سندھ کی تقسیم کا ’’نفیس‘‘ اعلان

515

نفیس ترین لوگوں میں سے ایک نے بڑی نفاست سے سندھ کی تقسیم کی خبر دی ہے۔ وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ سندھ تقسیم ہو چکا۔ صرف اعلان باقی ہے، کراچی میں تعینات زیادہ تر وزیروں کا تعلق اندرون سندھ یا پھر دیگر صوبوں سے ہے۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ شہر قائد میں فسادات ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم کو سندھ کے معاملات میں مداخلت کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم میں عوام سے دھوکا کیا گیا۔ شاید اسی حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول زرداری نے فرمایا ہے کہ وزیر اعظم سندھ آ کر عوام کے حقوق چھیننے کی کوشش نہ کریں، خیر بلاول کے بیان کو تو بچگانہ باتیں کہا جا سکتا ہے لیکن خالد مقبول صدیقی کو نفیس ترین لوگوں قرار دینے والے وزیر اعظم کو بھی اس بیان کا نوٹس لینا ہو گا۔ سندھ کے معاملات میں وزیر اعظم کی دلچسپی مداخلت قطعاً قرار نہیں دی جا سکتی لیکن جو لوگ انہیں مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں اور بقول ان کے وہ نفیس ترین ہیں ان کی جانب سے سندھ کی تقسیم کے بیان کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ خالد مقبول صدیقی نے 1987ء والی ایم کیو ایم بحال کرنے کا اشارہ دیا ہے جس نے زبان کی بنیاد پر نفرت پیدا کی اور اپنے ووٹ کو مضبوط کیا تھا۔ سندھی مہاجر بھائی بھائی، دھوتی نسوار کہاں سے آئی کا پہلا نعرہ اسی ایم کیو ایم نے دیا تھا۔ پھر جب دھوتی نسوار جن لوگوں کی علامت ہے ان سے اچھی طرح لڑائی لڑ چکے اور نفرتوں کے بیج تناور درخت بن گئے تو مہاجر سندھی جھگڑے کرا دیے۔ اس کے بعد تو مہاجر مہاجر جھگڑے بھی کرا ڈالے یہاں تک کہ پاک فوج، پولیس، رینجرز سب کو نشانہ بنا ڈالا۔ اب انہوں نے شکوہ کیا ہے کہ کراچی میں تعینات زیادہ تر افسران کا تعلق اندرون سندھ۔۔۔ یا دیگر صوبوں سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے صوبوں یا اندرون سندھ سے یہ افسران ایک رات میں تو آ کر بیٹھے نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ اسمبلی سے خال خال ہی باہر ہوتی ہے۔ جب سے سیاست میں آئی ہے اقتدار سے کم ہی باہر رہی ہے۔ اس کے ارکان اسمبلی بھی الطاف گروپ پر پابندی کے باوجود وہی لوگ ہیں جو الطاف حسین کے نامزد تھے۔ ممکن ہے بعد میں کسی اور کے قلمزد ہو گئے ہوں۔ تو پھر یہ لوگ کیا کر رہے تھے جب اندرون سندھ یا بیرون صوبے سے افسران لا کر متعین کرائے جا رہے تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی صوبے سے یا اندرون و بیرون سندھ سے افسران کا آنا اور متعین ہونا کوئی اہم بات نہیں اہم بات یہ ہے کہ یہ لوگ اہلیت کے معیار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں اگر اہلیت پر پورے اترتے ہیں تو اعتراض کیا۔
وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی کا بیان اس اعتبار سے بہت خطرناک ہے کہ انہوں نے سندھ میں افسران کے دوسرے شہروں اور علاقوں سے کراچی میں متعین ہونے پر فسادات کی دھمکی دی ہے۔ وہ خود وفاقی وزیر ہیں سندھ میں ان کی پارٹی اپوزیشن میں ہے لیکن اس سے قبل وہ حکومت میں تھی انہوں نے ایسا معیار کیوں مقرر نہیں کیا کہ اہل لوگ متعین کیے جاتے۔ غالباً ان کا اشارہ پولیس افسران کے حوالے سے زیادہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں پولیس افسران کی بڑی تعداد اندرون سندھ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ شکوہ بھی بجا ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پہلے یہ افسران پنجاب سے تعلق رکھتے تھے ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لوکل پولیس کا جو تصور ساری دنیا میں ہے اس پر تو عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ لیکن لسانی بنیاد پر تقرر اور اس کے خلاف احتجاج بہر حال ہوتا رہتا ہے۔ خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم سندھ کے معاملات میں مداخلت کریں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ پی ٹی آئی والے وزیراعظم سے کہہ رہے ہیں کہ بلدیہ کراچی کے معاملات میں مداخلت کریں اگر پیپلز پارٹی سندھ کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے تو ایم کیو ایم کو اعتراض نہیں لیکن اگر وہی پی ٹی آئی بلدیہ کراچی میں اپنا مےئر لانے کی کوشش کرے تو خالد مقبول کیا کہیں گے۔ کراچی تو سندھ کا دارالحکومت ہے۔ خالد مقبول کے بیان سے بہر حال یہ معاملہ سامنے آیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور وفاق کو اقتدار پر قبضے کی جنگ سے نکل کر اس سنجیدہ مسئلے پر توجہ دینی ہو گی۔ اگر کراچی میں دوسرے علاقوں کے افسران کے تقرر سے کوئی رد عمل پیدا ہو رہا ہے تو حکومت اس پر توجہ دے مسئلے کو بڑھنے اور خالد مقبول کی دھمکی کے حوالے سے خطرناک نہج پر نہ پہنچنے دے۔ ویسے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فسادات ایم کیو ایم اور لسانی پارٹیوں کے لیے زندگی ہیں لہٰذا انہیں اپنی بقاء کے لیے فساد کی ضرورت بھی ہے۔ سندھ کی تقسیم اور فسادات کی دھمکی والا بیان ایم کیو ایم کو نئی قوت دے گا۔ بہر حال صوبائی حکومت نے کراچی میں فسادات کے لیے تمام اسباب پیدا کر دیے ہیں۔ لیکن خالد مقبول یہ بھول گئے کہ جس سندھ حکومت نے کراچی کے محکموں پر کنٹرول حاصل کیا ہے۔ جو اندرون سندھ سے افسران لا کر مسلط یا مقرر کر رہی ہے۔ اب اسے ایم کیو ایم کی ضرورت نہیں ہے اگر ایم کیو ایم نے زبان کا نعرہ لگایا تو پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو گا۔ بغیر نعرہ لگائے وہ سندھ کارڈ استعمال کرے گی۔ سندھ اسمبلی میں خالد مقبول کے خلاف قرار داد منظور کروانا کافی نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم خصوصاً ان کو لانے والے لوگ دیکھیں کہ پورے ملک پر اقتدار کے حصول کی خواہش ملک کو کتنا کمزور کر دے گی۔ اس وقت عمران خان کی پارٹی صرف پورے ملک کا اقتدار حاصل کرنے میں مصروف ہے لیکن اس ملک کا مسئلہ ایک پارٹی کا پورے ملک پر کنٹرول نہیں ہے۔ مہنگائی، قرضے، قرضوں پر سود اور پھر نئے قرضے، بھارت کی بالا دستی، افغانستان اور بین الاقوامی سطح پر ریاست کی ناکامی کا تاثر ہے۔ خدارا اس ملک پر مکمل کنٹرول کا بھوت اتاردیں۔ ورنہ نفیس لوگ بڑی نفاست سے کام اتارتے رہیں گے۔