ضرورت برائے معاشی جادوگر

299

 

 

اب وقت آگیا ہے حکومت کے معاشی حکمت کار اپنے ہاتھ کھڑے کریں اور حکومت ’’ضرورت برائے معاشی جادوگر‘‘ کا اشتہار چھپوائے کیوں کہ وزیر اعظم عمران خان کی معاشی ٹیم کے سربراہ اسد عمر نے قومی معیشت کا جو حال کیا ہے اسے دیکھ کر ماضی کے معاشی جادوگروں کی یاد ستانے لگی ہے۔ لوگ بے ساختہ کہنے لگے ہیں کہ آج کے معصوم صورت معاشی افلاطونوں سے ماضی کے قبیح صورت جادوگر ہی اچھے تھے کہ ان کے ہاتھ کے کمالات سے عام آدمی کا یہ حال تو نہیں ہوتا تھا جو آج ہو رہا ہے۔ ایسے ہی ایک جادوگر کا نام اسحاق ڈار ہے جنہوں نے اشتہار شائع ہونے سے پہلے ہی اس دعوے کے ساتھ حکومت کو ڈالر کی قیمت نیچے لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ معاشی بحران کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں اور یہ بحران موجودہ حکومت کا پیدا کردہ نہیں۔ معاشی جادوگروں نے عوام کو وقتی طور پر مطمئن رکھنے کے لیے دور رس فیصلوں سے گریز کی راہ اپنائے رکھی۔ معاشی جادوگروں کی ساری دلچسپی لمحۂ موجود سے رہی اور یہی ان کی نوکری کا تقاضا تھا۔ انہیں اپنے دور میں عوام پر اتنا بوجھ ڈالنا تھا کہ وہ تنگ آکر ہر خوش�ۂ گندم کو جلا ڈالنے پر نہ اُتر آئیں۔ عام آدمی کی معاشی زندگی کی نبض بھی چلتی رہے اور حکومت کے دن بھی گزرتے چلے جائیں۔ ماضی میں اپنی جڑیں رکھنے والا یہ بحران بڑھتے بڑھتے اس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں مصنوعی اقدامات اور افلاطونیت سے زیادہ برق رفتار فیصلوں کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم اس صلاحیت سے عاری نظر آتی ہے۔ اس بحران کو ایک حد کے اندر رکھنے میں حکومت کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ حالات جس قدر برق رفتاری کا تقاضا کرتے تھے وزیر خزانہ اسد عمر نے اتنی ہی سست رفتاری کا مظاہرہ کیا۔ خود جہانگیر ترین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر نے بہت سے مسائل کو جنم دیا۔
اسد عمر کا مخمصہ روز اول ہی سے یہ رہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں یا نہ جائیں اور اب وہ اس مخمصے تو باہر نکل آئے ہیں مگر یہی مخمصہ مختلف انداز سے جاری ہے۔ اس تذبذب کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت معاشی میدان میں ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ کی عملی تصویر بن کر رہ گئی۔ عام آدمی کی پہلے ہی سے جھکی ہوئی کمر اب زمین سے لگ کر رہ گئی اور ابھی مزید زلزلوں اور آفٹر شاکس کے آثار ہیں۔ جس طرح فیصلوں میں حد سے زیادہ عجلت اچھی نہیں ہوتی اسی طرح فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر بھی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ قومی معیشت کو اس وقت جادوگر کی ہی ضرورت تھی تاکہ حکومت کے پیر معاشی میدان میں پوری طرح جم جاتے مگر افلاطونی طرز نے معیشت کے قدم جمنے ہی نہیں دیے اور ساتھ ماہ گزرنے کے باجود معیشت کا بحران حکومت کے لیے سب سے گہری کھائی اور سب سے بڑا چیلنج بن کر رہ گیا ہے۔ سات ماہ میں برس ہا برس کی خرابیوں اور ایڈہاک ازم کی قباحتوں سے جان چھڑانا ممکن نہ تھا مگر سات ماہ میں بحران کو سمجھ کر درست سمت کا تعین کیا جا سکتا تھا۔ ایسے میں جب بین الاقوامی ماحول ہمارے قطعی موافق نہیں اور تمام عالمی مالیاتی ادارے باوسیلہ ملک ایک ایسی طاقت کے زیر اثر ہیں جو ہم سے نہ صرف یہ کہ خوش نہیں بلکہ برملا اپنی ناخوشی کا اظہار کرتی چلی آرہی ہے۔ ایسے میں چوکس وبیدار معاشی ماہرین اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت تھی۔ عمران خان نے اپنے معاشی ’’وسیم اکرم‘‘ کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ ان کے وژن کا ساتھ دینے سے قاصر معلوم ہوتی ہے۔ بصیرت کا تقاضا یہ بھی ہوتا کہ اگر کہیں غلطی کا احساس ہوجائے تو اس پر اصرار کرنے کے بجائے اصلاح کی صورت اور راہ تلاش کی جائے۔ عمران خان سے زیادہ اسد عمر کو ان کے بھائی محمد زبیر جانتے ہیں جو آئے روز دبے لفظوں میں چھوٹے بھیا کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں۔ اسد عمر کی صلاحیت، تجربے سے انکار نہیں ان کی بھاری بھرکم تنخواہ چھوڑ کر ملکی خدمت کے جذبے کو بھی سراہنا چاہیے مگر یہاں معاملہ معیشت کے مریض جاں بہ لب کا ہے۔ اس مریض کے پاس مستعار سانسیں ہیں۔ آمادہ فساد زمانے والے اس ملک پر ’’ان گورن ایبل‘‘ یعنی ناقابل حکمرانی کا ٹھپا لگانے کو بے چین ہیں۔ مدتوں ان قوتوں نے کرپشن کی سلوپوائزننگ سے نظریں چرائے رکھیں کہ ایک مقام پر جاکر ملک دیوالیہ پن کی منزل سے ہمکنار ہوگا اور ایک ایٹمی طاقت کے اس حال تک پہنچتے ہی پوری دنیا میں خطرے کا الارم بج اُٹھے گا۔
ملک میں کرپشن ہوتی رہی اور یہی پیسہ باہر جاکر ان قوتوں کی ناک کے نیچے وسیع وعریض محلات اور دولت کے میناروں کی شکل میں ڈھلتا رہا جو ان کی خاموش حوصلہ افزائی کا ہی ایک انداز تھا۔ آج اسد عمر بھی کہہ رہے ہیں کہ ملک کے سامنے صرف دو راستے ہیں آئی ایم ایف یا دیوالیہ پن کا سامنا۔ لامحالہ ملک کو آئی ایم ایف کی طرف جانا پڑ رہا ہے۔ یوں ملک میں ایک ایمرجنسی کی کیفیت ہے اور ایسے میں مریض معیشت کو مسیحا نفس سے زیادہ کسی جاد وگر ہی کی ضرورت ہے جو مریض کی ڈوبتی سانسیں بحال توکردے بعد میں ان سانسوں کو طوالت دینے کے طویل المیعاد طریقے سوچے اور اپنائے جاتے رہیں گے۔