…دھڑے بندیوں کی دھڑ دھڑ

338

 

 

پاکستان تحریک انصاف میں سیاسی خلیج عوامی سطح پر سامنے آنا شروع ہوگئی ہے۔ وزراء کے درمیان اختیارات کی کشمکش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کے بعد پارٹی معاملات پر بھی عمران خان کا کنٹرول کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ پارٹی لیڈر نہ صرف عوامی سطح پر الجھنا شروع ہوگئے ہیں بلکہ پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے کھل کر اس کا اظہار بھی کرنے لگے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس میں عمران خان کے معتمد خاص جہانگیر ترین کو جس طرح ہدف کیا گیا وہ قالین کے نیچے چھپائی گئی گندگی تھی جو اپنا اظہارکررہی تھی۔ اس سے پہلے وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری اور وزیراعظم کے چیف آف اسٹاف نعیم الحق کے درمیان پاکستان ٹیلی ویژن کے معاملات کے حوالے سے اختلافات کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ کئی اور رہنماؤں کی چپقلش بھی میڈیا کی زینت بنتی رہی ہے۔ تحریک انصاف میں دھڑے بندی واضح ہوتی جارہی ہے۔ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس کے بعد کئی وفاقی وزراء نے اگر پارٹی کے لیے جہانگیر ترین کی خدمات کو سراہا اور ان سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے تو کئی کلیدی رہنماؤں نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کرکے اپنے رحجان کا اشارہ دے دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے لیے اقتدار کی راہ جس طرح ہموار کی گئی، جس طرح پارٹی کے غبارے میں ہوا بھری گئی، کسی سبب کے بغیر جس طرح پارٹی کو یکایک عروج حاصل ہونا شروع ہوا، وہ معمول کی صورتحال اور فطری طریقہ نہیں تھا۔ پارٹی کے پرانے اور نظریاتی لوگوں کا تحریک انصاف سے علیحدہ ہونا، مختلف پارٹیوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر الیکٹ ایبلز کا پارٹی میں شامل ہونا، اس بات کا اشارہ تھا کہ اگلی حکومت کے بارے میں کنفرم کر دیاگیا ہے کہ وہ عمران خان کی ہوگی۔ نواز شریف کی جمی جمائی حکومت کا غیر مستحکم کیا جانا، نواز شریف کے گرد عدلیہ کا گھیرا تنگ ہونا، انہیں سسلین مافیا اور گاڈ فادر کہنا، یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں تھا۔ ایک ایسے عدالتی فیصلے کے ذریعے دنیا بھر میں جسے کہیں اعتبار کا درجہ حاصل نہ ہوسکا، دنیا بھر میں میڈیا نے جس کا مذاق اڑایا، یہ سب کچھ ایک منصوبے کا حصہ اور عمران خان کو لانے کی سازش تھی۔
تحریک انصاف کی سمت ہانکے کا عمل شروع ہوا تو جن مختلف لوگوں کو مختلف کردار ادا کرنے کے لیے تحریک انصاف کی سمت دھکیلا گیا ان میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نمایاں تھے۔ جہانگیر ترین پرویز مشرف کے دور میں صنعت اور پیداوار کے وفاقی وزیر کی حیثیت سے کام کرچکے تھے۔ شاہ محمود قریشی پیپلزپارٹی کے دور میں وزیر خارجہ رہ چکے تھے۔ ان دونوں کی منزل وفاقی وزارت نہیں تھی۔ جہانگیر ترین بھی وفاقی وزارت سے آگے کے خواب دیکھ رہے تھے اور شاہ محمود قریشی بھی۔ اس جستجو میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔ دونوں پارٹی اور حکومت میں عمران خان کے بعد دوسری حیثیت کے بھی خواہش مند تھے۔ ابتدا میں جہانگیر ترین کا پلڑا بھاری تھا لیکن عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد صورتحال بدل گئی۔ بظاہر پارٹی اور حکومت میں جہانگیر ترین کے کردار کا خاتمہ ہوگیا۔ شاہ محمود قریشی کا اب کوئی مد مقابل نہیں رہا، لیکن شاہ محمود قریشی کی کم نصیبی کہ جہانگیر ترین عمران خان کے دل سے نہ نکل سکے۔ وجہ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی سرشت کا فرق ہے۔ شاہ محمود قریشی ملتان کے گدی نشین ہیں۔ ان کی فطرت میں دوسروں پر پیسہ نچھاور کرنا نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں دوسرے ان پر پیسہ لٹائیں۔ جہانگیر ترین کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ وہ پیسے سے پیسہ کمانے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ پیسہ خرچ کرکے اپنے لیے ترقی کا راستہ تراشتے ہیں۔ پارٹی میں قدم بہ قدم جہانگیر ترین جس طرح پیسہ خرچ کرتے رہے اور پھر الیکشن کے بعد حکومت سازی کے مرحلے میں جس طرح وہ اپنا طیارہ لے کر نکلے اور منتخب اراکین کو عمران خان کی جھولی میں لا کر ڈالتے رہے وہ بہت متاثر کن تھا۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ایک مختصر وقفے کے لیے تو جہانگیر ترین پس منظر میں چلے گئے تھے لیکن اب وہ دوبارہ پارٹی اور حکومت میں متحرک ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ شاہ محمود قریشی کے مفادات کے خلاف اور ان کی پسپائی کے مترادف ہے جس پر وہ چیخ اٹھے۔
اختلافات سیاسی جماعتوں میں ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں بھی خواجہ آصف اور چودھری نثار میں شدید اختلافات تھے لیکن تحریک انصاف میں اختلافات چند افراد تک محدود نہیں ہیں بلکہ اختلافات کی ایک بدرو ہے جو ڈھکن ہٹتے ہی بدبو دینے لگتی ہے۔ یہ اختلافات کابینہ کے اجلاسوں میں بھی نظر آتے ہیں اور عوامی سطح پر بھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں قائدین کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں ہے سوائے حصول اقتدار کے۔ کوئی نظریاتی ہم آہنگی، نہ حفظ مراتب اور نہ پرانے اور نئے لوگوں کے درمیان قدرو منزلت کا فرق۔ کبھی شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین پارٹی میں نمایاں نظر آتے ہیں، کبھی اسد عمر اور شفقت محمود عمران خان کے قریب ہوتے ہیں، کبھی فواد چودھری اور مراد سعید جیسے چمچے اور کبھی عمران خان کے ذاتی خدمت گار نعیم الحق، یوسف بیگ مرزا اور زلفی بخاری وغیرہ سب پر بازی لے جاتے ہیں۔ وفاق ہو پنجاب یا خیبر پختون خوا ہر جگہ رسا کشی، دھڑے بندی اور سازشیں۔ یہ جمہوری جماعت رہی ہے اور نہ نظریاتی۔ یہ مختلف جماعتوں سے آنے والے لوٹوں کا مسافر خانہ ہے۔ یہاں میرٹ اور صلاحیت نہیں وہی سہاگن ہے جسے پیا چاہے۔
سیاسی دھڑے بندی اور گروہ بندی پاکستان کی سیاست میں اس قدر عام ہے کہ اس پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ ویسے بھی جمہوریت میں سیاست دان کسی نظریے یا اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک صرف اور صرف ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ جب تک مفادات حاصل ہوتے رہتے ہیں یا مفادات کے حصول کا امکان نظر آتا رہتا ہے وہ جماعت میں شامل رہتے ہیں جہاں مفادات پر زد پڑی وہ پارٹی سے بغاوت کرنے لگتے ہیں یا دھڑے بندی شروع کردیتے ہیں۔ مفادات کے حصول تب بھی ممکن نہ رہے تو پھر وہ کسی دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ ایک عام سی بات اور معمول کا عمل ہے۔
مغرب کی پھیلائی ہوئی جمہویت میں اعلیٰ افکار اور نظریات کی کوئی قدر وقیمت ہے اور نہ حقیقی جگہ۔ سیاسی جماعتیں اعلیٰ نظریات اور معاشرے کو لاحق دیرینہ امراض کے خاتمے کے لیے خوش کن خوابوں کے فریب کی بنیاد پر وجود میں آتی ہیں۔ ابتداً نظریاتی اور کسی آدرش سے وابستہ افراد ان جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ پارٹی کو اپنے خون سے سینچتے ہیں، اس کا مستحکم اور پائیدار ڈھانچا تشکیل دیتے ہیں لیکن الیکشن میں کامیابی اور اسمبلیوں میں پہنچنے کی صلاحیت سے چوں کہ یہ نظریاتی لوگ محروم ہوتے ہیں اس لیے ذرہ جان پکڑتے اور سوئے اقتدار رواں ہوتے ہی پارٹی ان لوگوں سے جان چھڑانے میں ہی عافیت محسو س کرتی ہے۔ پارٹی کے اندر ایسا ماحول بنادیا جاتا ہے کہ رفتہ رفتہ نظریاتی لوگ پارٹی چھوڑنے لگتے ہیں۔ ان کی جگہ الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں خوش آمدید کہا جانے لگتا ہے جن کا کوئی اصول ہوتا ہے اور نہ نظریہ۔ جن کا واحد اصول اور نظریہ مفادات اور پیسے کا حصول ہوتا ہے۔ یہ الیکٹ ایبلز مختلف برادریوں اور عصبیتوں سے جڑے ہوتے ہیں، انہیں الیکشن میں کامیابی کے لیے تمام ہتھکنڈوں سے آگاہی حاصل ہوتی ہے جن پر عمل کرکے وہ اسمبلیوں تک پہنچنا جانتے ہیں۔
اقتدار سے باہر ہوں یا ایوان اقتدار میں سیاسی جماعتوں میں یہ جوڑ توڑجاری رہتی ہے۔ پاکستان میں اقتدار تک پہنچنے کے لیے پارٹی میں صرف الیکٹ ایبلز کا ہونا کافی نہیں فوج کی رضا اور آشیر باد بھی ضروری ہے۔ ضروری ہی نہیں لازمی۔ یہیں سے لوگوں کو پارٹی جوائن کرنے اور چھوڑنے کے اشارے دیے جاتے ہیں۔ یہ اشارے اس بنا پر نہیں کیے جاتے کہ مذکورہ سیاست دان ملک وقوم کے مسائل حل کرنے کی استعداد رکھتا ہے بلکہ اس لیے کیے جاتے ہیں کہ کون سی جماعت اقتدار میں آکر موجودہ تعفن زدہ استعماری نظام کو برقرار رکھتی ہے اور امریکا کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے علاوہ تمام باتیں قصہ کہانیاں ہیں۔ ہمارے خواب اپنے ہیں نہ غم کی ڈور اپنی ہے۔