پاکستان میں اسلام فوبیا زیادہ ہے

399

 

 

یہ خبر بڑی اچھی ہے کہ اقوام متحدہ اسلام فوبیا کے خلاف پاک ترک مذمتی قرار داد منظور ہوگئی ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اسلام سے خوف کی بنیاد پر مسلمانوں پر حملوں کی مذمت کی جاتی ہے اور عالمی برادری اس رجحان کا سدباب کرے۔ اس قرار داد میں نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں اور 50 مسلمانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ 50 مسلمان صرف نیوزی لینڈ میں نہیں ساری دنیا میں اور دنیا بھر کے اداروں میں اسلام کے حوالے سے کئی دروازے کھول گئے ہیں۔ ان کی شہادت سے اسلام فوبیا کو بھی جھٹکا لگا ہے۔ لیکن اب مغرب کے ذہنی غلاموں نے اسلامی ملکوں میں خود جو اسلام فوبیا اختیار کرلیا ہے اور پھیلا رکھا ہے اس سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ ہم پاکستانی ہیں تو ہمیں پاکستان کے نظریے پر عمل کرنا اتنا مشکل کیوں لگتا ہے۔ اگر تاریخ کو نہ کھنگالیں تو گھوٹکی کی دو ہندو بہنوں کے قبول اسلام کو سامنے رکھیں تو پتا چلے گا کہ اسلام فوبیا تو سب سے زیادہ پاکستانی حکمرانوں میں ہے۔ ایسا لگا کہ گھوٹکی کی دو بہنوں نے ایٹم بم چرالیا ہے۔ القاعدہ یا داعش بنالی ہے۔ نیوزی لینڈ کے 50 نمازیوں کو ان دو بہنوں ہی نے قتل کیا ہے۔ میڈیا کے گرو گھنٹال پاگل ہوگئے تھے، بہت سے اخبارات تو یہ ہی لکھ رہے تھے کہ زبردستی مذہب تبدیل کردیا گیا، انگریزی اخبار تو نکلتا ہی حکمران طبقے کے لیے ہے، لہٰذا وہ تو اسی طرح لکھ رہا تھا کہ وزیر اعظم نے دو ہندو لڑکیوں کا زبردستی مذہب تبدیل کرانے کا نوٹس لے لیا۔ اتنا ہنگامہ ہوا کہ مذہب مرضی سے تسلیم کرنا گناہ قرار پایا ہے، پہلے انہیں سرکاری تحویل میں لیا گیا، پھر کمیٹی در کمیٹی تحقیقات در تحقیقات ہورہی ہیں۔ ایسے میں حکومت سندھ پھر کوئی شرارت کر گزرے گی۔ جی ڈی اے کے رکن سندھ اسمبلی نند کمار کلانی نے مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق بل دوبارہ اسمبلی میں پیش کردیا ہے جس میں تجویز کیا گیا ہے کہ اگر کوئی ہندو لڑکی مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کرے گی تو اسے 21 دن کے لیے شیلٹر ہوم بھیجا جائے گا تا کہ وہ مذہب کی تبدیلی سے متعلق سوچ سکے۔ اس بل میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ ’’ہندو لڑکیوں کا مذہب جبراً تبدیل کرنے کے خلاف بل‘‘ ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی ہونے پر ’’بچوں کی شادی کی روک تھام کا ایکٹ لاگو کیا جائے گا‘‘۔
یہ سارے اقدامات کس لیے ہورہے ہیں کہ کوئی اسلام قبول نہ کرلے، دو ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول تو کیا ہے لیکن یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ مذہب کی یہ تبدیلی کوئی علمی اور روحانی واقعہ نہیں ہے بلکہ دو لڑکیوں نے اپنی پسند کی شادی کرنے کے لیے اسلام قبول کیا ہے۔ مذہبی اور قانونی طور پر وہ اس کا بھی اختیار رکھتی ہیں لیکن انتہا پسند ہندوؤں اور انتہا پسند نام نہاد مسلمانوں نے اسلام فوبیا کا شکار ہو کر ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے۔ سندھ اسمبلی میں مجوزہ بل کی اس شق پر غور کیا جائے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ہندو لڑکی اسلام قبول کرے گی تو اسے 21 روز کے لیے شیلٹر ہوم بھیجا جائے گا۔ جہاں اسے سوچنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس شیلٹر ہوم کو کون چلائے گا؟۔ کم از کم سندھ کی حد تک تو یقین ہے کہ ہندو انتہا پسندوں سے متاثرہ نام کا مسلمان شخص ہی اس کا نگراں ہوگا۔ اس شیلٹر ہوم میں قبول اسلام کرنے والی لڑکیوں کو سوچنے کا موقع نہیں دیا جائے گا بلکہ ہر طرح کا دباؤ ڈالا جائے گا۔ جو لوگ پسند کی شادی کرنے پر مسلمان لڑکی و لڑکے کو قتل کر ڈالتے ہیں وہ ہندو لڑکی کو بھلا کیوں چھوڑ دیں گے۔ یہ فیصلہ تو بالغ لڑکی سوچ سمجھ کر ہی کرے گی کہ اسے اسلام کب اور کیسے قبول کرنا ہے۔ نابالغ بچوں کی شادی بھی الگ بحث ہے۔ جو لوگ قرآن سے شادی کرتے ہیں اور گھر میں وراثت کا مال ہڑپ کرنا چاہتے ہیں وہ 40 اور 60 سال کے آدمی سے دس پندرہ سال کی لڑکیوں کی شادیاں کرواتے ہیں۔ اس وقت کوئی قانون حرکت میں آتا ہے نہ کسی کو فکر ہوتی ہے۔ میڈیا گونگا ہوتا ہے، ساری فکر سارا اسلام فوبیا کسی کے اسلام قبول کرنے پر پیدا ہوتا ہے۔
یہ تو اسلام قبول کرنے کا معاملہ ہے لیکن اسلام کے طے شدہ احکامات کے حوالے سے اب تک جاہلانہ طرز فکر اور عمل اختیار کیا جارہا ہے۔ سود کے حق میں نواز شریف عدالت گئے تھے لیکن ان کے بعد بے نظیر بھی حکومت میں آئیں اور پھر نواز شریف، زرداری اور اب عمران خان حکومت میں ہیں۔ اس فیصلے کو کسی نے واپس نہیں لیا۔ اسلام فوبیا کے شکار سارے حکمران سود کے حق میں ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ میں مصروف ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ معیشت تنگ کیوں ہے، جانتے ہیں کہ اللہ نے اس پر بھی قرآن میں وعید دی ہے کہ اگر تم ہمارے ذکر سے اعراض برتو گے تو ہم تمہاری معیشت تنگ کردیں گے اور قیامت میں اندھا اٹھائیں گے۔ سو، معیشت تنگ ہوچکی اور قیامت تو جب آئے گی آئے گی، یہ تو ابھی سے اندھے ہوگئے ہیں، آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلے جارہے ہیں اور شعائر اسلام کے خلاف بکواس بند ہی نہیں ہوتی۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب اپنے شعبے کے چودھری تو بن نہ سکے اسلامی نظریاتی کونسل پر تنقید کرنے کے چکر میں غیر ضروری بات کہہ گئے۔ اس کا تعین بھی نہیں ہوسکا کہ وہ ضروری بات کب کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ
اسلامی نظریاتی کونسل کا فتویٰ دیکھا ہے کہ ہتھکڑی لگانا بھی غیر شرعی ہے۔ عجیب سی بات ہے جب کرپٹ پر ہاتھ ڈالتے ہیں تو ہمیں اسلام یاد آجاتا ہے۔ یہ بات انہوں نے کونسل کی جانب سے اس اعتراض کے جواب میں کہی ہے کہ محض الزام کی بنیاد پر ہتھکڑی لگانا اور اس طرح بدنام کرنا غیر شرعی ہے۔ اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نیب اور دیگر ادارے لوگوں کو پکڑتے ہیں، انہیں کرپٹ افسر قرار دیتے ہیں، جب کہیں ثابت نہیں ہوپاتا خاموشی سے رہائی ہوجاتی ہے۔ گرفتار ہونے والا غلط بدنام ہوجاتا ہے، اسے غیر شرعی کہنا درست ہے لیکن فواد چودھری کے نزدیک الزام ہی سب کچھ ہے۔ خیر انہیں بھی جلد ہی اسلام یاد آنے والا ہے۔ چودھری صاحب کے اسلام فوبیا سے زیادہ ان اخبار والوں کا اسلام فوبیا ہے جنہوں نے نظریاتی کونسل کے فیصلے کے بعد علمائے کرام کے بیان کے ساتھ چودھری صاحب کا تبصرہ چھاپا ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اخبار نویس نے زبردستی چودھری فواد سے یہ کہلوایا ہے۔ چوں کہ ان کو کچھ نہ کچھ کہنے کی عادت ہے اس لیے کچھ بھی کہہ دیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ راؤ انوار کو ہتھکڑی نہیں لگے گی اور یونیورسٹی پروفیسروں کو لگے۔ ڈاڑھی والا آدمی ہو تو اسلامی انتہا پسند دہشت گرد، کسی وڈیرے کا بیٹا یا رکن قومی اسمبلی یا صوبائی وزیر ہو تو معزز رکن اسمبلی قرار پائے۔ خواہ فائرنگ کرے یا گاڑی چڑھا کر پولیس والے کو قتل کردے، اگر کوئی ڈساڑھی والا اپنی بیوی کو مارے تو جنونی مولوی قرار پائے اور مصطفی کھر کا بیٹا اپنی بیوی پر تیزاب پھینکے تو میڈیا خاموش۔ یہ اسلام فوبیا ہر شعبے میں ہے۔ بظاہر معقول نظر آنے والے عوام میں بھی ہے۔ چوروں اور ڈاکوؤں کو احترام سے پکارا جاتا ہے اور مولوی کو بدتہذیبی سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہی اسلام فوبیا ہے جو حکمران طبقے اور میڈیا نے پورے ملک پر یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کر رکھا ہے اسے بھی ختم ہونا چاہیے۔