چارہ گر کی بے بسی!

312

عزت مآب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا ارشاد گرامی ہے کہ ڈاکٹروں کی طرح وکلا کا بھی ہاؤس جاب ہونا چاہیے۔ سابق چیف جسٹس چودھری افتخار سے ہم نے انہی کالموں میں گزارش کی تھی کہ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنے کی اجازت تو مل جاتی ہے مگر ڈاکٹر بننے کے بعد مختلف امراض کا علاج کرنے کے لیے ان سے متعلق مزید تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ایل ایل بی کرنے والے کے نام کے ساتھ وکیل لکھنے اور سیاہ کوٹ پہننے کی سہولت تو میسر ہوجاتی ہے مگر مختلف مقدمات پر عبور حاصل کرنے کے لیے وکلا کو بھی مختلف مقدمات سے متعلق مزید تعلیم درکار ہوتی ہے سو، بہتر ہوگا کہ ڈاکٹروں کی طرح وکلا کو بھی مزید تعلیم دی جائے مگر نقار خانے میں توتی کی آواز کون سنتا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ کسی چیف جسٹس پاکستان نے اس ضرورت کو محسوس تو کیا مگر یہ کہنے کی جسارت بھی کریں گے کہ ڈاکٹروں کی طرح وکلا بھی اپنے سینئر وکلا کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرتے ہیں یہی ان کا ہاؤس جاب ہے۔ ان کی اصل ضرورت یہ ہے کہ مختلف مقدمات سے نمٹنے کے لیے ایل ایل بی کے بعد وکلا کو مزید تعلیم دی جائے، یہاں ہم ایک واقعہ کی روداد عرض گزار کرنا چاہیں گے۔ بہاولپور کی ایک عدالت نے مقدمات کا فیصلہ سنایا تو وکیل کہنے لگا ’’اسٹے آرڈر کی چھوٹی سی پیشی دے دیں‘‘۔ یہ سن کر جج صاحب نے سر پکڑ لیا اور کہا اپنے سینئر کو بھیجو، تمہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ فیصلہ تمہارے حق میں ہوچکا ہے، اب اسٹے آرڈر کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہ وکیل سپریم کورٹ کا وکیل بن گیا تو کیا ہوگا؟۔
چیف صاحب نے درست فرمایا کہ گئے زمانے میں وکلا قابل عزت سمجھے جاتے تھے، ان کا احترام باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اب ان کو عزت و احترام کی نظر سے کیوں نہیں دیکھا جاتا، یہ سوال ایسا مشکل نہیں جس کے لیے کوئی کمیٹی تشکیل دی جائے، یہ بہت سیدھا سا معاملہ ہے، پہلے وکلا مقدمے کو اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ سمجھتے تھے، ججز بھی بیان بازی سے گریز کیا کرتے تھے، وکلا ہر پیشی پر مقدمہ سے متعلق قانونی نکات کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور اب بعض وکلا پیشی پر حاضر ہونا بھی گوارا نہیں کرتے۔ نتیجتاً مقدمہ عدم پیروی کی بنیاد پر خارج ہوجاتا ہے اور وکیل دوبارہ فیس لے کر مقدمہ بحال کرادیتا ہے، اصولی طور پر تو وکیل قابل سزا ہونا چاہیے مگر جج صاحب سائل کو سزا دیتے ہیں۔ اس کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ سائل وکیل اور جج دونوں ہی سے بدظن اور بدگمان ہوجاتا ہے مگر نظام عدل کے چودھری خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اس پس منظر میں عزت و احترام کی گنجائش کہاں نکلتی ہے؟۔
چیف جسٹس صاحب کے فرمان کے مطابق ملک کا ہر سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی مسائل کا حل عدالتوں میں ہوتا ہے۔ بالکل یہی ہورہا ہے مگر یہ کوئی قابل فخر بات نہیں کیوں کہ سیاسی معاملات کے لیے پارلیمنٹ موجود ہے، اقتصادی معاملات کے لیے اقتصادی ماہرین کی کوئی کمی نہیں اور جہاں تک معاشرتی معاملات کا تعلق ہے تو اس کے لیے مذہبی اور سماجی رہنما ہی کافی ہیں۔ عدالتوں کا کام جرائم اور جرائم پیشہ افراد کا سدباب کرنا ہے، سائلین کو انصاف فراہم کرنا ہے اور یہی بات چیف صاحب نے گھما پھرا کر کہی ہے۔ فرماتے ہیں ڈاکٹر انسانی جسم کا علاج کرتا ہے اور قانون دان معاشرتی بیماریوں کا علاج کرتا ہے، مگر معاملات یہیں تک رہتے تو معاشرہ جرائم سے پاک ہوسکتا تھا مگر المیہ یہ ہے کہ ہماری عدالتیں خاص کر عدالت عظمیٰ سیاسی اور اقتصادی معاملات میں بھی دخل اندازی کو اپنی ذمے داری بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ فرض اولین سمجھتی ہے۔ نتیجتاً ملک میں افراتفری اور حکمرانی کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے۔ چیف صاحب کے فرمان کے مطابق وکلا کو ادب، تاریخ اور ریاضی پر مکمل دسترس ہونا چاہیے، المیہ یہی تو ہے کہ جو ہونا چاہیے وہ نہیں ہوتا۔ چیف صاحب بھی اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ وکلا سے زیادہ منشی اور کلرک عدالتی کارروائی کا شعور رکھتے ہیں۔