ڈپلومیسی کی پرخطر اور پیچیدہ راہیں

317

ایک طرف پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول زرداری کالعدم تنظیموں کے خلاف حکومت پاکستان کی کارروائی پر برملا شکوک کا اظہار کررہے ہیں تو دوسری طرف کشمیر کے سابق وزیرا علیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پلوامہ حملے کی حقیقت پر ہی شک کا اظہار کر دیا ہے۔ فاروق عبداللہ کا کہنا تھا کہ انہیں پلوامہ حملے کے بارے میں کچھ شکوک ہیں مگر وہ کیا شکوک ہیں؟ اس بات کی وضاحت نہیں کی یہی نہیں بلکہ فاروق عبداللہ نے بالاکوٹ کارروائی اور وہاں ہلاکتوں کے دعوے کا بھی مذاق کچھ یوں اُڑایا کہ شرکائے محفل قہقہے لگانے پر مجبور ہوئے۔ بھارت میں بہت سے لوگ اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ رہے ہیں کہ نریندر مودی کو انتخابات جیتنے کے لیے مہم جوئی کی ضرورت تھی اور اس کے لیے آسان طریقہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دینا تھا۔ نریندر مودی انتخابی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے تھے اس لیے ووٹر کی توجہ اور دھیان ان نعروں سے ہٹانے کے لیے نئے موضوعات چھیڑنا ان کی سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ اس مہم کی حمایت بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا ایک سخت گیر حصہ تو کر ہی رہا تھا مگر امریکا اور اسرائیل میں مسلمان مخالف لابیاں بھی مودی کو فاتح کے طور پر دیکھنے کی خواہش مند ہیں۔ ان کے خیال میں اسرائیل مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کا مزاج جس طرح درست کر رہا ہے اسی طرح نریندر مودی جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کا علاج کرسکتے ہیں اور عملی طور پر وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ اس گٹھ جوڑ میں افغانستان کو بھی شامل کر لیا گیا تھا۔
پلوامہ کا حملہ جب ہوا تو پاکستان پہلے ہی ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملا ت اور شرائط طے کرنے میں اُلجھا ہوا تھا۔ اس لیے پلوامہ حملے کی ٹائمنگ خاصی مشکوک تھی۔ صرف فاروق عبداللہ ہی نہیں بھارت کے بہت سے دوسرے سیاست دان بھی پلوامہ حملے اور بالاکوٹ آپریشن کے بارے میں بھارت کی سرکاری کہانی پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے سیاست دان اور حکمران کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ بھارت کی کہانی کو تقویت دینے کا باعث بننے والا موقف اپنا رہے ہیں۔ پلوامہ میں صرف اس قدر سچائی ہے کہ حملہ آور عادل ڈار کا تعلق واد�ئ کشمیر سے تھا اور وہ اس نوجوان نسل کا نمائندہ تھا جو بھارتی جبر سے تنگ آکر اپنی جانیں قربان کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ اس واقعے کے بہت سے تحقیق طلب پہلو ہیں۔ اس معاملے پر شکوک کے سائے کچھ مزید گہرے یوں ہو رہے ہیں کہ بھارتی حکومت نے اس حملے کے بارے میں جو ڈوزئیر حکومت پاکستان کو بھیجا ہے اس میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں۔ حد تو یہ کہ اس میں جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام تک شامل نہیں۔ یوں لگ رہا ہے بھارت نے اخبارات میں شائع ہونے والے چند بیانات کا خلاصہ تیار کرکے پاکستان کو بھیج دیا ہے اور اس کے بعد پاکستان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ یہاں لوگوں کی گردنیں اتار کر اور انہیں جیلوں میں بند کرکے بھارت کا برہم مزاج خوش گوار بنانے کا فریضہ انجام دے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے اس ڈوزئیر کو ناکافی اور رسمی قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس بات کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو پھر حکومت پاکستان کی طرف سے پلوامہ حملے کے تناظر میں گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ قطعی بلاجواز ہے۔ بھارتی لیڈروں کے ہوائی بیانات کی بنیاد پر پاکستان اپنے لوگوں کو سزائیں نہیں سنا سکتا۔ اس ملک میں عدالتی نظام موجود ہے کل کو یہی متاثرین حکومت سے ثبوت طلب کرنے عدالت میں جائیں گے تو حکومت گرفتاریوں، تعلیمی اداروں اور رفاحی کاموں پر بندش اور اثاثوں پر کنٹرول کے اقدامات کا کس طرح دفاع کرپائے گی؟ اسی جانب چودھری نثار علی خان نے معنی خیز اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’بھارت کے بارے میں عمران خان اور نوازشریف کی پالیسی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا‘‘۔
چودھری نثار کے اس تبصرے میں بہت سے جہاں آباد اور بہت سی کہانیاں اور ماضی کے واقعات پنہاں ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے تدارک کے لیے اقوام متحدہ کے اداروں کو کسی ایک ملک کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔ انسداد دہشت گردی کی عالمی حکمت عملی میں غاصبانہ تسلط اور مقبوضہ علاقوں کے حق خودارادیت سے انکار سے جنم لینے والی صورت حال پر بھی غور کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دہشت گردی کی علامت سے نہیں وجوہات سے نبرد آزما ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے عالمی ادارے کی توجہ ایک اہم اور بنیادی نکتے کی طرف دلائی ہے۔ ایسے وقت میں جب فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معاونت کے حوالے سے گرے لسٹ میں ڈالنے کے بعد اگلے فیصلے کے لیے ذہن سازی کر رہا ہے۔ پاکستان خود کو گرے سے بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے خوف کے باعث منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے خلاف تیزی سے اقدامات اُٹھا رہا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے یہ کہہ کر حق بات کی ہے کہ اقوام متحدہ سے وابستہ ادارے کسی ملک کے آلہ کار نہ بنیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ا قوام متحدہ اور اس سے وابستہ اداروں پر مغربی ملکوں بالخصوص امریکا کا غلبہ ہے اور امریکا کے اعصاب پر بھارت کی محبت کا غلبہ ہے۔ چین کی مخالفت میں امریکا بھارت کو راتوں رات ایک عالمی طاقت بنانا چاہتا ہے۔ عالمی طاقت بننا ایک طویل اور ارتقائی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے اور اس راہ میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ مصنوعی طریقوں سے کسی کو عالمی طاقت تو بنایا جا سکتا ہے مگر اس کا عالمی اثر رسوخ وقت اور حالات کے ہوا کے ایک جھونکے کی مار ہوتا ہے۔ بھارت کی کیمسٹری میں عالمی طاقت بننا نہیں۔ اس کا واضح ثبوت یہ کہ ایک طرف امریکا بھارت کا قد کھینچ کھانچ کر اونچا کررہا ہے تو اتنی ہی تیزی سے بھارت اپنے ہندو وجود میں سمٹتا چلا جا رہا ہے۔ امریکا بھارت کو عالمی تہذیب بنانے پر مصر اور مصروف ہے اور بھارت خود کو ہندو تہذیب کے دائرے میں سمیٹ رہا ہے۔ امریکا کی اس مہربانی کی وجہ چین اور پاکستان کی مخالفت ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے امریکا کو کوئی خطرہ نہیں اس سے بھارت کے منصوبوں میں رکاوٹ پیش آتی ہے۔ بھارت کی اس ضرورت کے لیے امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے در پے ہے۔ پاکستان کی فوج کی قوت کا سائز بھی کم کرنے کے پیچھے امریکا کی یہی خواہش ہے۔ امریکا عالمی اداروں پر اپنا اثر رسوخ بھارت کے موقف کو تقویت دینے کے لیے صرف کررہا ہے۔ کلبھوشن کے سیدھے سادے دہشت گردی کے کیس کو عالمی عدالت تک لے جانا اور پھر اس کو سماعت کے لیے قبول کرنا اور ایف اے ٹی ایف کے فیصلے سب میں امریکا بھارت رومانس کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارت اور امریکا عالمی اداروں کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اور ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا اشارہ اسی جانب ہے۔ عالمی ادارے اور نظام کو اسی طرح سیاسی مقاصد اور ضرورت کے تحت چلایا گیا تویہ نظام گرنے میں دیر نہیں لگے گی۔