پرانی یادیں ماڈل کالونی اورملیر، سعود آبادکی

2238

ایک زمانہ تھا کہ کراچی کی ماڈل کالونی میں رہنے والے لوگوں کا شمار بڑے مرفّہ الحال لوگوں میں تھا۔ شمار کیا معنی؟ وہاں رہتے ہی مرفّہ الحال لوگ تھے۔ فلمی اداکاروں میں محمد علی، زیبا، ابراہیم نفیس اور ادا کار کمال۔ جب کہ فلم ساز فضل احمد کریم فضلی بھی یہیں رہتے تھے۔
ماڈل کالونی سے مشرق کی جانب چلتے چلتے اگر ریل کی پٹری پار کر جائیں تو ساتھ ہی سعودآباد کی مشہور بستی ہے۔ ملیرکالونی سے متصل۔ یہ ملیر کالونی وہی کالونی ہے جو اپنی ’آبادی‘ کے وقت ’ملیرمہاجرکالونی‘ کہی جاتی تھی۔ یہ بستی اُن لوگوں نے بسائی تھی جو واقعی ہجرت کرکے آئے تھے۔ جنہوں نے مہاجرت کی صعوبتیں سچ مچ دیکھی اور بالفعل برداشت کی تھیں۔ جب یہ لٹے پٹے، دربدر اور درماندہ لوگ یہاں آکر خوب اچھی طرح آباد ہوگئے۔ سحر سے تابہ سحر سخت محنتوں کے بعد۔۔۔ اُن کا روزگار اور کاروبار جم گیا۔ اُلفت، محبت، اخوت اور مواخات کے تعلقات اور رشتے دِلوں میں رچ بس گئے، تو اُن بزرگوں نے اس علاقے میں اپنے آپ کو ’مقامی‘ قرار دیا اور اِس بستی کے نام سے ’مہاجر‘ منہا کردیا۔ اب یہ بستی صرف ’ملیر کالونی‘ کہلانے لگی۔
مگر اُن بزرگوں کو کیا معلوم تھا کہ ایک روز ایک چتکبرا، پچ رنگا، دھبے دار اور بوقلموں بانسری نواز (Pied Piper) آئے گا اور اُن کے بچوں کو اپنی بانسری کی دُھن پر نچاتا ہوا، اُن کے پُرسکون گھروں سے بہکا کرلے جائے گا۔ اُنہیں ایک بار پھر ’مہاجر‘ بنا جائے گا۔ پر اب یہ مہاجرت، وطن کے حصول کے لیے کی جانے والی ہجرت نہیں ہوگی۔ ’بے وطنی‘ اور ’’غریب الوطنی‘‘ کی خاک چھانتے پھرنے والی ’مہجوریت‘ ہوگی۔ خود تو خواہ کوئی برطانیہ کی’وطنیت‘ (Nationality) ہی کیوں نہ حاصل کربیٹھا ہو۔ مگر جن ’فرزندانِ وطن‘ کو اُس نے دُنیا بھر میں اِس طرح کا ’مہاجر‘ بنا دیاکہ۔۔۔ تمام عمر چلیں اور دیار کو ترسیں۔۔۔ اب وہی لڑکے نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکا، جنوبی افریقا، سری لنکا، سنگاپور، ملائیشیا اور آسٹریلیا میں مارے مارے پھر نے لگے اور مدتوں وطن کے قرار کو ترستے رہے۔ اپنے دیار کو ترستے رہے۔ اِس سادہ صورتِ حال کو سمجھ لینے کے لیے کچھ بہت زیادہ دانش اوربہت گہرے دانشورانہ تجزیے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ توسامنے کی بات ہے۔ نفرتوں کی آگ کے اس الاؤ میں جھونکے جانے والے یہ بچے وہ بچے تھے جن کا اِس جبراً تھوپی ہوئی ’مہاجرت‘ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ معراجؔ فیض آبادی کے الفاظ میں، ان بچوں کا یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ ’ایک مدّت سے اِسی شہر میں آباد ہیں ہم‘:
کاہے کا ترکِ وطن، کاہے کی ہجرت بابا
اِسی دھرتی کی، اِسی دیس کی اولاد ہیں ہم
ہاں تو ۔۔۔ آبادی تو ماڈل کالونی کی خوش حال تھی، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ’دانشور‘ سارے سعودآباد میں رہتے تھے۔ وہ جن کے ذہن علم کی زرخیزیوں سے لبالب بھرے ہوئے اور پیٹ خالی تھے۔ آج اُن کی گنتی گنوانے بیٹھیں تو شاید کالم پورا ہوجائے، گنتی نہ پوری ہو۔ خیر چند نام تو گنائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً: مولانا سید ابوالخیر مودودی (یہ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کے برادرِ بزرگ تھے)، مولانا ابوالجلال ندوی صدیقی، مولانا صلاح الدین ندوی، حکیم محمد یامین صدیقی، مولانا فضل الرحمٰن جعفری، مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری، شاہ فرید الحق، فائق بدایونی، شائق بدایونی، قمرجمیل، نیرنگ نیازی، شہیر نیازی، اقبال فریدی، آرزو لکھنوی، شوق صدیقی، میکش گڈھ میکٹشیری، ماہ نامہ ’الشجاع‘ کے ایڈیٹر سلمان الارشد اور بہت سے دوسرے کہ جن کا نام بھی اِس وقت ہمیں بھول رہا ہے۔ کیا کریں؟ کہ اور تو اور اب۔۔۔ نسیان ہمیں لُوٹ رہا ہے یارو!
جس وقت کا یہ ذکر ہے اُس وقت گلیاں چوڑی تھیں۔ مقبوضہ سرکاری زمین پر گھرگھر بنی ہوئی گیلریاں ابھی نہیں بنی تھیں۔ اپنی حد سے تجاوُز کرنے کی پیٹ بھری ترکیبیں بھی کسی کو نہیں سوجھی تھیں۔ آنے جانے کا رستہ چھوڑ کر بھی گھروں کے آگے چارپائیاں بچھ جاتی تھیں۔ بڑی دلچسپ علمی وادبی محفلیں بلکہ مذاکرے، مناظرے حتیٰ کہ مشاعرے تک انھی چارپائیوں پر (نیم دراز ہوہو کر یا مارے جوش وخروش کے اُکڑوں بیٹھ بیٹھ کر) برپا ہوجاتے۔ کھانا تیار ہو جاتا تو گھروں سے آوازیں پڑتیں۔ لوگ گھر جاتے۔ کچے صحن میں پکے امرودوں والے پیڑکے نیچے بیٹھ کر کوئلے کی انگیٹھی پر دہکتے ہوئے اُلٹے تَوے سے گرما گرم اُترتی ہوئی روٹیوں کو ارہر کی دال اور لہسن مرچے کی چٹپٹی چٹنی کے ساتھ نوش جان کرکے ’سُو سُو‘ کرتے واپس آجاتے اور پھر سے بحث میں جُٹ جاتے۔
اُس وقت محرومیاں بہت تھیں۔ مگر ’احساسِ محرومی‘ اتنا نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مسائل بھی اتنے نہ تھے۔ پریشانیاں بھی اتنی نہ تھیں۔ اُلجھنیں بھی اتنی نہ تھیں۔ ذہنی کھچاؤ اور جذباتی دباؤ اتنا نہ تھا۔ لاتعلقیاں اتنی نہ تھیں۔ بیماریاں اتنی نہ تھیں۔ حتیٰ کہ اموات بھی اتنی نہ تھیں۔
یہ سارا تحفہ تو ترقی، خوش حالی، چونچالی، مالامالی غرض کہ ’مرفّہ الحالی‘ آنے کے کے ساتھ ساتھ آیا ہے۔ اب کھلے اور ہوادار آنگن ختم ہوچکے ہیں۔ قلب و ذہن میں کشادگی کیسے پیدا ہو؟ ہمارے شہر کے بچوں نے تاروں بھرا آسمان شاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ نظرآئے گی کیسے اُن کو منزل آسمانوں میں؟ عقابی روح کیوں کر بیدار ہوگی؟ گھرکے آنگن میں لگے پیڑ کی چھاؤں تلے بیٹھنے یا چارپائی بچھا کر لیٹنے اور چہچہاتے پرندوں کے نغمے سننے کا اتفاق انہیں بھلا کب ہوا ہوگا۔ اُنہیں اِن مصرعوں کے لطف کا کیا اندازہ کہ۔۔۔ ’گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا‘ ۔۔۔ ’اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا‘ ۔۔۔ اب تو تقریباً سب ہی گھروں کا نقشہ یہ ہوگیا ہے کہ: ’آنگن چھوٹا، تنگ جھروکا، درنیچا دیوار بلند‘۔ دِلوں میں تنگی اور ضیقِ قلب کا عارضہ بے سبب تو نہیں۔ لوگوں میں تفاوت بہت بڑھ گیا ہے۔ ’نہ چاند میں ہے وہ چہرہ نہ سروْ میں ہے وہ جسم‘۔ اگر کہیں کسی کے گھر میں کوئی چھوٹا سا آنگن بچ بھی رہا ہے تو اُس غریب کا حال بھی بس کچھ یوں ہوا ہے کہ:
چاند تکنے کی تمنا لے کے واپس آگیا
دوسروں کے گھر کو اپنی چھت سے اوپر دیکھ کر
ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ ہم سب روکھی سوکھی کھاکر ربّ کا شکر ادا کرتے۔۔۔ ’انھی میں جیتے انھی بستیوں میں مر رہتے‘۔۔۔ مگر زمانہ بھلا کب یکساں رہا ہے؟ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ سو بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ کچھ اچھی آگئی ہیں۔ مگر اکثر بُری۔
یہ کوئی بہت پُرانی بات نہیں ہے۔ بس اتنی پرانی ہے کہ ابھی اِسلام آباد کی بنیاد نہیں پڑی تھی اور ابھی کراچی ہی دارالحکومت تھا۔ دارالحکومت تو آج سے کوئی ستّاون، اٹھاون برس پہلے کراچی سے منتقل ہوا ہے۔ وہ بھی سیدھے یہاں نہیں چلا آیا۔ پہلے پہل راولپنڈی پہنچا اور کچھ دنوں تک وہیں سُستاتا رہا۔ پھر تھوڑا تھوڑا کرکے، آہستہ آہستہ اس شہر اقتدار تک پہنچتا رہا۔ اُسی زمانے کا ذکر ہے۔ ابھی کراچی کی تمام بستیوں میں بجلی بھی نہیں پہنچی تھی۔ ہماری بستی ملیرتوسیعی کالونی تو بالکل نئی نئی بسی تھی۔ یہ ’ملیر کالونی‘ کی تو سیع (Extension) تھی۔ بستی بسنے کے برسوں بعد بستی کی بڑی سڑکوں پر بجلی کے کھمبے گاڑ دیے گئے۔ پھر کھمبے گاڑنے والے اُنہیں گاڑ کر برسوں تک بھولے رہے۔ آخر ہماری بستی کے ایک شاعر نے بطورِ شکوہ ایک بڑی دلچسپ نظم کہی۔ اُس نظم کا بس ٹیپ کا مصرع اب یاد رہ گیا ہے:
’’کھمبے کھڑے ہوئے ہیں پر روشنی نہیں ہے!‘‘
بجلی کی روشنی تو نہیں تھی۔ مگر اُس دورکی روشن یادیں اب تک ہمارے دِل میں جگمگاتی ہیں۔ بڑا سہانا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں تقریباً ہرگھر میں آنگن ہوتا تھا۔ اب تو آنگن کا تصور ہی نہیں رہا۔ جہاں بھی شہری تمدن آتا ہے، Urbanization ہوتی ہے، وہاں سے زندگی کا لطف اورلطف کے فطری لوازمات بھی رُخصت ہوجاتے ہیں۔ وہ جو ہم نے اوپر ایک مصرع لکھا ہے تو اس کا قصہ یہ ہے کہ سن اسّی کی دہائی میں ہمارے ایک شاعر رحمن کیانی کو، جن کا بچپن لکھنؤ میں اور جوانی دہلی میں گزری تھی، بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر اُنہوں نے بتایا:
دِلّی میں بھی اب تو گھروں کا دل والو یہ نقشہ ہے
آنگن چھوٹا، تنگ جھروکا، در نیچا، دیوار بلند
تو یہی حال پچھلے دنوں ہمارا بھی ہوا۔ ہاں تو ۔۔۔ اپنے شہر میں ہم دِن کی گرمی میں کھجور کے پتوں سے بُنے ہوئے پنکھے جھلتے جھلتے اور اپنے صحن میں لگے ہوئے امرود کے پیڑ کے نیچے چارپائی بچھاکر کوئی کتاب پڑھتے پڑھتے سوجاتے۔ دور کہیں کسی کے گھر میں لگے ہوئے آم کے پیڑ پر سے ’کُوؤ۔۔۔ کُوؤ‘ کرکے کُوکتی ہوئی کوئل کی آواز بھی لوری کا کام کرتی۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ ہمارے بچپن میں ہمارے شہر (کراچی) میں جابجا درخت لگے ہوئے تھے۔ ان درختوں کی وجہ سے اُس زمانے کی دوپہریں بڑی سہانی اور بہت پُرسکون ہوتی تھیں۔ بجلی سے چلنے والی مشینوں کی گھر گھر میں ’گَھر گَھر‘ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ہمیں تو بجلی کے پنکھے بھی میسر نہ تھے۔ ائر کولر، ائرکنڈیشنر اور فرج یا ریفریجریٹر کا تو اُس بستی کے بچوں نے کبھی نام بھی نہیں سُنا تھا۔
سرِ شام کچے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کردیا جاتا۔ چھڑکاؤ ہوتے ہی کچی مٹی سے بڑی خوشگوار سوندھی سوندھی خوشبو اُمڈ پڑتی۔ صحن میں بان سے بُنی ہوئی چارپائیاں بچھادی جاتیں۔ چارپائیوں پر بستر لگا دیے جاتے اور بستروں پر اُجلی اُجلی چادریں بچھادی جاتیں۔ راتوں کو ہم لالٹین کی روشنی میں پڑھاکرتے تھے۔ اسی میں سارا ’ہوم ورک‘ مکمل کرتے۔ سونے کا وقت آتا تو لالٹین کی لَو دھیمی کرکے بستر کے سرہانے رکھ لی جاتی۔ رات گئے کوئی ضرورت پڑجاتی تو لَو اونچی کرکے روشنی بڑھا لی جاتی۔ بستر پر لیٹ کر آسمان کی طرف نظر اُٹھاتے تو پورا آسمان جگمگ جگمگ کرتے تاروں سے بھرا ہوا نظرآتا۔ آج کے بچوں نے توخیر دیکھا ہی نہیں، مگر اب ہماری آنکھیں بھی کراچی میں ’تاروں بھرا آسمان‘ دیکھنے کو ترس گئی ہیں۔ پولوشن جو اتنا بڑھ گیا ہے۔ ساری فضا ہی کثیف ہوکر رہ گئی ہے۔
ہمارے صحن میں بیلے کے پودے لگے ہوئے تھے۔ اُن کے پھولوں کی بھینی بھینی خُوشبو سے آنگن میں ایک عجیب سحر انگیز اور افسانوی قسم کا سماں بندھ جاتا۔ ابھی ہمارے اڑوس پڑوس میں اونچے اونچے مکانوں اور خاص طور پر اِن کابک نُما فلیٹوں کا تو کہیں وجود ہی نہیں تھا۔ ہمارا آنگن ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہواؤں اور نیند کے مدھ بھرے جھونکوں سے بھر جاتا۔ اوپر کھلے آسمان پر جگمگاتے تارے دیکھتے دیکھتے اور انھی تاروں کو گنتے گنتے ہم گہری نیند کی آغوش میں پہنچ جاتے۔ چاندنی راتوں میں تو ہمارے گھرکے کچے صحن میں گویا چاندی کا فرش سا بچھ جاتا تھا۔ صبح امرود کے درخت پر چہچہاتی ہوئی چڑیاں ہمیں منہ اندھیرے جگا دیتیں۔ اے صاحبو! ہمیں تو اسلام آباد میں بھی وہی کراچی یاد آتا ہے۔
جو لوگ پیدائش اور توطن پر لڑتے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ دُنیا بھر میں لوگ کہاں کہاں پیدا ہوئے۔ کہاں کہاں پلے بڑھے۔ کہاں جوان ہوئے اور کہاں موت آئی؟ تاریخ کے سفر کا یہ سلسلہ تو چلتا ہی رہے گا۔ اکثر لوگوں کو کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی وجہ سے، کہیں نہ کہیں اور کہیں سے کہیں نقل مکانی کرنی ہی پڑتی ہے۔ جن لوگوں نے آفات وحوادث کے تھپیڑے کھائے۔ جنہوں نے ناکامیوں اور نامرادیوں کے دِن دیکھے، وہ حقیر لوگ نہ تھے۔۔۔ اُن کی بابت سلیم احمد کی نصیحت ہے:
نامُرادانِ محبت کو حقارت سے نہ دیکھ
یہ بڑے لوگ ہیں‘ جینے کا ہنر جانتے ہیں
سُبْحَانَ الَّذِی فِی الْاَرْضِ مَوْ طِءُہٗ۔ پاک ہے وہ ذات کہ جس کی سیرگاہ زمین بنے۔ صرف وہی ایک ذات ہے جو اپنے مقام پر ابد سے قائم و قیّوم ہے اور ازل تک یہ حق صرف اور صرف اُسی کو حاصل ہے۔ ورنہ یہاں تو بقول افتخار عارف:
پیمبروں سے زمینیں وفا نہیں کرتیں
ہم ایسے کون خدا تھے کہ اپنے گھر رہتے