اسمبلی کے لیے نااہل‘ کابینہ کے لیے اہم

308

 

 

دو دن میں یہ کیا ماجرا ہوگیا، وفاقی وزیر اطلاعات کی اطلاعات کمزور یا غیر معتبر تھیں یا پھر دوسری طرف سے کوئی کارروائی ہوگئی۔ وہ بڑے طمطراق سے کہہ رہے تھے کہ سندھ حکومت کو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں، انہیں توجہ بھی دلائی گئی کہ حکومتیں گرانا اور بنانا کسی اور کا کام ہے آپ کا نہیں، لیکن انہیں سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ پیر کے روز انہیں اور وزیراعظم کو بھی سمجھ میں آگیا کہ حکومتیں گرانا اور بنانا کس کا کام ہے، کل تک سندھ میں انتشار کی اُمیدیں لے کر دورے کرنے والوں کی دوڑیں اسلام آباد کی طرف لگ گئیں جہاں کپتان کے دو اوپننگ بیٹسمینوں میں جھگڑا ہوگیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہہ دیا کہ جہانگیر ترین سرکاری اجلاس میں نہ آیا کریں۔ اس کا جواب بھی جہانگیر ترین نے خوب دیا کہ میں صرف عمران خان کو جوابدہ ہوں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا موقف بہرحال مضبوط ہے کہ جب جہانگیر ترین سرکاری اجلاس میں بیٹھتے ہیں تو وہ چیف جسٹس کے فیصلے کی تضحیک کرتے ہیں اور مریم نواز کو ہمارے خلاف بولنے کا موقع دیتے ہیں۔ اس کا جواب الجواب بھی پڑھیں، وہ جہانگیر بھی کیا جو ترین نہ ہو۔۔۔ فرماتے ہیں کہ پاکستان کی خدمت میرا حق ہے اور شاہ محمود سمیت کوئی مجھے اس حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس بھی انہیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتے۔ لیکن پاکستان کی خدمت کرنے کا یہ کیا طریقہ ہے کہ عدالت عظمیٰ آپ کو جس کام کے لیے نااہل قرار دیتی ہے آپ اس پر مصر ہیں۔ قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دینے کا مطلب یہی ہے کہ آپ اس کام کے لیے اہل نہیں۔
اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب ایک ٹی وی اینکر نے پی ٹی آئی کے رہنما سے کہا کہ آپ کی پارٹی میں اختلافات بڑھ رہے ہیں اور وزیراعظم نے اتنا کہا ہے کہ آپس کے اختلافات کو میڈیا پر نہیں آنا چاہیے۔ تو کیا اس سے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ تو پی ٹی آئی رہنما نے فرمایا کہ آج تک آپ نے یہ دیکھا ہے کہ کسی پارٹی کی حکومت میں کابینہ کا ایک سینئر وزیر کسی کے بارے میں یہ کہے کہ آپ اجلاس میں نہ آیا کریں اس سے عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی تضحیک ہوتی ہے، اور آپ نے کبھی یہ دیکھا کہ وزیراعظم نے سب کو خاموش کرادیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اس پر اینکر نے پھر سوال کیا کہ ان باتوں سے میرے سوال کا کیا تعلق۔۔۔ لیکن وہ پھر دوسری پارٹیوں کی مثالیں دینے لگے، لیکن اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا کہ عدالت عظمیٰ نے جس شخص کو اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیا ہے وہ کابینہ کے اجلاس میں کیوں بیٹھ رہا ہے۔ کابینہ میں تو 350 سے زیادہ ارکان
اسمبلی میں سے چالیس پچاس یا ساٹھ لوگ بیٹھتے ہیں گویا جہانگیر ترین منتخب ہونے کے اہل نہیں لیکن منتخب اراکین سے زیادہ اہم ہیں۔ جو باتیں پی ٹی آئی کے رہنما کررہے تھے وہ اس کا شکار تھے ان کی پارٹی کے رہنما زلفی بخاری ہیں ان کے رہنما جہانگیر ترین ہیں، علیمہ خان کے تحفظ کے لیے پوری حکومت کھڑی ہوئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کو بس فکر ہے تو اس بات کی کہ میاں نواز شریف بھی اب تک کسی اسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔ پوری حکومتی مشینری مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو چور ڈاکو کہنے بلکہ ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ سراج الحق صاحب کے بقول اسمبلی اور سینیٹ میں کیفیت یہ ہے کہ تیرا چور خراب اور میرا چور اچھا ہے کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ حالاں کہ چوروں کے سرداروں کے کارندوں کو سب سے زیادہ اگر کسی پارٹی نے اپنے سایہ میں جگہ دی ہے تو وہ پی ٹی آئی ہے۔ اس میں دونوں پارٹیوں کے لوگ ٹوٹ کر آئے یا لائے گئے اور کابینہ میں بھی وہی سارے لوگ لائے گئے ہیں جو دوسری پارٹیوں کے تھے۔ لے دے کر اکیلے وزیراعظم ہیں جو شروع سے تحریک انصاف میں ہیں۔ دوسرے آدمی کو عدالت عظمیٰ نے اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ وزیراعظم کی اہلیت یہ ہے کہ وہ کسی فرد کو پرکھنے کی صلاحیت سے محروم نظر آتے ہیں۔ کسی نے مشورہ دیا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدل دیا جائے انہوں نے کہا بدل دیا گیا۔ دو روز قبل بادشاہوں کی طرح نواز اور زرداری کو معاف کرنے کی پیشکش کررہے تھے، یہ اعلان بھی بادشاہوں کی طرح کیا گیا۔ جب ان سے جی ڈی اے والوں نے کہا کہ پروگرام کا نام تو بدلیں۔ انہوں نے فوراً کہہ دیا کہ بدل دیا گیا۔ بادشاہ اسی طرح کہتے ہیں۔ جب ان کے سامنے فریادی کہتا ہے کہ گندم مہنگی ہوگئی ہے سستی کردی جائے تو بادشاہ اعلان کرتا ہے گندم سستی کردی جائے اور ہوجاتی ہے۔ جناب وزیراعظم اعلان کرنے سے قبل یہ تو سوچ لیتے کہ یہ پروگرام عالمی بینک سے فنڈ کے نتیجے میں قائم ہوا ہے اس کا نام تبدیل کرنے کے لیے عالمی بینک سے اجازت لینی پڑے گی۔ یہاں تو قرض لینے کے لیے سو شرائط ماننی پڑتی ہیں تو عالمی بینک کے منصوبے کا نام کیسے بدلیں گے۔ اگلے دن تردید کرنا پڑی۔ بات گھوم پھر کر کسی اور جانب نکل گئی شروع تو ہوئی تھی سندھ حکومت ختم کرنے کے بیان سے۔ حکومت توڑنے اور بنانے کا بیان دینے سے حکومتیں ٹوٹتی اور بنتی نہیں بلکہ وفاقی وزیر اطلاعات کو یہی سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ فواد چودھری سمیت بہت سے سیاستدانوں کو مختلف پارٹیوں میں بھیجتے ہیں۔ چند روز قبل کابینہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین میں جھڑپ نے انہیں اور وزیراعظم کو بھی بتادیا ہوگا کہ جو لوگ مختلف پارٹیوں سے ڈیوٹیوں پر آتے ہیں وہ قیامت ہی ڈھاتے ہیں۔ لہٰذا کوئی بیان ٹھونکنے سے پہلے ٹھونک بجا کر دیکھ لیا کریں۔