اب جب کہ ہندوستان کے عام انتخابات میں گنے چنے دن رہ گئے ہیں یہ انکشاف ہوا ہے کہ رائے دہندوں کی فہرستوں سے بارہ کروڑ ووٹروں کے نام غائب ہو گئے ہیں۔ ان میں تین کروڑ مسلمان ووٹر ہیں اور چار کروڑ دلت ووٹر ہیں۔ بلا شبہ اتنی بڑی تعداد میں رائے دہندوں کی فہرستوں سے ووٹروں کے نام ایک منظم سازش کے تحت غائب ہوئے ہیں جسے قتل عام قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ رائے دہندوں کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کرنا دراصل ان کی جمہوری زندگی سے محروم کرنا ہے جو ایک قتل سے کم نہیں ہے۔
غائب شدہ ووٹروں کی مہم ذمے داروں کا کہنا ہے کہ رائے دہندگان کی سرکاری فہرستوں سے یہ پتا چلا کہ گیارہ فی صد گھرانے صرف ایک ووٹر والے ہیں۔ ان اعدادو شمار کا جب مردم شماری کے اعدادو شمار سے موازنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ مردم شماری میں واحد ووٹر والے گھرانوں کی تعداد صرف ساڑھے چار فی صد ہے۔ اعداد وشمار کے اس تضاد کے بعد مہم چلانے والوں نے جب واحد ووٹرووں والے گھرانوں کی جانچ پڑتال کی تو ان کی تعداد اٹھارہ فی صد نکلی جو حیرت انگیز ہے۔ مہم کے سافٹ ویر ماہر خالد سیف اللہ کا کہنا ہے کہ مہم نے جب پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے ایک سو سے زیادہ حلقوں کا جائزہ لیا ہے تو انکشاف ہوا کہ تین کروڑ مسلمانوں اور چار کروڑ دلتوں کے نام انتخابات کی فہرستوں سے غائب ہیں اور وہ اگلے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔ ان میں وہ ووٹر بھی شامل ہیں جنہوں نے 2014 کے عام انتخابات میں ووٹ ڈالے تھے لیکن نئی فہرستوں میں ان کے نام غائب ہیں۔ 1980 سے لے کر 2014 کے درمیان، ہندوستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی حیرت انگیز طور پر نصف رہ گئی ہے۔ جب کہ اس دوران مسلم آبادی گیارہ فی صدی سے بڑھ کر چودہ فی صدی تک پہنچ گئی۔ لوک سبھا میں مسلم اراکین کی تعداد نو سے صرف تین رہ گئی۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلم آبادی میں اضافے کے باوجود پارلیمنٹ میں اس کی نمائندگی اتنی کم ہوگئی۔ اس بارے میں دوش تمام سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے۔ کانگریس نے اس الزام سے بچنے کے لیے جو بھارتیا جنتا پارٹی ہمیشہ اس پر لگاتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی حامی جماعت ہے، بہت کم مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے۔ 2009 میں بھارتیا جنتا پارٹی نے لوک سبھا کے انتخابات میں 428 امیدواروں میں صرف سات امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔
اتر پردیش میں جہاں مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے 2014 کے عام انتخابات میں اترپردیش سے لوک سبھا میں 80 اراکین میں صرف ایک مسلمان منتخب ہوا تھا۔ یہ سخت اچھنبے کی بات تھی اور اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران میں کسی نے اتر پردیش سے مسلمانوں کی نمائندگی یوں مٹ جانے کے اسباب پر غور نہیں کیا، نہ مسلم رہنماؤں نے اور نہ ملک کے سنجیدہ عناصر نے بحث کی۔ نتیجہ یہ رہا کہ اتر پردیش اسمبلی کے 2017 کے انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندگی یکسر ختم ہوگئی اور مسلمانوں کی آواز اٹھانے والا کوئی نہ رہا۔
خود نریندر مودی کی ریاست گجرات میں جہاں مسلمانوں کی آبادی ساڑھے نو فی صد ہے۔ پچھلے چالیس سال سے کوئی مسلمان لوک سبھا کا رکن منتخب نہیں ہو سکا ہے۔ آخری بار گجرات سے دو مسلمان اراکین 1977 میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے تھے ایک احمد پٹیل تھے اور دوسرے احسان جعفری تھے جنہیں 2002 کے گلبرگ گجرات میں خونریز مسلم کْش فسادات میں بہیمانہ طور پر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے جب بلوائیوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا تو انہوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو مدد کے لیے ٹیلی فون کیا تھا لیکن مودی نے ٹیلیفون سننے سے انکار کر دیا۔ بلوائیوں نے احسان جعفری کو ان کی اہلیہ زکیہ جعفری اور ان سیکڑوں مسلمانوں کے سامنے جنہوں نے احسان جعفری کے مکان میں پناہ لی تھی، ہلاک کر کے ان کی لاش کے ٹکرے ٹکرے کردیے اور نذر آتش کر دیا۔ احسان جعفری کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ احمد پٹیل بھی کانگریس کے امیدوار تھے۔
پاکستان کے خلاف نام نہاد سرجیکل اسٹرایک، پلوامہ کے خود کش حملہ اور پاکستان میں بالا کوٹ پر ہندوستان کے فضائی حملے کے دعویٰ کے بعد خوف کی ایسی فضا پیدا ہوگئی کہ جو بھی مودی کی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے پاکستان کا ایجنٹ قرار دے کر اور ملک دشمنی کا الزام لگا کر اس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔ دوسری جانب اس حکمت عملی کا مقصد ہندوں کو ڈرانا ہے کہ مسلمان، ملک کو ٹکرے ٹکرے کرنے والی قوم ہے جسے انتخابات میں شکست دینی لازمی ہے۔ آج ہندوستان میں ہندوتوا کی جو زہریلی فضا ہے اس میں یہ توقع کرنا کہ مسلمان اگلے عام انتخابات میں پارلیمنٹ میں خاطر خواہ نمائندگی حاصل کر پائیں گے، شاخ زعفران گننے کے مترادف ہوگا، خاص طور پر جب کہ رائے دہندوں کی فہرست سے تین کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے نام غائب کر دیے گئے ہیں۔