بیبی سی کے مدیرِ عالمی امور جان سمپس اور دیگر غیر ملکی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے اور بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے جن خاص خاص باتوں کا ذکر کیا وہ کچھ یوں ہیں۔ آسیہ بی بی کو جلد رہائی مل جائے گی اور وہ پاکستان چھوڑ جائیں گی۔ انہوں نے اس بات کا بھی یقین دلایا کہ آسیہ بی بی کی رہائی اور پاکستان چھوڑ جانے میں مہینے اور سال نہیں لگیں گے بلکہ بات فقط چند ہفتوں کی ہے۔ اگر انڈیا کے انتخابات میں مودی پھر سے کامیاب ہو جاتے ہیں تو امن مذاکرات بحال ہونے کے بہتر مواقع پیدا ہوں گے اس کے بر عکس اگر کانگریس انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو شاید وہ پاکستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کا حل تلاش کرنے میں تھوڑی جھجک کا شکار ہو کیوں کہ انہیں دائیں بازو کی جماعتوں کے ردِ عمل کا ڈر ہوگا۔ جب کشمیر کے مسئلہ کے متعلق بی بی سی کے مدیر عالمی امور جان سمپسن نے عمران خان سے پوچھا کہ وہ اس موقع پر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو کیا پیغام دینا چاہیں گے تو عمران خان کا کہنا تھا کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہو گا اور یہ مسئلہ ابلتا ہوا نہیں چھوڑا جا سکتا۔ عمران خان کا انڈیا میں جاری صورتحال کے بارے میں کہنا تھا کہ میں نے ایسا کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایسی صورتحال دیکھوں گا جو انڈیا میں جاری ہے جہاں مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ کبھی مسلمان وہاں بہت خوش تھے لیکن کئی برسوں سے وہ ہندو انتہا پسند قوم پرستوں کے باعث کافی پریشان ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ہم غربت کو کم کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ غربت کو کم کرنے کا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ دونوں ممالک کے درمیان صرف ایک اختلاف ہے جو کشمیر ہے۔
اس انٹرویو میں عمران خان نے دونوں ممالک کے درمیان تصادم کے خطرات کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا، جب آپ جواب دیتے ہیں تو کوئی بھی اس بات کی پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ وہ جواب کہاں تک جائے گا۔ اگر انڈیا پاکستان پر دوبارہ حملہ کرتا تو پاکستان کے پاس اس کا جواب دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ اس صورتِ حال میں دو جوہری مسلح ممالک میں جو ہوا، بہت غیر ذمے دارانہ تھا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے متعلق کیے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلی بار ان کے خلاف سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے۔ جیش محمد سمیت ہم ساری تنظیموں کو غیر مسلح کر رہے ہیں اور ان کے تحت چلنے والے مدرسوں کا کنٹرول پہلے ہی سنبھال چکے ہیں۔ جب ان سے چبھتا ہوا سوال کیا گیا کہ کیا آپ ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ان کے خلاف کارروائی کا عزم رکھتے ہیں کیوں کہ یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس حوالے سے بیرونی دباؤ نہیں ہے کیوں کہ یہ ہمارے مفادات میں ہے کہ ہمارے یہاں کوئی بھی عسکریت پسند گروہ نہیں ہو۔
ذیل میں ہم اس انٹر ویو کی خاص خاص باتوں کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اس بات کی وضاحت ہو سکے کہ پاکستان کے عوام کی اپنی رائے مذکورہ امور پر کیا ہے اور وہ ان تمام باتوں کے متعلق کیا سوچ رکھتے ہیں۔ اس انٹرویو میں پوچھے گئے ہر سوال کا جواب عمران خان نے نہایت مختصر لیکن بہت ہی جامع انداز میں دیا جس پر عمران خان ستائش کے قابل ہیں لیکن کچھ باتیں ایسی بھی اس میں شامل ہیں جو پاکستان کے عوام کو بہت ہی غیر متوقع اور حیران کر دینے والی لگی ہوں گی۔ مثلاً آسیہ بی بی کا معاملہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ آسیہ بی بی نے علی الاعلان جو کچھ کہا تھا اس کو کوئی بھی پاکستانی سننے اور برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ پھر یہ کہ ہائی کورٹ نے اس کے خلاف سزا بھی سنادی تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عدالت عظمیٰ نے آسیہ کے خلاف سنائے جانے والے حکم کو کالعدم قرار دے کر اس کی رہائی کا حکم بھی دیدیا تھا لیکن آسیہ کے خلاف اب بھی نظر ثانی کے تحت کیس چل رہا ہے اور جب تک عدالت عظمیٰ کا حتمی فیصلہ نہیں آجاتا اس وقت تک کسی بھی فرد کا، خواہ وہ وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو، کسی غیر ملک کے مدیر یا صحافیوں کو اس بات کا یقین دلانا کہ آسیہ بی بی چند ہفتوں میں بری ہوکر پاکستان سے چلی جائیں گی، کسی لحاظ سے مناسب نہیں۔ یہ امر بھی غور طلب ہے کہ غیر ملکیوں کا بار بار آسیہ کے متعلق پوچھنا، اس کی رہائی اور خیریت کی ضمانت لینا از خود اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان آسیہ کے سلسلے میں دباؤ کا شکار ہے اس لیے وزیر اعظم کا بار بار قوم سے یہ کہنا کہ ہم پر کوئی دباؤ نہیں، بے معنیٰ بات لگتی ہے۔
پاکستان ہر دور میں بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ نواز حکومت نے بھی ’’مودی‘‘ کے دور میں ’’امن کی آشا‘‘ کی خواہش رکھی لیکن یہ موجودہ وزیر اعظم اور ان کی پارٹی ہی کا نعرہ تھا کہ ’’جو مودی کا یار ہے غدار ہے‘‘۔ اسی لیے اس بات پر ہر پاکستانی کی حیرت ضرور بجا ہوگی کہ پاکستان کے وزیر اعظم اس بات کی تمنا رکھتے ہیں کہ مودی الیکشن جیت جائے کیوں کہ اْن کے نزدیک مودی کے آجانے سے دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ خوشگوار ہوجائیں گے اور کشمیر کا مسئلہ بھی مودی کی حکومت میں بآسانی حل ہو جانے کا امکان زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسا حیرت انگیز خیال ہے جس پر ہر پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ پھر مودی کی یار گزشتہ حکومت ہوئی یا موجودہ۔ مودی حکومت جو کچھ اپنے قبضے میں لیے ہوئے کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ کر رہی اور جس بیدردی کے ساتھ ان کا لہو بہارہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے عمران خان کی یہ بات کہ مودی کے آجانے سے مسئلہ کشمیر حل ہوجانے کے امکانات زیادہ ہیں، حلق میں ہی پھنس کر رہ گئی ہے۔ رہی یہ بات کہ دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف پہلی بار سنجیدہ کوشش کا دعویٰ ایک ہوائی ہی لگتا ہے۔ جن جن کے خلاف ایسی ’’سنجیدہ‘‘ کوششیں ہو رہی ہیں کاش پورے پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف پہلے جو بھی ’’غیر سنجیدہ‘‘ کوششیں ہوتی رہیں، ان پر بمباری کی جاتی رہی، ان کو گرفتار کرکے بیدردی کے ساتھ مارا گیا، ان کو لاپتا کر دیا گیا، کاش ان کے خلاف بھی اب جیسی ’’سنجیدہ‘‘ کوششیں کر لی جاتیں تو پاکستان کا اتنا زیاں نہ ہوتا جو غیر سنجیدہ کوششوں کی صورت میں ہوا۔
دوران انٹرویو یے گئے جواب میں انڈین (مودی) حکومت سے متعلق ایک تضاد بھی سامنے آیا۔ ایک جانب وہ مودی کے انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہوجانے پر کشمیر کے مسئلے کو حل ہوتا ہوا اور بھارت کو پاکستان سے نزدیک تر آتا ہوا بھی دیکھ رہے ہیں لیکن دوسری جانب وہ یہ کہتے بھی نظر آرہے ہیں کہ کئی برسوں سے جو مسلمان انڈیا میں خوش تھے اور امن محسوس کر رہے تھے وہ موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے سخت پریشان اور غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مودی سرکار مسلمانوں کے حق میں اچھی نہیں ہے، معترف ہے اس بات کی کہ احمد آباد میں جو کچھ ہوا وہ درست تھا اور اگر مسلمانوں نے ان کی حکومت کے خلاف رد عمل دیا تو ہم وہی کریں گے جو گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا تو ایسی صورت میں ایک جانب ان سے خوش گمانی اور دوسری جانب وزیر اعظم کا یہ فرمانا کہ ’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایسی صورتحال دیکھوں گا جو انڈیا میں جاری ہے جہاں مسلمانوں پر حملے کیے جا رہے ہیں‘‘۔ ایک طرح کی تضاد بیانی نہیں تو کیا ہے۔ غربت کے خاتمے کے حوالے سے دونوں ممالک میں کشیدگی کے خاتمے کے لیے دوریوں کا ختم کیا جانا، تعلقات کا خوش گوار ہونا اور ان سب مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کشمیر کے سلگتے ہوئے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہوجانے کی تجویز بلاشبہ ایک بہت ہی مثبت سوچ کی حامل بات ہے جس کا اظہار خان صاحب نے دورانِ انٹرویو کیا۔