بچپن میں ایک قصہ سنا تھا۔ آپ نے بھی سنا ہوگا۔ کسی دُور دراز کے دیہات کا ایک سیدھا سادہ سا آدمی کسی مقدمے میں پھنس گیا۔ عدالت سے طلبی ہوگئی۔ بہت پریشان ہوا کہ عدالت میں جا کر خدا جانے کیا کرنا پڑے؟ کیا سننا پڑے؟ کیا کہنا پڑے؟ اور کیسی سزا بھگتنا پڑے؟ سن رکھا تھا کہ عدالت سے سزا بھی سنائی جاتی ہے۔ اُس کی پریشانی دیکھ کر ایک مردِ دانا نے اُسے تسلی دی اور سمجھایا:
’’پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جو بات پوچھی جائے سچ سچ بتا دینا۔ ہاں، مگر بات بتانے سے پہلے تمہیں حَلْف بھی اُٹھانا پڑے گا‘‘۔
یہ سُن کر تو پریشانی اور بڑھ گئی۔ یہ حلف کیا بلا ہے؟ کس شکل کا ہوتا ہے؟ کتنا لمبا، کتنا چوڑا اور کتنا بھاری ہوتا ہے؟ اُٹھا بھی پاؤں گا یا حلف اُٹھاتے اُٹھاتے ہی دوہرا ہو جاؤں گا۔ نہ اُٹھا پایا توکیا کروں گا؟ کہاں جاؤں گا؟ غرض جب تک مقدمے کی تاریخ نہیں آئی اسی اُدھیڑ بُن میں مبتلا رہا۔ آخر خدا خدا کرکے عدالت میں پیشی کا دن آگیا۔ خوب ورزش کرکے اور رگ پٹھوں پر تیل مالش کرا کے عدالت پہنچا۔ کمرۂ عدالت میں اس کا نام پکارا گیا۔ کرسی سے اُٹھ کر کٹہرے میں پہنچا تو ایک پرچہ اس کے ہاتھ میں تھمادیا گیا کہ اس کو پڑھو۔ پرچے پر قَسم وغیرہ کھا کر کچھ اس قِسم کا اعتراف وغیرہ کروانے والی عبارت لکھی تھی کہ: ’’مَیں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہ کہوں گا‘‘۔
اس کے بعد کسی نے اعلان کیا: ’’گواہ نے حلف اُٹھا لیا ہے، اب اس سے جرح کی جاسکتی ہے‘‘۔
یہ اعلان سن کر دیہاتی کے دِل پر سے مَنوں بوجھ اُتر گیا۔ اس انکشاف سے وہ بے حد مسرور اور مطمئن ہوا کہ اُس نے کامیابی سے حلف اُٹھا لیا ہے۔ عدالت سے باہر نکل کر اُس نے کہا: ’’میں یوں ہی اتنا پریشان تھا کہ حلف بھاری پڑے گا۔ ایسے ایسے سیکڑوں، ہزاروں حلف تو میں صرف اپنی دو اُنگلیوں سے اُٹھا سکتا ہوں‘‘۔
دیہاتی کا یہ قولِ زرّیں ہمارے مُرغانِ زرّیں یعنی وزیروں، مشیروں اور حکمرانوں نے اپنی گرہ میں باندھ لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر روز نئی نئی اور زرتار شیروانیاں پہن پہن کر پُرانے سے پُرانا حلف اُٹھانے پہنچ جاتے ہیں۔ خاص و عام سب جانتے ہیں کہ ذمے داری تو ذمے داری ۔۔۔ ’نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار اِن سے‘۔۔۔ مگر حلف اُٹھانے کو ہمہ وقت آمادہ و تیار رہتے ہیں۔
اب ایک نیا قصہ سنیے۔ ہمارے برادرِ بزرگ شاہد شمسی صاحب جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے ابلاغ عامہ کے مرکزی رابطہ کار ہیں۔ نہایت وضع دار آدمی ہیں۔ وضع داری ان کے لباس سے بھی عیاں ہوتی ہے، ان کے رکھ رکھاؤ سے بھی، ان کے مشفقانہ برتاؤ سے بھی اور ان کی سدا بہار مسکراہٹ سے بھی۔ جب دیکھیے ہونٹوں پہ ہنسی آئی ہوئی سی۔ شاید بے مُسکرائے بات ہی نہیں کر سکتے۔ پچھلے دنوں اُن کا فون آیا۔ فون پر بھی مُسکراہٹ صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ فون کرنے کا مقصدیہ تھا کہ از سرنو منتخب امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق صاحب اپنی دوسری مدتِ امارت کے لیے از سرنو حلف اٹھانے کو ہیں۔ سو، دیگر کالم نگاروں اور صحافیوں کے ساتھ ساتھ ہم بھی اُن سے حلف اُٹھوانے کو منصورہ چلیں۔ حلف اُٹھانے سے متعلق ہماری جو پچھلی معلومات تھیں، جو ابھی آپ نے پڑھی ہیں، انھی کی ملگجی روشنی میں ہم دل ہی دل میں ہنسے کہ ۔۔۔ ’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو‘ ۔۔۔ کیا عجب کہ شمسی صاحب بھی اپنی سادگی اور سادہ لوحی میں یہی سمجھ رہے ہوں کہ اگر ہم جیسے سینک سلائی لوگ اُن کی مدد کو نہ پہنچے تو کہیں سراج بھائی حلف اُٹھاتے اُٹھاتے دوہرے ہی نہ ہو جائیں۔ خیر ہم نے ہامی بھرلی۔ ہم نے سنا تھا کہ جماعت اسلامی والے سبھی اتنے سادہ ہوتے ہیں کہ حلف اٹھانے کو بڑی بھاری ذمے داری سمجھتے ہیں اور ایک حلف اٹھا کر اپنے جی کو ساری زندگی کا روگ لگا لیتے ہیں۔ اللہ اکبر! ایسے لوگ بھی ہیں۔ گویا اقبال ؔ نے ٹھیک ہی کہا تھا:
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحر گاہی سے جو ظالم وضو
یہی وجہ ہے کہ ان میں کے بعض لوگ تو ہچکیوں سے روتے ہوئے حلف اُٹھاتے ہیں۔ یوں توس حلف اٹھانا واقعی اتنا آسان ہوتا ہے کہ ہم جیسے کانگڑی پہلوان بھی ایسے ایسے سیکڑوں، ہزاروں حلف صرف اپنی دو اُنگلیوں سے اُٹھالیں۔ مگر حلف اٹھاتے وقت اللہکو حاضر و ناظر جان کر جو عہد کیا جاتا ہے، اُس کی جواب دہی اور اس کے متعلق قیامت میں ہونے والی باز پُرس کی سختیوں کا سوچ سوچ کر اہل احساس رو، رو پڑتے ہیں۔ خلفائے راشدینؓ کے واقعات پڑھیے تو پتا چلتا ہے کہ احساسِ ذمے داری کیا چیز ہوتی ہے۔
خیر ہم اس تقریب میں پہنچے تو تلاوت ہوئی۔ نعت پڑھی گئی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے قیّم برادر لیاقت بلوچ نے (غالباً سراج بھائی کی ہمت بڑھانے کے لیے) تفصیل سے بیان فرمایا کہ اسی ذمے داری کا حلف مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اُٹھایا، میاں طفیل محمدؒ نے اُٹھایا، قاضی حسین احمدؒ نے اُٹھایا، حتیٰ کہ سید منور حسن (جیسے نحیف و نزار بزرگ) نے بھی اُٹھالیا۔ پھر (ڈرکا ہے کا؟) خود سراج بھائی نے بھی تو پانچ برس پہلے ان ہی دنوں میں اپنی پہلی مدت کی ذمے داریوں کا حلف اٹھایا تھا۔ غرض خوب ہمت، حوصلہ بڑھا کر انہیں حلف اٹھانے کو بلایا اور وہ چند ہی لمحوں میں پورا حلف اٹھا کر اپنے گلے پڑنے والے لوگوں سے گلے ملنے لگے۔ لیاقت بھائی نے انہیں پھر واپس بلایا تاکہ وہ اپنا خطبۂ امارت پڑھیں، سو آکر پڑھا۔ یہ خطاب آپ سب لوگ اخبارات میں پڑھ چکے ہوں گے۔ ہم نے کہا:
’’لو بھئی! اتنی سی بات تھی، جس کے لیے ہم اُتنی دُور سے بلائے گئے۔ سراج بھائی نے تو ماشاء اللہ آسانی سے حلف اٹھا لیا‘‘۔
اس پر ہم سے بھی وہی کہا گیا کہ حلف اٹھانا تو آسان ہے ۔۔۔ ’ولے اُفتاد مُشکلہا!‘ ۔۔۔ اور یہ مشکل افتاد ہم نے فوراً ہی پڑتے ہوئے دیکھ بھی لی۔ سراج بھائی سب سے مل ملا کر جب مغرب کے بعد ہم کالم نگاروں اور صحافیوں کو ضیافت کے کمرے میں بسکٹ کھلانے اور چائے پلانے آئے تو سب اُن پر گویا پِل پڑے۔ جماعت اسلامی سے متعلق ایسے ایسے سوالات کیے گئے، جیسے سماجی ذرائع ابلاغ پر ہر آیا گیا کرتا پھرتا ہے۔ سراج بھائی مسکرا مسکرا کر ہر منفی و مثبت سوال کا مسکت جواب دیتے رہے۔ مگر ہم یہ سوچتے رہے کہ ایسی جماعت کا سربراہ ہونا کس قدر دشوار ہے جس کے دامن پر غبن، بدعنوانی، دھوکا دہی اور سبز باغ دکھانے کا کوئی داغ نہیں، پھر بھی لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ جماعت آخر ویسی کامیابیاں کیوں نہیں حاصل کرلیتی جیسی کامیابیاں اس ملک میں غبن، بدعنوانی، چوری، لوٹ مار اور دھوکا دہی کرنے والوں یا اس پُر خلوص قوم کو سبز باغ دکھانے والوں کو ملتی ہیں۔