بلاول ٹھیک ہی کہتے ہیں

293

بھٹو کے سیاسی سفر کا آغاز ایوب خان کے دور میں ہوا۔ 1958ء میں وہ ایوب خان کی کابینہ میں جونیئر وزیر کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ ایوب خان کے لے پالک بیٹے کے طور پر انہوں نے سیاسی نشو نما پائی اور فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کا ساتھ دیا۔ بالآخر ایوب خان کے زوال کا اشارہ پاتے ہی اُن سے علیحدگی اختیار کرلی۔ 1967ء میں انہوں نے ایک نئی پارٹی پی پی پی بنائی اور محض تین سال میں اُسے اس مقام پر پہنچادیا کہ وہ مغربی پاکستان کی مقبول ترین پارٹی بن گئی اور حکومت حاصل کرلی۔ یہ تین سال کی کامیابی آج بڑی عجیب نظر آتی ہے جب کہ پی ٹی آئی کی عشروں کی جدوجہد کے بعد بھی اُس کی اقتدار تک پہنچ کو شک و شبہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اُس وقت بھی کسی نے بھٹو کی تین سال کی کامیابی اور اقتدار کے حصول پر سوال اُٹھایا ہوگا لیکن شاید اس پر توجہ نہیں دی گئی۔
یہ بات بہرحال ایک اٹل حقیقت ہے کہ 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی ہوئی پیپلز پارٹی نے 1970ء میں یعنی کُل تین سال میں اقتدار حاصل کرلیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی کُل 300 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے محض 81 نشستیں حاصل کی تھیں، اُن کے مد مقابل شیخ مجیب الرحمن نے اُن سے دوگنی تعداد میں نشستیں حاصل کی تھیں، یعنی 160 نشستیں حاصل کی تھیں۔ بھٹو نے شیخ مجیب کی واضح کامیابی کے باوجود اقتدار اُن کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ بھٹو کا نعرہ تھا ’’اُدھر تم اور اِدھر ہم‘‘۔ یحییٰ خان نے بھٹو کا ساتھ دیا اور پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا۔ متحدہ پاکستان کو دو ٹکڑوں میں بانٹنے والے بھٹو کو اقتدار مل گیا۔ لیکن یہ اقتدار اُن کی پھانسی پر ختم ہوا۔دسمبر 1971ء کو وہ پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے، اقتدار کے حصول کے بعد ان کی سیاسی زندگی اپنے حریفوں کو نشان عبرت بناتے گزری۔ دوسری دفعہ اقتدار میں آنے کے لیے انہوں نے ہر حربہ آزمایا۔ عوام پر براہ راست گولیاں چلائی گئیں، قید خانے سیاسی مخالفوں سے بھر گئے، جن پر تشدد کے حربے آزمائے جاتے رہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے نئے اور پرانے طریقے اختیار کیے لیکن عوام انہیں مسترد کرچکے تھے۔ ملک کا سیاسی سفر روک دیا گیا۔ یہی وہ بات تھی جس نے بھٹو کو طاقت دی۔ پُرامن اور غیر جانبدار انتخابات اگر ہوتے رہیں تو سیاست میں تبدیلی کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ غیر حقیقی تبدیلی غیر حقیقی سیاست کو جنم دیتی ہے۔ اکیاون سالہ پیپلز پارٹی کا سفر اقتدار کی غلام گردشوں میں یا اس کے قریب گزرا ہے۔ انہیں چار مرتبہ اقتدار ملا لیکن روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی نے عوام کے دُکھ درد کے لیے کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ اُسے اب بھی سر پر بٹھاتے۔ لہٰذا آج پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن اس سے علیحدگی اختیار کررہے ہیں۔
راولپنڈی کے وحید احمد بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر سے بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی تصاویر نکال کر باہر پھینک دی ہیں اور اب میں نے پیپلز پارٹی کو چھوڑ دیا ہے۔ حالاں کہ راولپنڈی کے اس محلے میں سیکڑوں پارٹی کے کارکنان تھے۔ لیکن اب کوئی پیپلز پارٹی کو یاد نہیں کرتا۔ حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سیاسی گڑھ لیاری میں اسے شکست ہوگئی تھی، علاقے کے لوگ کہتے ہیں کہ لیاری سے پیپلز پارٹی کا ہارنا حیران کن نہیں ہے کیوں کہ لیاری نے نہیں پیپلز پارٹی نے بہت پہلے لیاری کو چھوڑ دیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے چالیس سال بعد آج کی نسل کے لیے بھٹو کی اہمیت یہ رہ گئی ہے کہ ان کی پھانسی کے دن سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت چھٹی دے دیتی ہے اور وہ چھٹی انجوائے کرتے ہیں۔ آج کے نوجوان کا آئیڈیل ہرگز بھٹو نہیں رہا۔ ان کے نواسے بلاول زرداری بھٹو بن کر اپنی اور اپنے باپ کی کرپشن بچانے کے لیے ٹرین کارواں نکال رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ بھٹو کے نام سے مخالفین کی چیخیں نکل جاتی ہیں، اُن کا کہنا ایک لحاظ سے ٹھیک ہی ہے۔ آج چالیس سال بعد جب ذوالفقار علی بھٹو جونیئر ایک مخنّث کے روپ میں اسٹیج پر پرفارم کرتے ہیں اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ ’’ہائے۔۔۔ میں ذوالفقار علی بھٹو ہوں‘‘ تو کیا حمایتی کیا مخالفین سب ہی کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔