کیا کپتان نے بہت جلدی رن آؤٹ ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے؟۔ زیادہ دن تو نہیں گزرے آپا زہرہ شاہد کے قتل کو۔ چلیں ایم کیو ایم کو دہشت گرد اور فاشسٹ قرار دینے کے واقعے کو تو دس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں لوگ بھول گئے ہوں گے۔ کسی نے سوٹ کیسوں کی تلاشی تو نہیں لی ہوگی جو لے کر وہ لندن گئے تھے اور بتایا تھا کہ اس میں ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے ثبوت ہیں۔ لیکن زہرہ شاہد کو تو کراچی کے پی ٹی آئی والے نہیں بھولے ہوں گے۔ یہ تو سیاست ہے، کسی بھی پارٹی کو کسی سے بھی اتحاد کرنے کا حق ہے لیکن ایم کیو ایم ایسی پارٹی ہے جس سے انتخابی اتحاد آج تک کسی نے نہیں کیا بلکہ ایم کیو ایم انتخابات الگ لڑتی ہے اور بعد میں حکمران پارٹی سے اتحاد کرتی ہے۔ حیرت انگیز اور قابل اعتراض بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے ایم کیو ایم کے جن رہنماؤں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا ہے وہ نہایت نفیس لوگ ہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے ارکان سے زیادہ نفیس لوگ کابینہ میں نہیں ہیں۔ ذرا انہیں وزیر اطلاعات بنادیں پھر دیکھیں گے نفاست۔۔۔ یہ تو یوں ہی برسبیل تذکرہ کہہ دیا لیکن جس پارٹی کے لوگوں نے نہایت ’’نفاست‘‘ (سفاکیت) کا مظاہرہ کرتے ہوئے کراچی و حیدر آباد میں 35 ہزار لوگوں کا قتل کرایا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی کراچی آمد پر شہر کو یرغمال بنایا اور علی الاعلان فائرنگ کرکے بقول جنرل پرویز عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا، ان کو وزیراعظم نفیس قرار دے رہے ہیں۔ ہاں یہ لوگ ہیں بڑے نفیس، ہر کام بڑی نفاست سے کرتے ہیں، اگر ابتدائی زمانے کا ذکر کریں تو ایک روز اپنے ہی چیئرمین عظیم احمد طارق کا نفاست کے ساتھ قتل کیا۔ آج تک پتا ہی نہیں چلا کہ قاتل کہاں گئے۔ چھوٹے موٹے تو بہت سے مارے گئے لیکن اس نعرے کو عملی جامہ پہنائے جانے کا کھیل تو اہل کراچی اور پوری دنیا کے لوگ دیکھتے رہے ہیں کہ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔ اور ایم کیو ایم مہاجروں کو حق دلا سکی یا نہیں، قائد کے غداروں کو ان کا پورا پورا حق ادا کیا۔ خالد بن ولید یا منصور چاچا، عبدالرزاق خان ہوں یا حال ہی میں قتل ہونے والے علی رضا۔ ایک طویل فہرست ہے جس میں ان کے اپنے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز شامل ہیں۔ تنظیمی صفائی الگ ہوئی ہے، کتنے سیکٹر والے، کتنے یونٹ والے اپنا اپنا ’’حق‘‘ لے کر چلے گئے۔عمران فاروق تو قائد کے قدموں میں قربان ہوئے۔
اس شہر کراچی میں ایم کیو ایم کا سب سے بڑا نشانہ تو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ رہی ہے، جمعیت کے 70 کارکنوں کو ایک رات میں زخمی اور 14 کو ایک ہی رات میں قتل کرنے والی ٹیموں کی نگرانی آج کے نفیس انسان ہی تو کررہے تھے۔ ان نفیس انسانوں میں سے ایک کو میئر بنایا ہوا ہے جس نے ٹی وی پر کہا تھا عمران خان تو کراچی آکر دیکھ۔۔۔ شاید اسی لیے حیدر آباد کی یونیورسٹی کا افتتاح حیدر آباد میں نہیں کیا، اسلام آباد ہی سے کرلیا۔ ویسے بھی وزیراعظم قوم کو صوفی ازم پڑھوانا چاہ رہے ہیں۔ چوں کہ وہ تاریخ سے ناواقف ہیں اس لیے صوفی ازم کی بات کررہے ہیں اگر صوفیوں کا زور پھر لوٹ آیا تو خان صاحب کو پیرنی کے پاس بھی پناہ مشکل
ہوجائے گی۔ ہم نے جن لوگوں کا ذکر کیا وہ تو پارٹی کے تھے یا مخالف۔۔۔ لیکن بلدیہ ٹاؤن فیکٹری والوں کا کیا قصور تھا۔ بھتا تو مالک نہیں دے رہا تھا، یہ زبیر چریا کون تھا، اس کے جو نظریات تھے کیا وہی نظریات تحریک انصاف کے ہیں۔ وزیراعظم کراچی پر قبضے کے لیے اس حد تک چلے گئے۔ ہم نے قصداً گر گئے کا لفظ استعمال نہیں کیا کہ اپنے منہ سے جس پارٹی کو دہشت گرد قرار دیتے تھے اب اس کے ساتھ ان کے نظریات مل گئے ہیں۔ اب یہ کام کون کرے گا کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ پی ٹی آئی کے نظریات ایم کیو ایم میں کس سے ملتے جلتے ہیں یا اس کے بارے میں کہا جائے کہ ان کے نظریات ایک ہیں۔ ایک فہرست ہے جس میں سے وزیراعظم یا ان کی پارٹی کے مفکرین انتخاب کرلیں کہ کس سے پی ٹی آئی کے نظریات ملتے ہیں۔ یہ جاوید لنگڑا بھی ہوسکتا ہے، حماد صدیقی بھی، صولت مرزا یا اشفاق چیف یا اجمل پہاڑی۔ اب تو ہم اپنے پی ٹی آئی والے دوستوں کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ کل کو فواد بھرم، فیاض الحسن چھوڑو (ڈبو تو پہلے ہی ان کے پاس ہیں) وغیرہ کے نام سے ان کے لیڈر پہچانے جائیں گے۔ پتا نہیں کب عمران ٹیرر ہوجائیں۔ایم کیو ایم کے نظریات کے بارے میں تو وہ خود کہہ چکے کہ یہ دہشت گرد اور فاشسٹ ہے۔ یہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ ایم کیو ایم دہشت گردی کی سیاست کررہی ہے۔ ہاں انہوں نے جیو ٹی وی کے ایک پروگرام جوابدہ میں افتخار کو بتایا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ الطاف حسین کو اور ایم کیو ایم کو الگ الگ کیا جائے۔ اب یہ بھی انہیں بتانا ہوگا کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو الگ الگ کس نے کیا۔ اور سوال یہ ہے کہ کیا یہ الگ ہوچکے ہیں۔
اصل بات نظریہ ہے۔ ایم کیو ایم کے نظریے کی تبدیلی کا کوئی ذکر نہیں آیا ہے، اس کا نظریہ اب بھی وہی ہے جو اُس کے قیام کے وقت اور عمران خان کے انٹرویوز کے وقت تھا۔ ایک اور جملہ انہوں نے کہا کہ جو پارٹی مرکز و صوبے میں حکومت میں آتی ہے ایم کیو ایم اس سے اتحاد کرلیتی ہے۔ یعنی وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اب ان سے اتحاد کرلیا ہے، اب جب کہ عمران خان کی خواہش کے مطابق ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو بظاہر الگ کردیا گیا ہے وہ اس کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے۔ جن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود لوگ الطاف کے نوکر ہیں۔ یہ سب الطاف حسین کے ملازم ہیں، یہ پارٹی لسانیت پر سیاست کررہی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی نظریہ پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ بہرحال ایسا لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم آنے والے دنوں میں سندھ کی حکومت کے حصول کے لیے اتحاد کرلیں گے۔ یہی کہا جاسکتا ہے کہ جناب کپتان صاحب رن آؤٹ ہونے کے لیے رننگ بہت ضروری ہوتی ہے اور ایم کیو ایم اپنے اتحادیوں کے گھٹنوں میں ڈرل کرتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 35 ہزار لاشیں گرانے کا سبب بنے لیکن 12 مئی، 9 اپریل، سانحہ بلدیہ ٹاؤن، سیاسی قتل، دھماکوں، بھتوں، بوری بند لاشوں کے باوجود نفیس ہیں۔ اسی نفاست کے بارے میں کہا گیا تھا کہ:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
سیاست بڑی بے رحم چیز ہے۔ لوگوں کے بے نقاب ہونے میں بسا اوقات چند منٹ لگتے ہیں اور کبھی کبھی دو عشرے۔ عمران خان کو اپنے اصل نظریات سامنے لانے میں 22 برس لگے۔