اور اب سمندر کو بلوایا جائے گا

409

وزیراعظم عمران خان جس تواتر سے خوش کن اعلانات کررہے ہیں ہمیں غالب یاد آرہے ہیں:
ترے وعدے پہ جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
غالب کو تو اپنے اشعار یاد رہتے تھے کہ ازار بند کی گرہ سے یادداشت کا کام لیتے تھے وزیراعظم اپنے کیے گئے وعدے یاد رکھنے کے لیے نہ جانے کہاں گرہ باندھتے ہوں گے۔ معمولی چیزیں بھی بہت غیر معمولی ہوجاتی ہیں جب وہ کسی بلند فکر شخصیت سے منسوب ہوتی ہیں اور بلند آہنگ دعوے بھی ہاتھی کے دانت کی مانند دکھاوا بن جاتے ہیں جب وہ قول سدید سے زیادہ کسی یوٹرن لینے والے سیاست دان سے منسوب ہوں۔ غالب کا ذکر چھڑا تو کیسے ممکن ہے ان کی کسی بات سے دل شاد نہ کیا جائے۔ بلی ماراں کی اس حویلی کا ذکر نہ ہو جس میں غالب رہتے تھے جس کے باہر دلی کی گلیوں میں انگریز مسلمانوں کے لہو سے رنگ بھر رہے تھے۔ ایسے میں حویلی کے دروازے پر لگی لوہے کی بڑی سی کنڈی سے چوبی پٹ پر زور سے چوٹ پڑتی ہے۔ غالب باہر آتے ہیں تو سامنے انگریز سپاہیوں کی ایک ٹولی نظر آتی ہے۔ غالب کے سر پر انوکھی وضع کی لمبوتری سی ٹوپی، بدن پر چغہ اور اس میں جھولتا ہوا خوبصورت ازار بند۔ ٹولی کے نمائندہ افسر نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں پوچھا: ’’تم کا نام کیا ہوتا؟‘‘ غالب: ’’مرزا اسداللہ خان غالب عرف مرزا نوشہ‘‘۔ انگریز افسر: ’’تم لال قلعہ میں جاتا ہوتا تھا؟‘‘ غالب: ’’جاتا تھا مگر جب بلایا جاتا تھا‘‘۔ انگریز افسر: ’’کیوں جاتا تھا؟‘‘ غالب: ’’اپنی شاعری سنانے، ان کی غزل بنانے‘‘۔ انگریز افسر: ’’یو مین تم پوئٹ ہوتا؟‘‘ غالب: ’’ہوتا نہیں، ہوں‘‘۔ انگریز افسر: ’’ویل ٹم مسلمان؟‘‘ غالب: ’’حضور آدھا، شراب پیتا ہوں سور نہیں کھاتا‘‘۔
غالب کی مذاق کی عادت نے انہیں بچا لیا۔ حکمرانوں کی جھوٹ اور فریب کی عادت انہیں ڈبو دیتی ہے۔ غالب رات کو شعر کہتے تو لکھتے نہیں تھے ازار بند میں گرہ لگا لیتے تھے۔ صبح جاگتے تو ایک ایک گرہ کھولتے اور شعر لکھتے جاتے۔ ازار بند کا ذکر چلا تو اسی کو آگے بڑھاتے ہیں وقت بچا تو سیاست دوراں پر بھی بات ہو جائے گی۔
لکھنو میں محبو باؤں کی چوڑیاں، پازیب، نتھ اور بندوں کی طرح ازار بند بھی خوبصورتی کے بیان میں شامل ہوتا تھا۔ ازار بند سے وابستہ کئی محاورے بھی اس زمانے میں بول چال کا حصہ تھے۔ ازار بند کا ڈھیلا ہونا بدکرداری کے ضمن میں آتا تھا۔ نعت میں یہ مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔
جفا ہے خون میں شامل تووہ کرے گی جفا
ازار بند کی ڈھیلی سے کیا امید وفا
ازار بند کی سچی سے مراد وہ عورت ہوتی تھی جو باعصمت ہو۔ ازار بندی رشتے بھی ہوتے تھے جن سے مراد سسرالی رشتے ہوتے تھے۔ ازار سے باہر ہونے کا مطلب تھا غصے میں ہوش کھونا۔ ازاربند میں گرہ لگانے کا مطلب ہوتا تھا کسی بات کو یاد رکھنا۔ آخر میں نظیر اکبر آبادی کے ازاربند پر چند اشعار۔ نظیر میلے ٹھیلوں میں گھومتے تھے زندگی کو اس کے تمام رنگوں میں قریب سے دیکھتے تھے، چھوکر محسوس کرتے تھے۔ ازاربند پر ان کے اشعار ان کی قدرت بیان کی بہترین مثال ہیں۔
چھوٹا بڑا نہ کم نہ مجھولا ازاربند
ہے اس پری کا سب سے امولا ازار بند
دھوکے میں ہاتھ لگ گیا میرا نظیر تو
لیڈی یہ بولی جا میرا دھولا ازاربند
مجھولا ’’درمیانے سائز‘‘ کا اور امولا کے معنی ہیں بیش قیمت،انمول۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں ازار بند جامے کے اندر چھپائے نہیں جاتے تھے بلکہ ہنر کے یہ نمونے مردوں اور عورتوں کے جامے سے باہر ہوتے تھے۔ ازار عربی کا لفظ ہے۔
پچھلے دنوں وزیراعظم نے قوم کو ایک بڑی خوش خبری سنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر وہ بھول گئے۔ ازار بند میں گرہ لگا لیتے تو یاد بھی رہتا۔ اخبارات سے پتا چلا کہ وزیراعظم سمندر سے گیس اور تیل کے بڑے ذخائر نکلنے کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ خشکی کو بلونے سے تو قوم کے دکھ دور نہیں ہوئے شاید سمندر کو بلونے سے دودھ اور مکھن نکل آئے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں بھی اس کا تذکرہ سامنے آیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’’ایک زون موبل‘‘ کو پاکستان میں کام کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے دو مرتبہ امریکا کے دورے بھی کیے تھے۔ ن لیگ کے دور ہی میں ایک زون موبل نے تیل اور گیس کی پاکستانی کمپنیوں سے شراکت داری کے ساتھ ڈرلنگ کرنے کے لیے معاہدہ بھی کرلیا تھا۔ نگراں حکومت کے دور میں بھی ذکر رہا ہے کہ پاکستان میں بہت جلد تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اس کا ذکر اس طرح کیا ہے جیسے یہ ان کی محنتوں کا ثمر ہے۔ نواب شاہ کے قریب بھارت نے اپنے علاقے میں 3.6ارب بیرل کے ذخائر دریافت کیے ہیں۔ پاکستان میں بدین اور خیر پور میں تیل کے بڑے ذخائر متوقع ہیں لیکن ان علاقوں پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی ہے۔ نواب شاہ سے متصل بھارتی علاقے باگیام آئل فیلڈ سے اگر 2لاکھ بیرل تیل یومیہ حاصل کیا جارہا ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کررہا ہے۔ پاکستان کے چپے چپے میں گیس اور تیل کے ذخائر چھپے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے پاکستان میں زمین کی سطح کے نیچے 200کلو میٹرز پر تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن ہماری توجہ سمندر پر مرکوز ہے جہاں سطح سمندر کے نیچے 5ہزار میٹر پر تیل اور گیس تلاش کیا جارہا ہے۔
جہاں تک سمندر سے تیل نکلنے کے بعد لہر بہر کا تعلق ہے کچھ ہونہ ہو اتنی دولت تو حاصل ہو ہی جائے گی کہ پچاس ہزار مکا ن اور پچاس لاکھ نوکریاں دینے کا موقع مل جائے گا۔ بلوچستان کے سینڈک منصوبوں کے بارے میں بھی ایسے ہی دعوے کیے جاتے تھے۔ 1961 میں یہ ذخیرہ دریافت کیا گیا تھا۔ چین کی ایک کمپنی کو دس سال کی لیز پر اس علاقے میں سونے اور تانبے کی کانکنی کی اجازت دی گئی تھی۔ 2012 میں یہ معاہدہ ختم ہوگیا لیکن ملک درکنار بلوچستان کی تقدیر بھی نہ بد ل سکی۔ آج بھی وہ علاقہ ملک کا غریب ترین علاقہ ہے کیوں کہ اس منصوبے سے حاصل ہونے والی دولت کا بہت بڑا حصہ تو ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ ریکوڈک کے ساتھ بھی یہی ہورہا ہے وہاں سے نکلنے والے سونے اور تانبے کا ایک عظیم حصہ ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔
ملک میں عظیم ذخائر کی کوئی کمی نہیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں اس دولت کا ایک بڑا حصہ نجی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔ امریکا تیل کی پیداوار دینے والے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہے لیکن اس کے باوجود امریکا ہر سال خسارے کا بجٹ دیتا ہے جب کہ اس کی تیل اور گیس کی کمپنیاں اربوں ڈالر سالانہ کما رہی ہیں۔ نائجیریا افریقا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے لیکن وہاں غربت، بد حالی اور بے روزگاری کا راج ہے۔ پاکستان میں چاہے کتنے ہی تیل، گیس اور معدنیات کے ذخائر نکل آئیں پاکستان اور اس کے عوام کے مسائل میں کوئی کمی نہیں آئے گی جب تک کہ یہاں اسلام کا معاشی نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔