پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو کے اہم شخصیت ہونے میں کیا کلام ہے۔ انہوں نے ملک کو 1973ء کا آئین دیا، انہوں نے ملک کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، انہوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا، انہوں نے شراب پر پابندی لگائی اور جمعے کی تعطیل کو رائج کیا۔ مگر ہم نے مغرب سے اشتہار بازی کا فن خوب سیکھا ہے اور اشتہار بازی کے فن کے ذریعے پتھر کو ہیرا اور لوہے کو سونا باور کرایا جاسکتا ہے۔ یہی کچھ اس سال ذوالفقار علی بھٹو کی چالیسویں برسی کے موقع پر ہوا۔ حامد میر نے روزنامہ جنگ میں اس حوالے سے جو کالم تحریر کیا اس میں انہوں نے کہا ہے کہ بھٹو ڈیل کرلیتے تو فوج سے بچ جاتے مگر تاریخ کے ہاتھوں مارے جاتے۔ یعنی حامد میر کے مطابق بھٹو تاریخ میں زندہ ہیں۔ حامد میر نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب بھی کسی سیاست دان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اس کے حامی سقراط اور بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔ بیرسٹر عامر حسن نے جنگ ہی میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اور بھی غضب کیا۔ انہوں نے بھٹو کا مقابلہ اور موازنہ سقراط، سیدنا حسینؓ اور منصور حلاج سے کر ڈالا۔ انہوں نے لکھا کہ بھٹو کے نام سے خوف زدہ قوتیں یاد رکھیں کہ سقراط، سیدنا حسینؓ اور منصور حلاج قتل ہونے کے باوجود تاریخ میں زندہ ہیں تو تاریخ ذوالفقار علی بھٹو کو کیسے فراموش کرسکتی ہے؟۔
ذوالفقار علی بھٹو کا اہم شخصیت ہونا تسلیم مگر سقراط، اما م حسینؓ اور منصور حلاج کے ساتھ ان کا نام لینا بھی سقراط، سیدنا حسینؓ اور منصور حلاج کی توہین ہے۔ سقراط انسانی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک ہے۔ سقراط کا زمانہ 300 قبل مسیح کا ہے، یعنی سقراط کو دنیا سے رخصت ہوئے سوا دو ہزار سال سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر انسانی فکر میں سقراط کا ذکر آج بھی موجود ہے۔ اس کے برعکس بھٹو صاحب سوا دو ہزار سال کیا دو سو سال بھی تاریخ میں زندہ رہ لیے تو بہت ہی بڑی بات ہوگی۔ سقراط کی عظمت کا ایک پہلو یہ ہے کہ سقراط کی فکر نے افلاطون کو پیدا کیا اور افلاطون کی اکیڈمی کے بغیر ارسطو، ارسطو نہیں بن سکتا تھا۔ ذرا بھٹو کے پرستار بتائیں کہ بھٹو صاحب نے کب اور کہاں افلاطون اور ارسطو پیدا کیے؟ بھٹو صاحب نے بے نظیر، مرتضیٰ بھٹو، شاہنواز بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول زرداری جیسے لوگ پیدا کیے۔ ان کی ’’سیاسی پیداوار‘‘ میں غلام مصطفی کھر، جام صادق علی اور ممتاز بھٹو جیسے لوگ شامل تھے۔ سقراط کی عظمت کا ایک گوشہ یہ ہے کہ اس کو موت کی سزا ہوگئی تو اس کا ایک شاگرد رونے لگا، سقراط نے پوچھا کیوں روتے ہو؟ شاگرد نے کہا کہ مجھے رونا اس بات پر آرہا ہے کہ آپ نے کوئی جرم نہیں کیا مگر پھر بھی مارے جارہے ہیں۔ سقراط نے کہا، کیا تو یہ چاہتا ہے کہ میں کوئی جرم کرتا اور پھر مارا جاتا۔ بھٹو صاحب کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ وہ اپنے قدموں پر چل کر تختہ دار تک نہ جاسکے بلکہ انہیں سہارا دے کر لے جایا گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ بھٹو صاحب تختہ دار پر کھڑے کردیے گئے تو انہوں نے نہایت کمزور آواز میں کہا Finish it۔ ایک روایت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے لاکھوں کارکنوں کی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بھی یہ زعم تھا کہ آخری وقت میں کسی اسلامی ملک کا طیارہ آئے گا اور انہیں جیل سے نکال کر پرواز کر جائے گا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ (مضمون فاروق اقدس۔ روزنامہ جنگ کراچی۔ 4 اپریل 2019ء)
بھٹو صاحب کا موازنہ سیّدنا حسینؓ کے ساتھ کرنا تو کھلی Blasphemy ہے۔ امام حسینؓ سید الشہدا ہیں، نواسۂ رسولؐ ہیں، ملوکیت اور اس کے جبر کے خلاف اسلامی تاریخ میں بلند ہونے والی سب سے توانا آواز ہیں۔ بھٹو صاحب تو خود جابروں میں سے ایک تھے، انہوں نے اپنے سیکڑوں سیاسی حریفوں کو دبایا، کچلا، اغوا کرایا، جیلوں میں ڈالا اور اُن پر بدترین تشدد کرایا۔ انہوں نے 1977ء کے انتخابات میں کسی ضرورت کے بغیر دھاندلی کرائی۔ انہوں نے پی این اے کے ساتھ مذاکرات کیے تو انتخابات میں دھاندلی کو تسلیم کیا اور کہا کہ وہ قومی اسمبلی کی 30 سے زیادہ نشستوں پر ازسرنو انتخابات کرانے کے لیے تیار ہیں۔ بھٹو صاحب کا جبر و تشدد نہ ہوتا تو ان کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک چل نہیں سکتی تھی۔ مگر بھٹو صاحب نے معاشرے میں تنگ آمد بجنگ آمد کی صورتِ حال پیدا کردی تھی۔ کیا ایسی شخصیت کا نام بھی سیّدنا حسینؓ کے ساتھ لکھنا چاہیے؟ جہاں تک منصور حلاج کا تعلق ہے تو وہ بھی کوئی معمولی شخص نہ تھا۔ ان کے نعرۂ انا الحق کا بھٹو صاحب سے کیا تعلق؟ بدقسمتی سے جو لوگ منصور کا نام لیتے ہیں انہیں ان کے نعرے اناالحق کی الف ب بھی معلوم نہیں۔ منصور کا مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے ان حقائق کا انکشاف کرنے کی جرأت کی جن کو صوفیا کی روایت میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جنید بغدادی نے منصور کو بہت سمجھایا بھی مگر انسان اپنی افتاد طبع سے مجبور ہوتا ہے۔ لیکن منصور کے اناالحق اور ان کی سولی کا بھٹو اور ان کی پھانسی سے دور پرے کا واسطہ بھی نہیں۔
بھٹو صاحب کے تاریخ میں زندہ ہونے کی بات بھی ابھی قبل از وقت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ کا حافظہ اور تجزیہ بدلتا رہتا ہے۔ اس کی چند مثالیں عرض ہیں۔ سابق سوویت یونین میں کارل مارکس، لینن اور اسٹالن ساٹھ سال تک دنیا کی عظیم ترین شخصیتوں کے طور پر جانے جاتے رہے۔ مگر 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور سوشلزم تحلیل ہوگیا۔ چناں چہ روس کی تاریخ نے کروٹ بدلی اور آج روس میں کروڑوں لوگ مارکس، لینن اور اسٹالن کو عظیم نہیں سمجھتے۔ روس میں جگہ جگہ کارل مارکس، لینن اور اسٹالن کے مجسمے گرائے گئے ہیں اور ان مجسموں پر روسیوں نے جوتے برسائے ہیں۔ کیا روس میں کوئی شخص 1920ء کیا 1960ء یا 1980ء میں بھی یہ سوچ سکتا تھا کہ روس کی تاریخ اس طرح بدلے گی؟ اس کا تجزیہ اس طرح تبدیل ہوگا؟ جو لوگ چین کی تاریخ سے آگاہ ہیں انہیں معلوم ہے کہ جدید چین کے بانی ڈینگ ژیاؤ پنگ ماؤ کے ثقافتی انقلاب کے دوران کئی بار باغی قرار پائے اور انہوں نے اس الزام کے تحت جیل کاٹی مگر آج وہ ماؤ کے بعد چین کی حالیہ تاریخ کی دو تین اہم شخصیتوں میں سے ایک شخصیت سمجھتے جاتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں اردو کے تین عظیم ترین شاعروں کی ترتیب یہ تھی۔ ذوق، مومن اور غالب۔ آج یہ ترتیب اس طرح ہے۔ غالب، مومن اور ذوق۔ انگریزی کے شاعر جان کیٹس نے 20 سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ 27 سال میں کیٹس ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر مر گیا۔ اس وقت تاریخ اسے صرف ’’قابلِ ذکر شاعر‘‘ سمجھتی تھی مگر آج کیٹس انگریزی کے چار عظیم رومانوی شاعروں میں سے ایک ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کا فیصلہ بھی بدلتا رہتا ہے اور اس کے حتمی فیصلے کے سامنے آنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ چناں چہ نہیں کہا جاسکتا کہ تاریخ بھٹو صاحب کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ کرے گی۔
اس ’’تذبذب‘‘ کی ایک وجہ یہ ہے کہ بھٹو کی شخصیت ’’مجموعہ اضداد‘‘ تھی۔ انہوں نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا تصور پیش کیا تھا۔ یہ ایک بے معنی اصطلاح تھی اس لیے کہ اسلام اور سوشلزم میں کوئی قدر مشترک نہ تھی۔ بلکہ حقیقت یہ تھی کہ اسلام اور سوشلزم ایک دوسرے کی ضد تھے مگر بھٹو صاحب کو معلوم تھا کہ اسلام کا نام لیے بغیر پاکستان میں کامیاب سیاست نہیں کی جاسکتی۔ چناں چہ وہ دکھاوے کے لیے سہی اسلام کا نام لینے پر مجبور تھے۔ دوسری جانب وہ سوشلزم کا نعرہ لگا کر خود کو ’’جدید‘‘ اور ’’انقلابی‘‘ ثابت کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کیا سوشلزم تک کے ساتھ مخلص نہ تھے۔ انہیں صرف اپنی شخصیت اور اپنا اقتدار عزیز تھا۔ بھٹو صاحب کا ایک تضادیہ تھا کہ وہ ’’وڈیرے‘‘ بھی تھے اور ’’سوشلسٹ‘‘ اور ’’عوامی‘‘ بھی۔ ظاہر ہے کہ کوئی وڈیرہ سوشلسٹ ہوسکتا ہے اور نہ عوامی۔ اس طرح کسی سوشلسٹ کے لیے یہ روا نہ تھا کہ وہ وڈیرہ ہوتا مگر بھٹو کی سیاست میں ’’سیاسی حلال‘‘ اور ’’سیاسی حرام‘‘ کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ بھٹو کی شخصیت کا ایک اور ہولناک تضاد یہ تھا کہ وہ خود کو ڈیموکریٹ کہتے تھے مگر وہ جب تک زندہ رہے انہوں نے پیپلز پارٹی میں جمہوریت کو داخل نہ ہونے دیا۔ اس روایت کو بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول زرداری نے بھی گلے لگایا اور پیپلز پارٹی آج بھی ایک جمہوری پارٹی کے بجائے صرف ایک خاندان کی ’’سیاسی جاگیر‘‘ ہے۔ جس سیاسی رہنما میں اتنے بڑے بڑے تضادات ہوں اس کے بارے میں تاریخ آسانی سے حتمی فیصلہ نہیں کرسکتی۔
لوگ کہتے ہیں کہ امریکا نے بھٹو صاحب کو مروایا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بھٹو صاحب نے ایٹمی پروگرام شروع کیا اور امریکا چاہتا تھا کہ پاکستان ایٹم بم نہ بنائے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ جس امریکا نے بھٹو صاحب کو پھانسی تک پہنچایا بھٹو کی بیٹی بے نظیر اس امریکا کی ’’سیاسی ڈارلنگ‘‘ بن کر اُبھریں۔ گویا تضاد نے بھٹو صاحب کی موت کے بعد بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔