اُمید کی انقلابیت

1368

اُمید کو لوگ ایک لفظ سمجھتے ہیں حالاں کہ اُمید انسان کا سب سے بڑا سرمایہ، اس کا سب سے بڑا سہارا اور ایک انقلابی تصور ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نا اُمیدی سب سے بڑی غربت، سب سے بڑی معذوری اور سب سے بڑا ردِ انقلاب یا Status que ہے۔ غالب نے کہا ہے۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے
آدمی مایوس ہو جاتا ہے تو اسے زندگی نہیں موت میں اُمید نظر آنے لگتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ مشکلات اور پریشانیوں سے نجات کی واحد صورت موت ہے۔ بدقسمتی سے مایوس لوگ ’’فطری موت‘‘ کا بھی انتظار نہیں کرپاتے وہ غیر فطری موت کو گلے لگالیتے ہیں۔ یہاں آکر پتا چلتا ہے کہ اُمید صرف ایک سرمایہ، ایک سہارا اور ایک انقلابی تصور نہیں ہے بلکہ اُمید ہی زندگی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ انسان ناامید کیوں ہوجاتا ہے؟ ذرا ساحر لدھیانوی کی یہ نظم ملاحظہ کیجیے۔
یہ محلوں یہ تختیوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
**
ہر اک جسم گھائل ہر اک روح پیاسی
نگاہوں میں اُلجھن دلوں میں اُداسی
یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
**
یہاں اک کھلونا ہے انساں کی ہستی
یہ دنیا ہے مردہ پرستوں کی بستی
یہاں پر تو جیون سے ہے موت سستی
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
**
جوانی بھٹکتی ہے بدکار بن کر
جواں جسم سجتے ہیں بازار بن کر
یہاں پیار ہوتا ہے بیوپار بن کر
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
**
یہ دنیا جہاں آدمی کچھ نہیں ہے
وفا کچھ نہیں دوستی کچھ نہیں ہے
جہاں پیار کی قدر ہی کچھ نہیں ہے
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
**
جلادو اسے پھونک ڈالو یہ دنیا
مرے سامنے سے ہٹالو یہ دنیا
تمہاری ہے تم ہی سنبھالو یہ دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟
یہ نظم بتا رہی ہے کہ دنیا اتنی غیر انسانی ہوگئی ہے کہ اس کے ملنے اور نہ ملنے میں کوئی فرق نہیں بلکہ اس کا نہ ملنا ملنے سے بہتر ہے۔ لیکن یہاں کہنے کی اصل بات کچھ اور ہے۔ انسان پہلے مرحلے میں اپنے ماحول سے مایوس ہوتا ہے۔ ماحول کا جبر اتنی ہولناک چیز ہے کہ ماحول انسان کی شخصیت، اس کے نیک و بد یہاں تک کہ اس کے مذہب کو بھی بدل ڈالتا ہے۔ چناں چہ انسان جب ماحول میں موجود جبر کو دیکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی اُمید موجود نہیں۔ سرسیّد کی غلامانہ ذہنیت ایک اعتبار سے ماحول کے جبر کا حامل تھی۔ سرسیّد کو لگتا تھا کہ انگریز آگئے ہیں اور اب وہ قیامت تک واپس نہیں جائیں گے۔ ان کا غلبہ ایسا ہے کہ اس کو توڑنا ممکن نہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ وقت کی دو سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکا کی طاقت لوگوں کو اتنا مرعوب کرتی تھی کہ وہ سوویت یونین اور امریکا کے خلاف مزاحمت کے بارے میں سوچتے ہی نہیں تھے۔ مگر ہم نے اپنی زندگی میں افغانستان کے اندر سوویت یونین اور امریکا دونوں کو شکست کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ شکست جدوجہد اور قربانیوں سے نمودار ہوئی ہے۔ اس لیے اسلام مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ماحول کا جبر خواہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو اس کے خلاف جہاد کرو۔ ایسا نہیں ہوگا تو کروڑوں انسان ’’نا اُمید‘‘ ہوجائیں گے، پہلے مرحلے میں وہ ماحول سے مایوس ہوں گے، دوسرے مرحلے میں وہ اپنے آپ سے بھی مایوس ہوجائیں گے۔ ساحر کی زیر بحث نظم کا آخری بند بتا رہا ہے کہ شاعر صرف ماحول سے نہیں اپنے آپ سے بھی مایوس ہے۔ اسی لیے اس نے خود کو دنیا سے لاتعلق کرلیا ہے اور وہ اہل دنیا سے کہہ رہا ہے کہ دنیا تمہاری ہے تم ہی اسے سنبھالو۔ شاعر کو ماحول اور اپنی ذات سے مایوسی کے باعث مسئلے کا دوسرا حل یہ نظر آرہا ہے کہ دنیا کو آگ لگادی جائے۔ لیکن مسئلے کا حل دنیا کو ’’آگ لگانا‘‘ نہیں دنیا کو ’’بدلنا‘‘ ہے اور دنیا کو ’’مایوس‘‘ لوگ نہیں بدلتے ’’پُراُمید‘‘ لوگ بدلتے ہیں۔ دنیا کو آگ لگانا ’’احتجاججیوں‘‘ کا کام ہے۔ دنیا کو بدلنا ’’انقلابیوں‘‘ کا کام ہے۔ بلاشبہ اقبال نے کہا ہے:
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریبِ تمام
مگر ساحر کے پاس تخریب تمام کے بعد ’’تعمیر نو‘‘ کا کوئی منصوبہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ماحول سے بھی مایوس ہے اور اپنی ذات سے بھی۔ بدقسمتی سے جب انسان ماحول اور خود اپنی ذات سے بھی مایوس ہوجاتا ہے تو پھر وہ دعا اور خدا سے بھی مایوس ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس کی مایوسی کا دائرہ مکمل ہوجاتا ہے۔ ساحر اگر مذہبی شخصیت ہوتے تو شاید دنیا کی ابتری کے بیان کے بعد وہ اسے بدلنے کی بات ضرور کرتے۔ مگر ماحول کے جبر نے انہیں معاشرے اور خود اپنی ذات سے بھی بیگانہ کردیا تھا۔ معاشرے کی قدریں بدل جاتی ہیں تو انسان اپنے ہی ماحول، اپنے ہی معاشرے، یہاں تک کہ اپنے ہی گھر میں ’’اجنبی‘‘ ہوجاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اُمید کا سرچشمہ کہاں ہوتا ہے؟
ایک مسلمان کے لیے اس سوال کا جواب دینا نہایت آسان ہے۔ سورۂ عصر کا ترجمہ ہے: ’’زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے۔ نیک اعمال کرتے رہے۔ حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔ یہ چاروں تصورات باہم مربوط ہیں۔ اصل چیز ایمان ہے۔ مگر ایمان کو بنجر نہیں ہونا چاہیے۔ قول عمل میں ڈھل جاتا ہے تو انسان حق بات کی تلقین کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور جب یہ تینوں چیزیں جمع ہوجاتی ہیں تو آزمائشیں انسان کی طرف لپکتی ہیں۔ چناں چہ صبر ناگزیر ہوجاتا ہے۔ اس طرح وہ شخصیت وجود میں آجاتی ہے جو ہمیشہ پُراُمید رہتی ہے۔ کبھی مایوس نہیں ہوتی۔ قرآن نے اللہ تعالیٰ کے ولیوں کے لیے صاف کہا ہے نہ انہیں کسی بات کا خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی ملال ان کی شخصیت اور اُمید کو زیر و زبر کرتا ہے۔
حق سے وابستگی اور تاریخ کا شعور بھی مسلمانوں کے لیے اُمید کا گلشن تخلیق کرتا ہے۔ آپ نے اقبال کی نظم کے یہ اشعار تو پڑھے ہی ہوں گے۔
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آمادۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
سفینہ برگ گُل بنالے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
اقبال کی یہ نظم، نظم نہیں ہے بلکہ اُمید تخلیق کرنے والی ایک فیکٹری ہے۔ یہ نظم اقبال نے 1907ء میں لکھی تھی۔ یہ مغرب کے غلبے اور مسلمانوں کی بدترین مغلوبیت کا زمانہ تھا۔ مگر اقبال کا تصورِ حق اور شعورِ تاریخ اندھیرے میں چراغاں کررہا تھا۔ مغرب عروج کی طرف جارہا تھا اور اقبال اہل مغرب کو بتا رہے تھے کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے خودکشی کرنے والی ہے۔ حق سے وابستگی اور تاریخ کے شعورِ نے صرف اقبال کی شاعری میں اُمید کے دیے نہیں جلائے بلکہ مولانا مودودی کا علم کلام بھی اُمیدوں کے چراغوں سے جھلملا اُٹھا۔
مولانا کا زمانہ بھی کمیونزم کے عروج اور مغرب کے غلبے کا زمانہ تھا مگر مولانا 1946ء میں لکھ رہے تھے۔
’’ایک وقت آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ بر اندام ہوگی اور مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا‘‘۔ (شہادت حق۔ صفحہ 15)
مولانا صرف یہ کہہ کر نہیں رہ گئے بلکہ انہوں نے فرمایا کہ اسلام مغلوب ہونے کے لیے نہیں غالب ہونے کے لیے آیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ قرآن کی دعوت لے کر اُٹھو اور دنیا پر چھا جاؤ۔ مولانا یہ بات اس وقت کہہ رہے تھے جب مسلمان اپنے مستقبل سے کیا خود اسلام کے مستقبل سے بھی مایوس تھے۔ لیکن مولانا کی فکر، مزاج اور رویے کے آسمان پر اُمید کا چاند اپنی بہاریں دکھا رہا تھا۔ یہاں ہمیں میر اور اقبال کے شعر یاد آگئے۔
میر نے کہا ہے:
محبت نے کاڑھا ہے ظلمت سے نُور
نہ ہوتی محبت نہ ہوتا ظہور
**
محبت مسبّب، محبت سبب
محبت سے ہوتے ہیں کارِ عجب
میر کہہ رہے ہیں کہ محبت کی قوت یہ ہے کہ وہ اندھیرے سے روشنی کشید کرسکتی ہے۔ اگر محبت موجود نہ ہوتی تو یہ کچھ بھی ’’عدم‘‘ سے ’’وجود‘‘ میں نہ آتا۔ میر کے مطابق محبت سبب بھی ہے مسبب بھی اور اس سے وہ کام ہوتے ہیں جو بعید از قیاس ہوتے ہیں۔ چناں چہ محبت اپنی اصل میں دائمی اُمید کے سوا کچھ نہیں۔
اقبال نے کہا ہے:
عشق کے مضراب سے نغمہ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات
**
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
اقبال کہہ رہے ہیں عشق زندگی کا نُور بھی ہے اور اس کے حرارت بھی۔ عشق کی قوت یہ ہے کہ اس کی ایک جست بیکران کو عبور کرلیتی ہے۔ غالب کا ایک شعر یاد آیا۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
ہماری روایت میں تمنا وجود کی کلیّت کی علامت بھی ہے اور محبت کی کاملیت کی علامت بھی۔ اہم بات یہ ہے کہ جب انسان کو یہ کاملیت میسر آجاتی ہے تو امکان کی دنیا کا سفر ایک قدم میں طے ہوجاتا ہے۔
ہماری دنیا میں ڈھائی تین ارب انسان خدا اور مذہب سے بیگانہ ہیں۔ مزید اتنے ہی لوگوں نے خدا کے شریک ایجاد کیے ہوئے ہیں۔ ایک اور سطح پر دیکھیے تو یہ دنیا سرمایہ داروں کے نرغے میں ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے صرف دو فی صد لوگوں نے دنیا کے 80 فی صد وسائل پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہماری دنیا میں ایک ارب انسان خط غربت سے نیچے بھوکے کھڑے ہیں۔ ہماری دنیا میں کہیں امریکا کا غلبہ ہے، کہیں یورپ کا کہیں اسٹیبلشمنٹ کا حکم چل رہا ہے۔ کہیں اقتدار مودی اور نیتن یاہو جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے، کہیں سیاست پر نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان جیسے بونے چھائے ہوئے ہیں۔ اس دنیا میں اُمید پہلے سے زیادہ مذہبی اور انقلابی تصور بن گئی ہے۔