پاکستانی معیشت عالمی اداروں کی نظر میں

456

گزشتہ ہفتے احوال معیشت میں ’’پاکستانی معیشت اندھیروں کی زد میں‘‘ کے عنوان سے جو عرض کیا تھا بالکل وہی تصویر دُنیا کے عالمی اداروں نے پاکستانی معیشت کے بارے میں اپنی اپنی رپورٹوں میں رواں ہفتے میں دکھائی ہے۔ مثلاً سب سے پہلے ایشیائی ترقیاتی بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سال رواں معاشی ترقی کی شرح 3.9 فی صد اور 2020ء میں 3.6 فی صد رہے گی۔ اس کے علاوہ مہنگائی کی شرح 6.1 فی صد، ٹیکسوں کی وصولی کی شرح میں بھی کمی رہے گی۔ اس کے بعد ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں ترقی کی شرح کا اندازہ 3.4 فی صد اور اگلے سال یعنی 2020ء میں 2.7 فی صد ظاہر کیا، ساتھ ہی ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے اور برآمدات اور ٹیکسوں میں کمی کی بھی پیشگوئی کی، ورلڈ بینک کے بعد آئی ایم ایف نے بھی پاکستانی معیشت کے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اپنی رپورٹ میں اظہار کیا۔ آئی ایم ایف نے گزشتہ 2 رپورٹوں سے زیادہ تباہ کن صورت حال کا نقشہ کھینچا ہے کہ 2019ء میں معاشی ترقی کی رفتار 2.9 فی صد اور سال 2020ء میں 2.8 فی صد رہے گی۔ مہنگائی میں اضافہ 7.2 فی صد، بجٹ خسارہ 72 فی صد اور بے روزگاری کی شرح 6.1 فی صد رہے گی اور وجوہات اس کی یہ ہیں کہ مجموعی طور پر ملک میں پیداوار کم رہے گی اور قرضوں کا دباؤ بہت بڑھ جائے گا۔
اِن تمام رپورٹوں میں جس نکتے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے کہ وہ ترقی کی شرح یا رفتار ہے جس کا تعلق باقی تمام معاشی سرگرمیوں اور اشاریوں سے ہے۔ علم معاشیات میں اسی معاشی ترقی کی رفتار کو مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی شرح کہا جاتا ہے۔ مجموعی قومی پیداوار (GDP) ایک اہم اشاریہ ہے جو ملک میں ہونے والی تمام معاشی سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے ایک ملک کی معیشت کا حجم یا سائز کیا ہے اس کی نشاندہی بھی کرتا ہے اور دُنیا کے مختلف ممالک کی معیشتوں کا موازنہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، ملک کی معیشت بحرانوں کی زد میں ہے یا ترقی اور خوشحالی کی طرف جارہی ہے اس کا اندازہ بھی جی ڈی پی کی شرح نمو سے لگایا جاتا ہے۔ ترقی کی شرح سے آپ یہ تجزیہ بھی کرسکتے ہیں کہ ملک کی معیشت استحکام یا عدم استحکام کا شکار ہے۔
عام طور پر ملکی معیشت یا مجموعی پیداوار تین بڑے شعبوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ زراعت، صنعت اور خدمات۔ زراعت میں فصلوں کی پیداوار، ماہی گیری، پولٹری، گلہ بانی، سبزیوں اور پھلوں کی پیداوار، دودھ اور دہی کی پیداوار شامل ہے۔ جب کہ صنعت میں چھوٹے بڑے کارخانے، بجلی، گیس اور تیل کی پیداوار، تعمیرات وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ خدمات کا شعبہ سب سے بڑا شعبہ ہوتا ہے جس کا تعلق تعلیم، صحت ٹرانسپورٹ، ابلاغ عامہ اور ٹیلی کمیونیکیشن، تفریحی ادارے، ریسٹورنٹس، ہول سیلز اور ریٹیلرز، بینک اور دیگر مالیاتی ادارے، انفارمیشن ٹیکنالوجی، قانون اور سیکورٹی کے ادارے، دفاع اور رفاہ عامہ کے محکمے تمام کا تعلق خدمات سے ہے۔
مختلف ممالک کی معیشت میں اِن شعبوں کا تناسب مختلف ہے لیکن موجودہ دور میں معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی، غربت میں کمی، خوشحالی اور آسودگی میں صنعتی شعبے کا کردار بہت اہم ہے۔ معاشی ترقی کی دوڑ میں وہ ممالک جو بہت آگے ہیں اُن کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں صنعتی شعبے کا تناسب زیادہ ہے۔ مثلاً چین کی مجموعی قومی پیداوار میں اس شعبے کا تناسب 44 فی صد، ملائیشیا میں 40 فی صد، جاپان میں 30 فی صد اور انڈیا میں 26 فی صد ہے۔ جب کہ پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار میں سکڑتے سکڑتے 20 فی صد رہ گئی ہے۔ صنعتی شعبے میں اضافے سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے اور کرنسی کی قدر مستحکم رہتی ہے۔ پاکستان میں بے روزگاری، برآمدات میں کمی، کرنسی پر دباؤ وغیرہ کی اہم وجہ مختصر اور محدود صنعتی سیکٹر ہے جو کئی معاشی مسائل کی بنیاد ہے۔ دوسری طرف اسد عمر صاحب کا کہنا ہے کہ ہم ملکی معیشت کو اسپتال کے آئی سی یو سے نکال کر وارڈ میں لے آئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ مریض اسپتال سے باہر کب آتا ہے۔