عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور کراچی کے مسائل کے حل کے لیے تجاویز 

369

عدالتِ عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمینوں کو قانونی شکل دینے کے لیے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو سات سال میں 460 ارب روپے ادا کرنے کا پابند کیا ہے اور اس کا ایک شیڈول بھی طے کردیا ہے اور اسی سبب قومی ادارۂ احتساب یعنی نیب کو بحریہ ٹاؤن کے مالکان اور انتظامیہ کے خلاف تحقیقات سے روک دیا ہے، البتہ یہ کہا ہے کہ جن افسران یا ذمے داران نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے، اُن کے خلاف انفرادی حیثیت میں کارروائی کی جاسکتی ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین نے عدالتِ عظمیٰ میں کہا: ’’یہ رقم میں صوبائی حکومت کو جمع کراتا رہوں گا‘‘، اصولی اعتبار سے یہ بات درست ہے، کیوں کہ زمینیں سندھ حکومت کے محکمۂ مالیات کے زیرِ اختیار ہیں اور کراچی کی شہری حدود میں واقع ہیں۔ لیکن عدالتِ عظمیٰ نے کہا: ’’یہ رقم آپ عدالتِ عظمیٰ میں جمع کرائیں گے اور ہم فیصلہ کریں گے کہ کس کو کیا دینا ہے‘‘۔
عدالتِ عظمیٰ سے ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ اس رقم کے لیے صوبائی حکومت کے انتظامی کنٹرول سے آزاد ایک خود مختار اتھارٹی بنائی جائے، جس کے بورڈ آف گورننس کا تقرر عدالتِ عظمیٰ کی نگرانی میں ہو، اس میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے، یہ اتھارٹی عدالتِ عظمیٰ کی نگرانی میں کام کرے یا اسے ٹرسٹ کی شکل دی جائے اور یہ رقم کراچی کے ماسٹر پلان، منصوبہ بندی وترقی اور شہری خدمات کا نیٹ ورک، زمینوں اور خدمات کے تمام ریکارڈ کو جدید ترین معیار کے مطابق کمپیوٹرائز کرنے کے لیے خرچ کی جائے اور جب تک موجودہ جاری اسکیموں (مثلاً: تیسر ٹاؤن، ہاکس بے، سرجانی ٹاؤن، شاہ لطیف ٹاؤن) کے تمام ترقیاتی کام مکمل نہ ہوجائیں، نئی اسکیمیں لانچ کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
اس رقم پر کراچی کا حق اس لیے بنتا ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور اس کی زمینیں کراچی شہر کی حدود میں ہیں اور وہ بھی خارجی خدمات (مثلاً: پانی، بجلی، گیس، سیورج لائن، تعلیمی ادارے اور اسپتال وغیرہ) کے حوالے سے اسی شہر کی سہولتوں کو استعمال کر رہے ہیں اور کریں گے۔ کراچی کی آبادی دو کروڑ بتائی جارہی ہے، یہ عدد زبان زدِ خاص وعام ہے، دعوے متضاد ہیں اور ناقابلِ تردید حقیقی اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں۔ اگر عدالتِ عظمیٰ کراچی پر یہ احسان فرمادے تو یہ ایک تاریخی کارنامہ ہوگا اور کراچی شہر کو دنیا کے جدید شہروں کے مماثل یا قریب تر معیار پر لایا جاسکے گا۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کراچی کی وہ تنگ آبادیاں، جہاں ضرورت کے وقت معمولی استعداد اور نفری پر مشتمل سیکورٹی اداروں کے افراد اس کی تنگ وتاریک گلیوں میں داخل نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ کَور اَپ کا مناسب انتظام نہ ہو، آگ لگنے کی صورت میں آگ بجھانے والی گاڑیاں داخل نہیں ہوسکتیں، معمول کی ٹرانسپورٹ کو گلیوں سے گزرنے میں مشکلات درپیش ہیں، ان آبادیوں کو بھی بتدریج جدید انداز میں بنایا جاسکے گا۔ ماضی میں جمعیت علماء پاکستان کے رُکن صوبائی اسمبلی ظہورالحسن بھوپالی شہید نے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے جناب ظلِّ احمد نظامی کے ساتھ مل کر جیکب لائنز کی اسی طرح بتدریج تعمیرِ نو کی منصوبہ بندی کی تھی، لیکن پھر حالات بدل گئے اور یہ منصوبہ داخلِ دفتر ہوگیا۔ اگر جدید انداز میں ماسٹر پلان بناکر کراچی کی بتدریج منصوبہ بندی کرلی جائے، تو دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کی راہیں بھی مسدود ہوجائیں گی اور کافی حد تک لااینڈ آرڈر کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ ہماری رائے میں موجودہ حکومت کے مجوّزہ پچاس لاکھ مکانوں میں کراچی کا جو حصہ بنتا ہے، اُس میں بھی کراچی کا جو حصہ بنتا ہے، اُسے اسی مجوّزہ اتھارٹی کو دے دیا جائے۔ ہماری ماضی کی تاریخ یہ ہے کہ ادارے قائم ہوجاتے ہیں: مثلاً 8اکتوبر 2005 کو آزاد کشمیر اور مانسہرہ میں شدید زلزلہ آیا، بڑے پیمانے پر لوگ جاں بحق ہوئے، بعض شہر، قصبے اور گاؤں زمیں بوس ہوگئے، اُن کی تعمیرِ نو اور بحالی کے لیے ’’اِرا (Earthquake Reconstruction & Rehabilitation Authority)‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا، لیکن آج تک نیا بالاکوٹ آباد اور نیا مظفر آباد، آباد نہ ہوسکا، اسی طرح دہشت گردی کے انسداد کے لیے ’’نیکٹا (National Counter Terrorism Authority)‘‘ کا ادارہ بنایا گیا، مگر ایسے اداروں کے قیام سے منافع بخش ملازمتوں کے کچھ مواقع نکل آتے ہیں، بیوروکریٹک سیٹ اپ اور اُن کی سہولتوں کا ایک نظم بن جاتا ہے، لیکن زمین پر کارکردگی نظر نہیں آتی۔
کراچی اور پورے پاکستان میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ کروڑوں اور بعض صورتوں میں اربوں روپے خرچ کر کے سڑکیں بنائی جاتی ہیں، لیکن اطراف میں پانی کی نکاسی کا صحیح انتظام نہیں ہوتا، سیورج لائنیں اور واٹر لائنیں بوسیدہ ہوتی ہیں، اکثر ٹوٹ جانے سے پانی بہہ نکلتا ہے یا طوفانی بارشیں ہوجاتی ہیں، پانی جگہ جگہ ٹھیرتا ہے، پھر گڑھے بن جاتے ہیں اور سڑکیں تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں۔ پھر عشروں کے بعد کہیں جاکران کی تعمیرِ نو کی نوبت آتی ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ نوتعمیر شدہ سڑکوں کی تعمیر ومرمت (Repair & Maintenance) کے لیے الگ بجٹ مختص ہونا چاہیے تاکہ جہاں کہیں سڑک میں ٹوٹ پھوٹ ہوجائے یا دراڑ پڑے تو اُس کی فوری مرمت کی جاسکے، اس طرح ان سڑکوں پرقومی خزانے سے صَرف شدہ کروڑوں اربوں روپے ضائع ہونے سے بچ جائیں گے اور یہ سڑکیں لمبے عرصے تک قابلِ استعمال رہیں گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں، ہائی ویز اورموٹر ویز کی فوری تعمیر ومرمت کا انتظام ہوتا ہے، اس لیے اُن کا انفرا اسٹرکچر برباد نہیں ہوتا، حالاں کہ وہ شدید بارانی علاقے ہیں اور اکثر بارشیں ہوتی رہتی ہیں۔ تارکول مضبوط چیز ہے، لیکن پانی اس کے لیے تباہ کن ہے، اس لیے امریکا میں اب سیمنٹ والی (Cemented) سڑکیں بنائی جارہی ہیں، ہمارے ہاں بھی سڑکوں کے جن حصوں میں پانی کے رکنے کے خطرات ہوں، کم از کم وہ حصے کنکریٹ اور سیمنٹ سے بنائے جائیں۔ اسی طرح سرکار کے زیرِ اہتمام اسپتالوں، تعلیمی اداروں، کھیل کے میدانوں اور چائنا کٹنگ سے بچے ہوئے پارکوں کی حالت کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے اور اس کی شدید ضرورت ہے، بہت سے اداروں کا ماحول حِفظانِ صحت کے ادنیٰ معیار پر پورا نہیں اترتا، یعنی Unhygienic ہے اور کراچی میں سب سے تباہ حال پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ہے۔