وسعت اللہ خان کی تعلیم و تربیت کے لیے

665

ہمیں معروف کالم نگار وسعت اللہ خان کی تعلیم و تربیت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ اقدار مشرقی یا مغربی تھوڑی ہوتی ہیں بلکہ اقدار تو ساری دنیا کا مشترکہ سرمایہ ہیں، اقدار کے حوالے سے مشرق جو کچھ کہتا ہے مغرب بھی وہی کچھ کہتا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ بھی کہا کہ اگر مشرقی و مغربی اقدار میں فرق ہے تو کوئی ہمیں تعلیم دے کہ یہ فرق کیا ہے۔ یہ وسعت اللہ خان کے کالم کا اجمال ہے۔

وسعت اللہ خان نے اس سلسلے میں علم کی جو گنگا بہائی ہے اس کا دیدار انہی کے الفاظ میں کیجیے، لکھتے ہیں۔

مجھ کند ذہن کو جو چند چیزیں شاید کبھی سمجھ میں نہ آسکیں ان میں بچپن سے اب تک گھر سے ریاست تک گونجنے والا یہ جملہ بھی ہے۔

’’ یہ بات ہماری روایات و رواج و مشرقی اقدار کے خلاف ہے ’’ یا

‘‘ دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ ہمیں اپنی اقدار سے محروم کرکے اپنی ہی طرح بے غیرت بنادیں، ہم یہ نہیں ہونے دیں گے‘‘۔

:کبھی کبھی یہ جملہ یوں ہوجاتا ہے کہ

فلاں فلاں سوچ، قدم، بات اور آئیڈیا ہماری مذہبی و مشرقی روایات سے لگا نہیں کھاتا، لہٰذا ہم ڈٹ کر ان روایات سے ہٹنے یا مسخ کرنے والوں کا مقابلہ کریں گے۔

مجھے کوئی مسئلہ نہیں اپنی مشرقیت، ریتی رواج اور اقدار پر عمل پیرا ہونے میں بس اگر یہ پتا چل جائے کہ اس روایاتی اقداری زنبیل میں ایسا کیا ہے جو صرف ہمارے پاس ہے اور باقی دنیا اس سے محروم ہے؟ اور یہ مشرقی روایات کس علاقے میں پائی جاتی ہیں، پورے ایشیا، افریقا و لاطینی امریکا میں یا صرف ایشیا میں یا صرف برصغیر میں یا صرف شمالی ہندوستان میں یا صرف پاکستان میں یا صرف مسلمانوں میں یا صرف دینی مدارس میں؟ آخر کون یہ پوشاک سیتا ہے تا کہ ہم سب اسے پہن کے ایک سے ہوجائیں؟۔

مجھے یہ تو معلوم ہے کہ سچ بولنا، دوغلے پن سے پرہیز، بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت، جرم کی حوصلہ شکنی، قانون پسندی، نجی زندگی کی تکریم، نفرت انگیزی سے پرہیز، جانوروں کو اذیت نہ دینا اور ایسی دسیوں اقدار پر ایک سیاہ فام زولو قبائلی سے لے کر برطانوی گورے تک، مسلمان سے ملحد تک، امیر سے غریب تک، پپوانیوگنی سے لے کر قطب شمالی کے اسکیمو تک سب کا اتفاق ہے اور سب اپنے اپنے انداز میں ان پر عمل پیرا نہ بھی ہوں تو عمل پیرا ہونے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں۔

ان سے ہٹ کے ایسی کون سی اقدار ہیں جو بس ہماری ملکیت ہیں اور باقی دنیا ان سے ناواقف ہے؟ اور ایسی کون کون سی برائیاں ہیں جو باقی دنیا میں ہیں مگر ہم ان سے خاصی حد تک پاک ہیں؟ اگر اس کے علاوہ بھی کچھ ہے تو میں ضرور چاہوں گا کہ کوئی میری تعلیم کرے۔

مثلاً دنیا کا ایسا کون سا مذہب یا نظریہ ہے جو اپنے پیروکاروں کو کہتا ہے کہ سچ بولنا حرام اور جھوٹ بولنا حلال ہے، خبردار اگر کسی نے کمزور کی مدد کی تو ہم سے بُرا کوئی نہ ہوگا۔ کاٹ کے رکھ دیں گے اگر کسی نے کسی بیمار کی خبر گیری کی، یا بھوکے کو کھانا کھلایا یا بے سہارا کے سر پے ہاتھ رکھا۔ زندہ جلادیں گے اگر کسی نے کسی کو جانوروں پر تشدد سے روکا، ریپ نہیں کیا تو مار ڈالیں گے۔ اگر ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا اور ہوتا ہے تو انتہائی بُرا سمجھا جاتا ہے تو پھر کون سی اضافی جنوبی، شمالی، مغربی، مشرقی اقدار؟‘‘۔

(روزنامہ ایکسپریس ۔ 30 مارچ 2019ء)

وسعت اللہ خان کی تعلیم و تربیت کے لیے پہلی بات یہ عرض ہے کہ اقدار کسی تہذیب کے ان بنیادی اور اسی تصورات سے جنم لیتی ہیں جو کسی تہذیب کی تعریف متعین کرتے ہیں۔ یعنی اقدار اپنے آپ وجود میں نہیں آتیں بلکہ وہ کسی تہذیب کے اساسی تصورات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

مثلاً تمام مذہبی تہذیبوں کا بنیادی تصور خدا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے سوا تمام دیگر مذہبی تہذیبوں نے ایک خدا کے تصور کو بدل ڈالا ہے۔

عیسائی تہذیب نے تثلیث ایجاد کرلی اور اس نے ایک خداکو تین خداؤں میں ڈھال دیا۔ یعنی خدا، اس کا بیٹا اور روح القدس۔

ہندوازم میں بھی ایک خدا کا تصور موجود ہے مگر ہندوؤں نے بھی ایک سطح پر تین خدا یعنی برہما، وشنو اور شیو ایجاد کرلیے ہیں اور دوسری سطح پر انہوں نے 33 کروڑ خدا بنالیے ہیں۔

اب کہنے کو اسلام، عیسائیت اور ہندوازم تینوں خدا کو مانتے ہیں اور وسعت اللہ کے ’’نزدیک ایک جیسے ‘‘ ہیں اور انہوں نے کبھی بھی خدا کا بت بنانے اور بت پرستی کو عبادت کے ایک طریقے اور ایک ’’مذہبی قدر‘‘ کے طور پر رائج کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر عیسائیت میں تثلیث کے عقیدے نے سیدنا عیسیٰؑ کو انسان اور پیغمبر کے مرتبے سے بلند کرکے ’’الوہیت‘‘ سے ہمکنار کردیا۔ اس سے عیسائی مذہب اور ’’کرسچن آرٹ‘‘ کی اقدار بدل کر رہ گئیں۔

آپ گرجا گھر میں جاتے ہیں تو اس کی تعمیر پر اسرارِ مسیح یا Mystery of the christ کا سایہ ہوتا ہے۔ گرجا گھر میں سیدنا عیسیٰؑ کا بت ایستادہ ہوتا ہے۔ سیدنا عیسیٰؑ کی صلیب عیسائی گلے میں پہنتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کا اسلامی تہذیب میں نام و نشان تک نہیں۔ مسلمان رسول اکرمؐ سے جیسی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں وہ ظاہر ہے مگر مسلمانوں کا سوادِ اعظم رسول اکرمؐ کو انسان ہی سمجھتا ہے اور ان سے کسی قسم کی الوہیت وابستہ نہیں کرتا۔ ہندو ازم میں چوں کہ خداؤں کی تعداد بہت ہوگئی اس لیے ہندو ازم میں بت پرستی ہندو ازم کی سب سے بڑی ’’قدر‘‘ بن گئی۔ ہندوؤں کے مزاج میں اتنا غلو ہے کہ انہوں نے خداؤں ہی کے نہیں اپنی مقدس ہستیوں مثلاً کرشن اور رام کے بھی بت بنا لیے ہیں اور وہ ان ہستیوں کی بھی پوجا کرتے ہیں۔ کیا مسلمانوں میں بھی کہیں ایسی ’’اقدار‘‘ پائی جاتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ اگر تین مشرقی مذاہب میں اقدار کے اعتبار سے اتنا فرق ہے تو مشرق و مغرب کی اقدار میں کتنا فرق ہوگا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق مذہب پرست اور جدید مغرب مذہب کا منکر ہے۔

کہنے کو انسان ایک ’’آفاقی لفظ‘‘ ہے۔ مگر اسلامی تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کے دائرے میں اس لفظ کے معنی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسلام انسان کو ’’عبد‘‘ کہتا ہے، ’’خلیفۃ اللہ‘‘ کہتا ہے، روحانی وجود کہتا ہے، نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ کا حامل قرار دیتا ہے۔

جدید مغرب کہتا ہے جب کوئی معبود ہی نہیں ہے تو انسان ’’عبد‘‘ کیسے ہوگا؟ جب کوئی اللہ ہی نہیں تو روئے زمین پر اس کا ’’خلیفہ‘‘ کہاں سے آئے گا؟ جدید مغرب کہتا ہے کہ انسان روحانی نہیں ایک جسمانی حقیقت ہے اور اس کے اندر کسی نفس امارہ، کسی نفسِ لوامہ اور کسی نفسِ مطمئنہ کا کوئی وجود نہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کا انسان کچھ اور ہے اور مغرب کا انسان کچھ اور۔ چوں کہ دونوں کا تصور انسان مختلف ہے اس لیے ان انسانوں کی ’’اقدار‘‘ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی۔ مثلاً

اسلام کے انسان کی ایک قدر حق اور باطل ہے۔ ایک قدر حلال و حرام ہے۔ جدید مغرب کے انسان کے نزدیک حق و باطل کا کوئی وجود ہی نہیں اور اس کے نزدیک حلال و حرام کی بحث ’’ماضی کی یادگار‘‘ ہے۔

اس فرق کو مزید واضح کرنے کے لیے عرض ہے کہ

اسلام میں شراب حرام ہے اور مغرب میں شراب حلال ہے۔
اسلام میں ہم جنس پرستی گناہ عظیم ہے، مغرب میں ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہے،
اسلامی تہذیب میں تحریم کے رشتوں میں جنسی تعلقات کا تصور نہیں کیا جاسکتا مگر مغرب میں کروڑوں لوگ محرمات کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں۔

اب اگر وسعت اللہ خان کے لیے یہ تمام ’’اقدار‘‘ مشترک ہیں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ البتہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک یہ اقدار صرف مغرب کا ’’تشخص‘‘ ہیں۔

کہنے کو ’’علم‘‘ کا لفظ بھی آفاقی اور عالمگیر ہے اور وسعت اللہ خان اسے بھی وسیع تر انسانیت کا حصہ سمجھتے ہوں گے مگر

اسلام اور مغرب کی علمی اقدار میں بھی فرق ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک سب سے برتر علم ’’علم وحی‘‘ ہے۔ اس کے برعکس جدید مغرب علم وحی کا سرے سے قائل ہی نہیں۔ اس کے نزدیک جب خدا ہی موجود نہیں تو رسول کہاں سے موجود ہوں گے اور جب خدا اور رسول ہی نہیں تو علم وحی کا بھی وجود نہیں۔ جدید مغرب کے نزدیک سب سے برتر علم ’’سائنسی علم‘‘ ہے۔

سائنسی علم مشاہدے اور تجربے پر کھڑا ہے۔ چناں چہ جو چیز مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہوجاتی ہے مغرب اسے ’’حقیقت‘‘ Reality یا ’’Fact‘‘ کہتا ہے۔

چوں کہ وجود باری تعالیٰ مشاہدے اور لیبارٹری ٹیسٹ سے ثابت نہیں ہوسکتا اس لیے مغرب کے نزدیک خدا محض ایک ’’تصور‘‘ ہے۔ ’’Reality‘‘ اور ’’Fact‘‘ نہیں۔

ساری دنیا ’’عقل‘‘ کو ایک آفاقی لفظ سمجھتی ہے۔ اردو ادب کے سب سے بڑے نقاد محمد حسن عسکری نے اپنی معرکہ آرا تصنیف جدیدیت یعنی مغربی فکر کی گمراہیوں کا خاکے میں بتایا ہے کہ ایک زمانے میں مغرب Intellect اور Reason یعنی ’’عقلِ کلی اور ’’عقل جزوی‘‘ کے فرق سے آگاہ تھا مگر کئی صدیوں سے اب وہ Reason یا عقلِ جزوی ہی کو عقل سمجھتا ہے۔ Reason یا عقل جزوی تجزیہ کار عقل ہے۔ یہ چیزوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ان کی حقیقت کو سمجھتی ہے۔ چناں چہ وہ کبھی بھی کسی چیز کی پوری حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی۔

اس عقل کی اس سے بھی بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ وحی کی منکر ہے۔ چناں چہ یہ وحی کے علم سے استفادہ ہی نہیں کرتی۔ اس کے برعکس اسلامی تہذیب میں ’’ابھی تک‘‘ اس بات کا تصور موجود نہیں کہ عقل وحی کی منکر ہوگی اور وحی کی روشنی اور رہنمائی سے استفادہ نہیں کرے گی۔ دوسری جانب اسلام Reason اور Intellect دونوں کو اپنی اپنی جگہ تسلیم کرتا ہے اور اسلام کی فکری تاریخ میں کشف والہام یا Intellect سے برآمد ہونے والے Intellection کی ایک طویل روایت ہے۔ زندہ روایت۔ ظاہر ہے کہ اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں عقل کے تصورات کے مختلف ہونے سے بھی ’’اقدار‘‘ بدل گئی ہیں۔

بلاشبہ آفاقی اخلاقی اقدار کا تصور ہر جگہ موجود ہے۔ مغرب میں بھی۔
چناں چہ جس طرح قتل اسلام میں ممنوع ہے اسی طرح مغرب میں بھی ممنوع ہے۔
جھوٹ کو اسلام میں بھی بُرا خیال کیا جاتا ہے اور بے خدا جدید مغرب میں بھی اسے بُرا ہی سمجھا جاتا ہے۔
لیکن بدقسمتی سے جو یہ مغربی تہذیب نے آفاقی اخلاق کے بھی پرخچے اُڑا دیے ہیں۔ مثلاً

اسلام کہتا ہے اخلاقی تصورات اور اخلاقی اقدار مطلق یا Absolute اور دائمی ہیں۔ مگر جدید مغرب کہتا ہے کہ اخلاق مطلق یا Absolute نہیں ہوتا بلکہ اضافی یعنی Relative ہوتا ہے۔ چناں چہ اخلاق دائمی نہیں ہوتا عارضی ہوتا ہے اور اخلاقی اقدار زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ مثلاً

ایک زمانہ تھا کہ مغرب میں شراب پینا بُرا سمجھا جاتا تھا اور ناجائز جنسی تعلقات کو قبول نہیں کیا جاتا تھا مگر اب مغرب میں شراب اور زنا قابلِ قبول ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر زنابالرضا۔ اس سلسلے میں اسلام اور اسلامی تہذیب کا تصور واضح اور دو ٹوک ہے اسلام کہتا ہے جو اخلاق مطلق اور دائمی نہیں وہ اخلاق کہلانے ہی کا مستحق نہیں۔

چناںچہ اگر دنیا کے ساڑھے سات ارب انسان بھی کہہ دیں کہ شراب اور زنا حلال ہیں تو اسلام اس کو قبول نہیں کرے گا۔

مغرب میں ’’افادی اخلاق‘‘ یا Utilitarian Morality کا بھی ایک تصور پایا جاتا ہے۔ یہ اخلاق کہتا ہے کہ اگر کسی کام کو کرنے سے ’’فائدہ‘‘ ہوتا ہے وہ کام ’’اچھا‘‘ ہے لیکن اگر کسی کام کو کرنے سے نقصان ہوتا ہے تو وہ چیز بُری ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ اخلاق کبھی افادی نہیں ہوتا۔ سچ بولنے سے خواہ نقصان ہو مگر مسلمان کو سچ بولنا چاہیے۔ جھوٹ سے خواہ کتنا ہی ’’فائدہ‘‘ ہو مگر مسلمان کو جھوٹ سے گریز کرنا چاہیے۔ اخلاق کے اس تصور کے امتیاز سے بھی اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کی اقدار بدل جاتی ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مغرب میں ویسے تو ایک فرد کا قتل بھی جرم ہے مگر جہاں مغرب کا ’’فائدہ‘‘ ہوتا ہے وہاں وہ لاکھوں انسانوں بالخصوص مسلمانوں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ مثلاً عراق پر امریکا اور یورپ نے اقتصادی پابندیاں لگائیں ان پابندیوں سے عراق میں غذا اور دواؤں کی قلت ہوگئی۔ اس قلت سے پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ عام عراقی ہلاک ہوگئے۔ امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائیٹ سے بی بی سی ورلڈ کے صحافی نے پوچھا کہ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا۔ Itis acceptabe and worthits۔ جاپان پہ ایٹم گرانے میں امریکا کا فائدہ تھا ساری دنیا پر اس کا خوف طاری ہونے والا تھا۔ چنانچہ امریکا نے کسی اخلاقی کشمکش سے دوچار ہوئے بغیر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرادیے۔

یہ ہے مغرب کا ’’افادی اخلاق‘‘۔ یہ ہے مغرب کا اضافی یا Relative اخلاق۔ اس فرق سے بھی اسلامی معاشرے اور مغربی معاشرے کی اخلاقی اقدار میں بڑا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔
اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اسلام میں قتل، زنا، چوری اور جھوٹ جرم بھی ہیں اور اس سے بڑھ کر گناہ بھی۔ ان کے برعکس مغرب میں یہ چیزیں صرف جرم ہیں اور جرم صرف ایک ’’قانونی مسئلہ‘‘ ہے۔

دنیا میں قوانین کی بڑھتی ہوئی تعداد بتارہی ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ ناقابل اعتبار ہوتا جارہا ہے اور انسان نے قانون کی پامالی کو عام کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب معاشرتی سطح پر جھوٹ بولتا ہو یا نہ بولتا ہو ریاستی سطح پر کئی دہائیوں سے جھوٹ بولے چلا جارہا ہے۔

وہ کہتا ہے کہ وہ آزادی پر یقین رکھتا ہے مگر اسے اپنے سوا کسی کی آزادی عزیز نہیں۔

وہ کہتا ہے کہ وہ جمہوریت پر ایمان رکھتا ہے مگر وہ کسی مسلم ملک میں اسلامی تحریک کو جمہوری راستے سے اقتدار میں نہیں آنے دیتا۔

ایسے حقائق کی روشنی میں صرف جاہل، احمق اور مغرب کے ایجنٹ ہی مغرب کی اخلاقیات کو سراہ سکتے ہیں۔