرح سوچیں اور فیصلہ کریں اور خود سیکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ ایسے پروگرام جنہیں ایک مرتبہ سکھادیا جائے تو وہ ازخود بدلتے ماحول کے تحت آزادانہ فیصلہ کرسکیں۔
گزشتہ 20 برس سے اے آئی کا محور ایسے ذہین ایجنٹس اور نظاموں کی تیاری اور ان کے مسائل حل کرنے تک ہی محدود رہا جو کسی شے کی پہچان کریں اور خاص ماحول میں خاص انداز میں عمل کرسکیں۔ اس تناظر میں ذہانت (انٹیلی جنس) کا تعلق معقولیت پر مبنی شماریاتی یا معاشی پہلوؤں تک ہی محدود رہا، یعنی بہتر فیصلے اور منصوبے بناکر ان کا اطلاق کیا جاسکے۔ اسی ابتدائی کام نے مختلف علوم کے درمیان رابطوں کو بڑے پیمانے پر بڑھایا جن میں اے آئی، مشینی اکتساب (لرننگ)، کنٹرول تھیوری، نیوروسائنس، شماریات اور دیگر کئی شعبے شامل ہیں۔ پھر نظری (تھیوریٹیکل) فریم ورک، اور اس میں ڈیٹا اور پروسیسنگ پاور کے اشتراک سے مختلف امور میں زبردست کامیابیاں ملی ہیں۔ مثلاً گفتگو کے شناختی (اسپیچ ریکگنیشن) نظام، تصاویر پہچاننے والے سافٹ ویئر، ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیاں، مشینی ترجمے، دو پیروں والے روبوٹ، اور سوال کے جواب دینے والے پروگرامز منظر عام پر آئے ہیں۔
اگرچہ ابتدائی درجے کی مصنوعی ذہانت ہمارے لیے بے حد مفید ثابت ہوئی ہے تاہم اپنے بامِ عروج پر یہ خطرات سے خالی نہ ہوگی اور سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ کہیں یہ انسانی ذہانت سے آگے نہ نکل جائے۔ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ یہ مکمل خود مختار ہوکر خود کو بدل ڈالے تو ہم اسے کیسے سمجھیں گے؟ انسان جو ارتقائی عمل کے تحت اپنی سست رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے، وہ اے آئی کی برق رفتاری کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ پھر اے آئی اپنی مرضی سے کام کرسکتی ہے جو انسانی مفادات سے ٹکراسکتے ہیں۔
تو گویا اے آئی ایک ایسی چھری ہے جس سے آپ اچھے اور برے، دونوں کام لے سکتے ہیں اور دنیا بھر میں اسی پر بحث جاری ہے۔ خود پاکستان میں بھی اے آئی پر تحقیق کے ادارے تشکیل پارہے ہیں اور اسی لیے پاکستانی عوام کو اے آئی سے آگہی فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔
اے آئی کا ایک پہلو ’ڈیپ فیک‘ (Deep Fake) بھی ہے اور دوسرا ہے فیک (جعلی) کونٹینٹ جنریٹر۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے آپ کسی بھی وڈیو میں کسی بھی دوسرے شخص کی تصویر لگا سکتے ہیں اور اس کے بولے جانے والے الفاظ بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ایک منفرد ٹیکنالوجی ہے لیکن اس میں سماجی تباہی کا سامان بھی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمارے عزیزوں، دوستوں اور مشہور شخصیات کی لاتعداد جعلی وڈیوز بناکر خود ہمیں اور لوگوں کو شدید متاثر کرسکتی ہے۔
فیک نیوز جنریٹر ٹیکنالوجی بھی اِس سے کچھ کم نہیں۔ اس کے ذریعے کسی بھی ملک، شخصیت، مذہبی منافرت اور دہشت گردی کے واقعے پر جعلی خبر بناکر اسے پوری دنیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیلایا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے پاس تصدیق کےلیے کہاں وقت ہوتا ہے اور یوں جعلی خبریں تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔ اب ایک اور انقلابی ویب سائٹ کا احوال بھی سن لیجیےجو آپ کو حیران کردے گی۔ اس ویب سائٹ پر ایسے لوگوں کی تصاویر ہیں جو دنیا کے کسی کونے میں موجود نہیں اور انہیں کمپیوٹر پروگرام اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔ اس ویب سائٹ کا نام thispersondoesnotexist.com ہے جس کی ایک جعلی تصویر اس مضمون کی اشاعت میں شامل ہے جو آپ پر اس ٹیکنالوجی کی افادیت ثابت کرنے کےلیے کافی ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اے آئی کے فوائد کے ساتھ اس کے نقصانات پر بھی نظر رکھی جائے۔ حکومتوں کو فوری طور پر قانون سازی اور سخت معیارات کے تحت اس ٹیکنالوجی کو ایک دائرے میں رکھنا ہوگا، ورنہ یہ رحمت کم اور زحمت زیادہ بن جائے گی۔