چودھری نثار علی خان عمران خان کے عہد طالب علمی اور میاں نواز شریف کے سیاسی سفر کے ساتھی اور ہم راز ہیں۔ دونوں کے ساتھ ان کی قربت دہائیوں پر محیط ہے۔ میاں نواز شریف کی اُٹھان اور اُڑان کے وہ چشم دید گواہ بھی ہیں اور ان ہم سفر بھی۔ وہ نواز شریف کے ساتھ اقتدار کے ہر دور میں شریک کار رہے اور جب بھی میاں نواز شریف کی بھارت اور کشمیر پالیسی میں کوئی جھول دیکھتے تو ایک عدد بیان دے کر اتمام حجت کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہ کرتے۔ اب وہ نواز شریف سے روٹھے روٹھے ہیں تو عمران خان سے بھی اکھڑے کھڑے ہیں۔ حقیقت میں ابھی تک وہ اپنی انتخابی شکست سے سنبھل نہیں پائے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست وہ جیت چکے ہیں مگر نشست ان کا انتظار کر رہی ہے اور وہ حلف لینے کو تیار نہیں۔ شاید وہ اس کامیابی کو اپنا قومی قد چھوٹا کرنے کا باعث گردانتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ نوازشریف کے بغیر اور نوازشریف ان کے بغیر مطمئن اور آسودہ نہ ہوسکے اور دونوں کا حال یہ ہے کہ
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
نوازشریف چودھری نثار کے مشوروں کو نہ ماننے اور چودھری نثار مشکل وقتوں میں ساتھ نہ دینے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ چودھری نثار نے اپنے ماضی کے دوستوں کے لیے ایک معنی خیز جملہ یوں کہا ہے کہ: نواز شریف اور عمران خان کی بھارت پالیسی میں کوئی فرق نہیں۔ اگر بھارت مذاکرات پر آمادہ نہیں تو مودی کو ٹیلی فون کرکے مذاکرات کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں۔ چودھری نثار علی خان اگر حکومت کی بھارت پالیسی پر تنقید تک محدود رہتے تو اس میں کوئی نیا پن نہ ہوتا مگر انہوں نے عمران خان کو نواز شریف ہی کے راستے کا راہی کہہ کر معاملے کی سنگینی اور تجسس بڑھا دیا ہے۔ اس ایک جملے میں میاں نواز شریف کے سیاسی عروج وزوال کی داستان بھی ہے اور عمران خان کے سیاسی مستقبل کے لیے نوشت�ۂ دیوار بھی درج ہے۔
نوازشریف کی بھارت پالیسی دوعشروں پر محیط کہانی ہے اور یہ کہانی صرف اسی نام اور ایک کردار کے گرد نہیں گھومتی بلکہ یہ ایک اور موڑ پر ایک اور نام اور کردار پرویز مشرف کا اضافہ کرکے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ دوسرا کردار بھی خوش اور آسودہ نہ ہوسکا اور دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہونے کی خواہش میں چراغِ سحر بنتا جا رہا ہے۔ اب اگر اس فہرست میں عمران خان کا اضافہ ہوتا ہے تو یہ ان کے بائیس سالہ سیاسی سفر کا بڑا موڑ اور اس حوالے سے اہم انکشاف ہے۔ اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان کے گرد وپیش میں اقتصادی سرگرمیوں کا ایک جنگل اُگ پڑتا ہے اور پاکستان بھارت کے ساتھ اپنے دیرینہ اختلافات کے باعث ان سرگرمیوں میں کھلے دل اور ذہن کے ساتھ شامل ہونے سے کتراتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کی اسٹرٹیجک کمنٹ منٹس اسے پوری طرح اس منصوبے میں شامل ہونے سے روکے رکھتی ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کا یہ اُبال صرف معاشی نہیں بلکہ اسٹرٹیجک بھی ہے، اس لیے اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ تب پاکستان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے ماضی کو دفن کرکے کتابِ زیست کا ایک نیا صفحہ لکھے تو ترقی کے نئے امکانوں اور جہانوں میں پورا شراکت دار ہو سکتا ہے۔
عمومی طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر کو سمجھا جاتا ہے اسی لیے اس مسئلے کو کچھ فریز اور کچھ حل کرنے کے انداز میں راہوں کو صاف کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کام میں ایک اہم رکاوٹ واد�ئ کشمیر کے عوام کی خواہشات ہیں جو آزادی سے کم کسی بات پر قناعت کرنے سے بہت دور ہیں۔ آوٹ آف باکس حل میں بھی ان خواہشات کو کسی نہ کسی حد تک پیش نظر رکھنا لازم ہوتا ہے۔ اقتصادی ترقی کا سراب دکھاتے ہوئے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کشمیر پر اپنے ماضی کے تصورات اور نظریات پر نظرثانی کرکے آگے بڑھے تو اس پر آسمان سے من وسلویٰ کی برسات ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر بہت گہرا ہے کہ اگر ایک سمجھوتا ہو گیا تو پھر سمجھوتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلے گیا۔ بات ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے تک اور پھر شاید فوجی قوت کم کرنے سے جانے کہاں تک پہنچ جائے گی۔ مسئلہ حل ہو تو اس ساری مشق میں کوئی حرج بھی نہیں مگر مسئلہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ بے چینی کی چنگاری بھی حالات کی راکھ میں دبی ہوگی تو یہ ساری مشق یک طرفہ لڑھکنے والی بات ہو گی۔ بھارت اصل مسئلے کے حل پرآمادہ نہیں ہوتا تو جنوبی ایشیا مثالی جنت نہیں بن سکتا۔ ایسے حالات میں پاکستان کے طاقتور حکمرانوں کو اقتصادی حالات بہتر بنانے کی ایک خوبصورت تصویر دکھائی جاتی ہے یہ ایک خیالی جنت کی پرکشش تصویر ہے اور کوئی احمق ہی اس تصویر پر مرمٹنے کو تیار نہیں ہوسکتا۔ ظاہر کہ پاکستان کے حکمران بھی اپنے عوام کا درد دل میں رکھتے ہیں۔ اپنے لوگوں کی معاشی بدحالی اور ملک کے خالی خزانے انہیں بھی خوابوں میں پریشان کیے رکھتے ہیں۔ ایک لاغر اور بیمار معیشت کے نگران کے طور پر ان کا دل بھی اس تصوراتی کہکشاں میں سفر کرنے کو چاہتا ہے۔ اس سفر کی جانب پہلا قدم ہی آخری ثابت ہوتا رہا ہے۔ پہلے قدم ہی میں آخری کا انجام مستور اور پنہاں ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کے کسی حکمران کے لیے تنی ہوئی رسی کا سفر ہوتا ہے۔ اس سفر میں سب سے مشکل کام توازن ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی توازن کا یہ مشکل مرحلہ در پیش ہے۔