صدر ٹرمپ 21 مارچ کو وہائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں شاہانہ طمطراق سے شام کے جولان کے پہاڑی علاقے کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کے فرمان پر دستخط کرتے ہوئے پھولے نہیں سما رہے تھے اور اپنے برابر میں بیٹھے خوشی سے نہال اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو یہ فرمان ایسے دے رہے تھے کہ جیسے ایک داد گیر لوٹا ہوا مال غنیمت بانٹ رہا ہو۔ صدرٹرمپ نے بین الاقوامی قوانین کے منافی اپنے اس اقدام کا یہ جواز پیش کیا کہ یہ اقدام اسرائیل کی سلامتی اور دفاع کے لیے لازمی ہے کیوں کہ شام کی خانہ جنگی میں ایران جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے فرمان میں کہا ہے کہ ’’میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ امریکا جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرتا ہے‘‘۔ ان کا یہ ’’تاریخی اعلان‘‘ اس بارے میں بالکل خاموش ہے کہ امریکا کو یہ اختیار کس نے اور کس قانون کے تحت دیا کہ وہ کسی ایک ملک کے ایک حصے کو دوسرے ملک کا حصہ قرار دیں۔ لیکن صدر ٹرمپ طاقت کے نشے میں اس قدر چور ہیں کہ وہ ایک لمحہ کے لیے بھی بین الاقوامی قوانین پر نظر ڈالنے کے روادار نہیں ہیں اور فرمان وصول کرنے والے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ہوش کے عالم میں بھی کبھی بین الاقوامی قوانیں کی پاس داری نہیں کی۔
اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران شام کی جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کیا تھا اور بعد میں اسے اسرائیل میں ضم کرلیا تھا۔ اس دوران میں اسرائیل نے جولان سے دسیوں ہزار شامیوں کو جبراً ان کے وطن سے نکال دیا تھا اور ان کی جگہ یہاں یہودیوں کو بسانے کے لیے 34 یہودی بستیان تعمیر کی تھیں۔ یوں جولان پر قبضہ کے ساتھ اس علاقے میں آبادی کی ہئیت یکسر تبدیل کر دی۔ اسرائیل جولان پر اس وجہ سے بھی اپنا دیر پا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ دریائے اردن کا منبع انہی جولان کی پہاڑیوں میں ہے۔ پھر فوجی لحاظ سے یہ اسرائیلوں کے لیے بیحد اہم ہے کہ جولان کی بلندی سے شام کے پورے مشرقی علاقے پر کڑی نگاہ رکھی جا سکتی ہے۔ تاہم پچھلے 52 سال کے دوران میں ایک لمحے کے لیے بھی بین الاقوامی برادری نے جولان پر اسرائیل کے حق کو تسلیم نہیں کیا اور خود اب تک امریکا کے کسی صدر نے اور ان کی انتظامیہ نے جولان پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم نہیں کی۔ جولان کے بارے میں ٹرمپ کے اعلان پر یورپی یونین نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ کو ایک مقبوضہ علاقہ کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ عرب لیگ نے بھی ٹرمپ کے اعلان پر کڑی تنقید کی ہے۔
جب سے ٹرمپ بر سراقتدار آئے ہیں انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ میں دراندازی کا عمل شروع کیا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کے حقوق کو سلب کرنا، ان کی کمر توڑنا اور ان کا قلع قمع کرنا ہے۔ سب سے پہلے ٹرمپ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانہ اس منقسم شہر میں منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ پھر اپنے وطن سے اجڑے ہوئے فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی فنڈ میں اپنا حصہ ادا کرنے سے صاف انکار کردیا یہی نہیں ٹرمپ نے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کے تعمیر اور توسیع کی بھر پور حمایت کی۔
جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا علاقہ تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کا مقصد دراصل 9 اپریل کو ہونے والے اسرئیلی عام انتخابات میں نیتن یاہو کو جتوانے کی کوشش ہے۔ ان انتخابات میں نیتن یاہو کا مقابلہ اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بینی گانٹز سے ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بڑے کانٹے کا مقابلہ رہے گا۔ نیتن یاہو کرپشن کے الزامات کی اردپ میں ہیں لیکن ان کے مقابلہ میں بینی گانٹز فوجی کامیابیوں کی وجہ سے بہت مقبول ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا کا کوئی صدر براہ راست کسی غیر ملک کے انتخابات میں کسی ایک فریق کی کھلم کھلا مدد اور حمایت کر رہا ہے۔
فلسطینیوں میں اس بات کا شدید خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ جس طرح ٹرمپ نے جولان کے مقبوضہ علاقہ کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا ہے اسی طرح صدر ٹرمپ مغربی کنارے پر فلسطینی انتظامیہ کے علاقہ کو بھی اسرائیل کا حصہ قرار دے سکتے ہیں۔ ویسے بھی مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے اکسٹھ فی صد علاقہ پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے ذریعے اسرائیل نے قبضہ جما لیا ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بارے میں صدر ٹرمپ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یروشلم کے بارے میں فیصلہ کے وقت دنیا کے لیڈروں نے ان پر زور دیا کہ وہ یہ نہ کریں لیکن اس کے باوجود انہوں نے یہ اعلان کیا اور کچھ نہیں ہوا اور سب ٹھیک ہوگیا۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے یروشلم کے بارے میں فیصلہ کیا اور ان کا کچھ نہیں بگڑا اسی طرح جولان کے بارے میں بھی فیصلہ تسلیم کر لیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نہ صرف اس بات پر پھولے نہیں سماتے بلکہ وہ اس بات پر بھی اپنی طمانیت نہیں چھپاتے کہ وہ تمام عرب رہنما جنہیں مغربی ممالک کی پشت پناہی حاصل ہے وہ فلسطین کے بارے میں امریکی صدر کے اقدامات کو خوشنودی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، ابو ظہبی کے حکمران محمد بن زاید اور مصر کے عبدالفتاح السیسی نے اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا دفاع اور تجارتی تعلقات استوار کر لیے ہیں اور خلیج کی دوسری ریاستیں بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی خواہاں ہیں۔ بلا شبہ عرب ممالک فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی جدوجہد میں پیش پیش تھے اب ان کا ساتھ دینے کا پیمان بُھلا دیا ہے اور فلسطینیوں پر جو ظلم و ستم ہورہا ہے اس پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔
پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو سے اسرائیل کے دورے پر پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ٹرمپ کو خاص طور پر اسرائیل کو ایران کے خطرہ سے بچانے کے لیے بھیجا ہے۔ اس کے جواب میں مائک پومپیو نے کہا کہ ایک عیسائی کی حیثیت سے وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی عوام کو یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کی حمایت اور مدد میں جو پالیسی اختیار کی ہے اس کے پیچھے اللہ کی رضا ہے۔
بہرحال اس وقت فلسطینی یکسر تنہا اور بے یار و مدد گار ہیں اور ٹرمپ اور نیتن یاہو طاقت کے نشے میں چور، فلسطینیوں کے حقوق کو ملیامیٹ کرنے اور ان کا قلع قمع کرنے کے لیے من مانی کارروائی کر رہے ہیں۔ اگر اس وقت فلسطینیوں کا کوئی حامی و مدد گار ہے اور امریکا اور اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہا ہے تو وہ صرف ترکی اور ایران ہیں۔