خطرہ ابھی ٹلا نہیں

302

بھارتی انتخابات کا آغاز ہوگیا ہے اس لیے بھارتی حکمرانوں کی طرف سے دھوکے سے کسی فوجی کارروائی کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ چند دن قبل ہی اخبارات میں کچھ اس طرح کی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ پاک بھارت کشیدگی ابھی ختم نہیں ہوئی، جنگی تیاریاں، سرحدوں پر بھاری پیمانے پر بھارتی فوج کی نقل و حرکت۔ بھارتی پائلٹ کی واپسی کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ حالات معمول پر آجائیں گے لیکن بھارت کی طرف سے بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حرکت دیکھی جارہی ہے پاکستانی سرحد کے نزدیک پنجاب اور راجستھان میں ملٹری ٹینکوں کی پیش قدمی اور فوجی دستوں کی تعیناتی کی جارہی ہے۔ کنٹرول لائن اور سرحد پر بھارتی فضائیہ کے طیارے گرج رہے ہیں۔ بھارتی بحریہ کے جہاز اور آبدوزیں پانیوں میں پیش قدمی کررہی ہیں۔ بھارتی فوجی ذرائع کہتے ہیں کہ دستوں اور ٹینکوں کی نقل و حرکت کی ایسی کوئی اطلاعات نہیں، پلوامہ حملے کے بعد دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر تھے تاہم پائلٹ کی واپسی اور عالمی دباؤکی وجہ سے کشیدگی میں کمی ہوئی، لیکن بھارتی فوج کے مصدقہ ذرائع سرحدوں پر جنگی تیاریوں کی جس طرح تصاویر شےئر کررہے ہیں وہ ایک الگ صورتحال بتارہی ہیں تصاویر میں یوپی کے ضلع جھانسی کے ہاہینہ کینٹ سے ٹینک ٹی 90 کی بہت زیادہ نقل و حرکت دیکھی گئی جنہیں پاکستانی سرحد پر لگایا جارہا ہے۔
دوسری طرف راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی صدارت میں کو کمانڈرز کا اجلاس ہوا جس میں سیکورٹی صورتحال اور ملک میں درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا جائزہ لیا گیا شرکاء نے اتفاق کیا کہ کسی بھی جارحیت یا ایڈونچر کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ 1971 کے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد سے بھارتی حکمران چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو وہ سب فتح کے نشے میں ہر وقت چور رہتے ہیں، حالاں کہ ان کی اس نام نہاد فتح میں بڑی طاقتوں کی خفیہ سازشیں، اقوام متحدہ کی مجرمانہ غفلت اور خود ہندوستان کا انتہائی ڈھٹائی سے بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کرکے مشرقی پاکستان پر فوجی چڑھائی کر کے پاکستانی فوج (جو مکتی باہنی سے مقابلہ کررہی تھی) کو بے دست و پا کرکے سرنڈر پر مجبور کردیا۔ جب کہ پاکستانی فوجوں کی تعداد تیس ہزار سے بھی کم تھی اور مقابلے پر ہندوستان کی ایک لاکھ سے زائد فوج تھی۔ پچھلے ایک سال سے مکتی باہنی کی شکل میں بھارتی فوجی ہی پاکستان کی فوج سے لڑرہے تھے۔ اور پاکستان نے البدر اور الشمس کی مدد سے مکتی باہنی پر قابو پا لیا تھا بھارت نے جب دیکھا کہ اس طرح تو یہ جنگ طول پکڑ جائے گی اور بھارتی فوج کا نہ صرف نقصان ہوتا رہے گا بلکہ ان کا مورال بھی ڈاؤن ہو جائے گا اس لیے اس نے 22نومبر 1971 کو مشرقی پاکستان پر کئی اطراف سے حملہ کردیا اور پھر بالآخر 16دسمبر کو ڈھاکا فال ہو گیا۔ بھارتی رہنماؤں کے پاکستان کے بارے میں کیا خیالات ہیں ذیل میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
بھارت نے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی رہنما ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کو قائم ہی نہیں ہونا چاہیے تھا اور یہ کہ پاکستانی قوم کو اپنا وجود برقرار رکھنے کا کوئی حق نہیں (30نومبر 1971 کو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا خطاب)
ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا اور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔ (دسمبر 1971 سقوط ڈھاکا کے بعد اندرا گاندھی کا خطاب)
آپ واقف ہیں کہ ہماری (نہرو) فیملی جب کسی کام کا وعدہ کرتی ہے تو اسے مکمل بھی کرتی ہے۔ ماضی میں بھی گاندھی فیملی نے جو کام شروع کیے تو ملک کی آزادی جیسے مقاصد حاصل کر کے دیے۔ پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیے اور بھارت کو اکیسویں صدی میں پہنچانے کے لیے رہنمائی کی۔ (2001 میں انتخابی مہم کے دوران راہول گاندھی کی تقریر)
ہم نے بنگلا دیش کے سوا بھی مان (وقار) کی خاطرمکتی باہنی کے ساتھ مل کر پاکستان سے لڑائی کی۔ ہندوستانی ان کے شانہ بشانہ لڑے اور ایک طرح سے بنگلا دیش کے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں ان کی مدد کی۔ (ڈھاکا 7جون 2015 بھارتی وزیر اعظم مودی کا اخباری کانفرنس میں بیان)
ہندوستانی سپاہی نو ماہ کی جنگ کے دوران بنگالی گوریلوں کے شانہ بشانہ اور باقاعدہ مسلح مزاحمتی فوجوں کے ہمراہ پاکستان کے خلاف لڑے (بھارتی وزیر اعظم مودی کا 8جون 2015 کو ڈھاکا یونیورسٹی میں خطاب)
یہ ہندوستانی رہنماؤں کے بیانات ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر فتح کے نشے میں چور پہاڑ کی چوٹی پر چودھری بنے بیٹھے ہیں اور اپنے پڑوسی ممالک کو گاؤں کے کمی کمینوں کے مانند سمجھتے ہیں۔ پاکستان کو وہ اپنے راستے کا کانٹا سمجھتے ہیں بہت دنوں سے ان کے دل میں یہ خواہش انگڑائی لے رہی تھی جس طرح امریکا نے ایبٹ آباد میں کارروائی کرکے اسامہ بن لادن کو پکڑ کے شہید کردیا تھا اسی طرح وہ بھی اندر گھس کر کوئی ایسی کارروائی کریں کہ وہ کہہ سکیں کہ ہم نے پاکستان میں دہشت گردی کے مرکز کو تباہ کردیا۔ اسی شوق میں پلوامہ کا ڈراما رچایا گیا۔ بھارتی رہنماؤں کی پاکستان دشمنی کی یہ انتہائی غلیظ اور گھٹیا سیاست ہے کہ وہ خود اپنے فوجیوں کو کسی حادثے میں مروا کر پاکستان پر الزام لگاتا ہے اور پوری دنیا میں اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 26فروری کو پاکستان کے علاقے میں بھارتی طیاروں کی بمباری سے جیش محمد کے ایک تربیتی مرکز کو تباہ کرنے اور ساڑھے تین سو دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبریں پوری دنیا میں پھیلائی گئیں بھارتی الیکٹرونک میڈیا نے بھی تمام صحافتی اقدار کو ملیا میٹ کرکے نہ صرف اس جھوٹی خبر کو پھیلایا بلکہ اس پر ٹاک شوز بھی کر ڈالے، تین تین فٹ کی خواتین اینکرز چھ چھ فٹ اچھل کر بات کررہی تھیں۔
27فروری کو دوسرے دن پاکستان کی طرف جو جواب دیا گیا وہ بھارتی رہنماؤں کے شاید خواب و خیال میں بھی نہ تھا دو مگ 21تو پاکستانی شاہینوں نے گرائے لیکن گھبراہٹ میں انہوں نے پاکستانی طیارہ سمجھ کر اپنا ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا جس میں چھ فوجی ہلاک ہوئے اب اس کی تحقیقات ہورہی ہیں ذمے داران کے خلاف کورٹ مارشل ہوگا۔ پاکستان کی طرف سے بھرپور جواب کے بعد بھارت کو کسی جوابی کارروائی سے باز رکھنے کے لیے بھارت پر عالمی دباؤ اتنا شدید تھا کہ وہ کچھ نہ کرسکا اس وقت بھارت دنیا میں تنہائی کا شکار ہو گیا۔ پاکستان کو جواب نہ دینے کا جو غم ہے اس نے بھارتی حکمرانوں کی رات کا چین اور دن کا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ بھارت اپنا گال سہلانے کے ساتھ غصے میں اپنا ہونٹ بھی چبا رہا ہے کہ اس پاکستان کی ایک بھرپور کارروائی نے اس کی ساری پول کھول دی۔ جس طرح کسی محلے میں کسی بدمعاش کا بہت رعب داب ہوتا ہے لیکن جب وہ بدمعاش صاحب کسی بچے سے پٹ جاتے ہیں تو ان کی ساری اکڑ اور بھرم ختم ہو جاتا ہے بھارت کسی بھی کارروائی سے پہلے یہ سوچ لے کہ پاکستانی قوم 1971 کا سانحہ ابھی بھولی نہیں ہے۔ ستائیس فروری کو اگر حکومت کی طرف سے کہیں یہ اعلان ہوجاتا کہ سرحد پر جا کر بھارتی فوج سے لڑنا ہے لوگ اپنا نام لکھوائیں دیکھتے پھر اس دن کیا حال ہوتا کہ انتظامیہ کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔