تبدیلی آئی نہیں آرہی ہے

445

 

 

ملک میں جاری سیاسی سرگرمیاں بھی کسی فلم یا ڈرامے سے کم نہیں ہیں۔ اس سیاست کے ’’سپر اسٹار‘‘ اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے کہا ہے کہ ہم چاہے جیل میں ہوں یا باہر کوئی فرق نہیں پڑتا، ہر حال میں حکومت کو گرا کر رہیں گے۔ وہ جمعرات کو گڑھی خدابخش لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی 40ویں برسی کے موقع پر جلسے سے خطاب کررہے تھے جو کسی بھی طرح ایک غمگین دن کا حال بیان کرنے کے بجائے خالصتاً سیاسی منظر پیش کر رہا تھا۔ انہوں کسی فلم کے ولن کے انداز میں کہا کہ ’’عوام تیار ہوجائیں، اب ان لوگوں کو اقتدار سے نکالنے کا وقت آگیا، ملک کی بہتری کے لیے موجودہ حکومت کا خاتمہ ضروری ہے اس لیے ان لوگوں کو گھر بھیجنے کے سوا کوئی طریقہ نہیں ہے ہم ان لوگوں کی طرح کا دھرنا نہیں دیں گے کہ شام کو واپس گھر چلے جائیں، ہم سڑکوں پر لیٹے رہیں گے اور انہیں نکال کر واپس آئیں گے‘‘۔ اسی جاری سیاسی فلم کے ’’ماسٹر اسٹار‘‘ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے جوشیلے انداز میں کہا کہ ’’18 ویں ترمیم ختم کرنے کی سازش کی گئی تو لات مار کر حکومت گرادیں گے‘‘۔ سب سے دلچسپ ڈائیلاگ تو اس فلم کے ہیرو اور ہمارے وزیراعظم عمران خان کا تھا جس نے پوری قوم کی توجہ حاصل کرلی۔ یقیناًمتعدد لوگوں نے ہنس کر، کچھ نے مسکراتے ہوئے اور بعض نے سر پیٹتے ہوئے اس بات پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہوگا۔ ممکن ہے کہ چند لوگ چہرے پر سنجیدگی لاکر وزیراعظم کے بیان پر خاموش ردعمل ظاہر کیا ہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے فرمایا کہ: ’’ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے نظریات ایک ہی ہیں، اگلا الیکشن ہم مل کر ہی لڑیں گے‘‘۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’ایم کیو ایم کے ارکان سے زیادہ نفیس لوگ پوری کابینہ میں نہیں ہیں‘‘۔
اس طرح کے بیانات کسی فلم کے ڈائیلاگ ہی ہوسکتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے ملک کی سیاست کسی ’’ڈرامے‘‘ سے کم بھی نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی اکثریت خود ہی یہ بات بلاجھجک کہا کرتی ہے کہ ’’سیاست میں سب جائز ہے‘‘۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ ڈراموں میں بھی کچھ بھی کیا جاسکتا ہے اور ہوتا بھی ہے۔ کالم کے شروع میں، میں آصف زرداری اور بلاول زرداری کو بالترتیب ’’سپر اسٹار اور ماسٹر اسٹار‘‘ ان کی سیاسی صلاحیتوں کی تعریف کے لیے لکھا ہے ۔ یقیناًوہ برا نہیں مانیں گے۔ ویسے تو آصف زرداری چائلڈ اسٹار کی حیثیت سے 60 کی دہائی کی ایک فلم میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھاچکے ہیں۔ رہی بات ہمارے وزیراعظم عمران خان کی تو انہیں اپنے زمانہ کرکٹ میں فلموں کی آفر آچکی ہے۔ لیکن انہوں نے یہ پیشکش مسترد کردی۔ اگر وہ یہ پیشکش قبول کرکے اداکاری کرلیتے تو یقیناًآج ماضی کے ایک کامیاب کرکٹر کے ساتھ اداکار بھی مانے جاتے۔ لوگ دنیا بھر میں کہتے کہ ’’پاکستان کے سابق صدر اور موجودہ وزیراعظم تو سیاستدان ہی نہیں بلکہ ماضی کے بڑے فنکار بھی ہیں‘‘۔
فنکاری پر یاد آیا کہ ’’ایک الطاف بھائی ہوا کرتے تھے کراچی کی سیاست کے بے تاج بادشاہ جنہیں نہ صرف گلوکاری کا شوق تھا بلکہ وہ بہت سے اپنے ہم پیشہ کی نقل بھی اتارا کرتے تھے‘‘۔ سنا ہے اب بھی وہ یہ شوق رکھتے ہیں۔ الطاف بھائی نظریاتی سیاست کیا کرتے تھے مگر لوگوں کو 32 سال بعد بھی ان کا نظریہ سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں نے انہیں ایم کیو ایم ہی سے فارغ کردیا۔ اب یہ نہیں معلوم کہ عمران خان نے جس نظریہ کی بات کی ہے وہ بانی ایم کیو ایم کا نظریہ ہے یا کوئی اور۔ امید ہے کہ وزیراعظم جلد ہی اس بات کی بھی وضاحت کردیں گے۔ ملک کی سیاست کے حوالے سے میں نے اپنے 28 مارچ کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’یہ بات تو طے ہے کہ آئندہ چند روز میں کراچی سمیت سندھ کا سیاسی ماحول تبدیل ہوجائے گا اور ممکن ہے کہ سندھ کی حکومت شدید مشکلات میں مبتلا ہوجائے۔ یہ بات اس لیے کہی جارہی ہے کہ 2019 کی پہلی سہہ ماہی ختم ہوتے ہی بعض بہت اہم شخصیات کو نیب گرفتار کر لے گی۔ جن شخصیات کی گرفتاری کے خدشات ہیں ان میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ، آصف زرداری کی بہن فریال تالپور اور میئر وسیم اختر بھی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی فضاء کشیدہ ہوجائے گی‘‘۔
جمعرات کو سندھ میں جو سیاسی گرما گرمی رہی وہ بھی میری تحریر کی حقیقت کو آشکار کررہی تھی۔ برسی تھی بھٹو کی لیکن پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین گفتگو سیاست پر کررہے تھے۔ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعروں کے درمیان پی پی پی کے دونوں بڑے رہنما ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ عمران خان اور نیب کا ذکر کررہے تھے جس سے ایسا تاثر ملتا رہا تھا کہ ’’کم ازکم آصف زرداری اپنی گرفتاری اور جیل جانے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں بھٹو کے مزار کے سامنے پر جوش انداز میں کہا کہ ’’ہم جیل میں ہوں یا باہر حکومت گرا کر رہیں گے‘‘۔ ایسے جملے سیاستدان اسی وقت کہتے ہیں جب انہیں اپنی گرفتاری کا یقین ہوجاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی یہ مجبوری ہے کہ وہ گرفتاری کے لیے تیار رہیں کیوں کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جاچکا ہے۔ ورنہ اس سے قبل وہ بغیر اطلاع ملک سے باہر دبئی یا امریکا چلے جایا کرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد سندھ حکومت کا باقی رہ جانا ایک معجزہ ہی ہوگا۔ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایم کیو ایم اور اپنی اتحادی دیگر جماعتوں کے تعاون سے سندھ میں تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ اگر وفاقی حکومت کو ایسا کرنے میں ناکامی کا خدشہ ہوگا تو وہ سندھ حکومت کو معزول کرنے کے دوسرے آپشن پر عمل کرے گی۔ خیال ہے کہ پیپلز پارٹی ازخود سندھ اسمبلی سے استعفے دیکر حکومت سے کنارہ کش ہوجائے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے ایم کیو ایم کے حوالے سے جس نظریے کی بات کی ہے وہ دراصل وہی نظریہ ہے جس کے تحت ’’گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو‘‘۔ کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ سندھ حکومت کی تبدیلی کی صورت میں ایم کیو ایم سے میئر شپ لیکر سندھ میں وزارت اعلیٰ انہیں دیدی جائے گی جبکہ میئر کے لیے تحریک انصاف کے کسی رہنما کو نامزد کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ میئر کے امیدواروں میں وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا، رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان اور خرم شیر زمان بھی ہیں۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کو دوبارہ فعال کرنے کے ساتھ مستحکم کرنے کا فیصلہ بھی کیا جاچکا ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ سندھ میں تبدیلی آئی نہیں بلکہ آرہی ہے۔