اگر یہ کہا جائے کہ وطن عزیز میں قیادت کا فقدان ارباب حکومت کی مشکلات اور عوامی مسائل کی ایک بڑی اور اہم وجہ آدھی سچائی کو تسلیم کرنے اور اسے فروغ دینے کی روش ہے تو کچھ ایسا غلط نہ ہوگا جس کی صداقت کو منظر عام پر لانے کے لیے ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ہم بارہا انہی کالموں میں ایسے واقعات کا تذکرہ کرتے رہے ہیں جو ادھورے سچ کی پیداوار ہوتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، کچھ عرصہ قبل عزت مآب چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ایک فرمان میں جھوٹی گواہی کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے، ان کا یہ فرمان تیس صفحات پر مشتمل ہے۔ واجب الاحترام چیف صاحب نے خدا کے فرمان اور رسول پاکؐ کے ارشاد کے حوالے سے جھوٹی گواہی کی بھرپور مذمت کی ہے اور جھوٹے گواہان کی گواہی پر پابندی عاید کردی ہے، اس فرمان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے مگر بدنصیبی یہ ہے کہ یہ فرمان بھی آدھی سچائی پر مبنی ہے، کیوں کہ جھوٹی گواہی کی ضرورت جھوٹے مقدمات کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ مقدمہ صداقت پر مبنی ہو تو جھوٹی گواہی کے لیے جھوٹے گواہان کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے اگر مدعی کو گواہان نہ مل سکیں تو وکیل صاحب اس ضرورت کو پورا کردیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ واجب الاحترام چیف صاحب نے بُرائی کو جڑ سے اکھاڑنے کے بجائے اس کی شاخیں تراشنے ہی پر کیوں اکتفا کیا؟۔ مذکورہ فرمان کے تناظر میں ہمیں وہ آفیسر صاحب بہت یاد آرہے ہیں جنہوں نے مالی کو محض اس لیے معطل کردیا تھا کہ وہ پودے تراش رہا تھا۔ آفیسر صاحب اپنے کیے کو مستند سمجھتے تھے، مزاج کے بھی بہت سخت تھے سو، ماتحت درست فرمایا۔ حضور کی گردان رٹنے میں عافیت سمجھتے تھے، مالی سے سبھی کو ہمدردی تھی مگر کوئی بھی شخص مذکورہ آفیسر کو فیصلہ بدلنے کی ترغیب دینے کا خطرہ لینے پر آمادہ نہ تھا۔ بالآخر مالی کی منت سماجت رنگ لائی اور پھر کافی سوچ بچار کے بعد مالی کی جانب سے درخواست کی گئی کہ اسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کی اجازت دی جائے۔ آفیسر بالا کو یہ تجویز اور التجا بھا گئی۔ مالی کو بلایا گیا اور سرکاری پودوں کو نقصان پہنچانے کا سبب پوچھا گیا۔ مالی نے دست بستہ گزارش کی کہ جناب والا! جب آدمی کے بال بڑھ جاتے ہیں تو انہیں تراشنا پڑتا ہے اسی طرح پودے کی جو شاخیں اِدھر اُدھر پھیل جاتی ہیں انہیں تراش کر پودوں کی خوبصورتی اور دلکشی کو بحال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آفیسر بالا کو یہ دلیل بہت پسند آئی اور اسی وقت مالی کو بحال کردیا گیا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوا جب افسر بالا نے حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی، یہی معاملہ جھوٹی گواہی اور جھوٹے مقدمات کا ہے، اگر چیف صاحب جھوٹی گواہی کی جڑ میں حقیقت کا چونا ڈال دیں تو سائلین کو نسل در نسل عدالتوں کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔ انصاف میں تاخیر کی اصل وجہ جھوٹے مقدمات ہیں، جھوٹے مقدمات پر پابندی لگادی جائے، ان کی پیروی اور سماعت جرم قرار دی جائے تو عدلیہ رسوا ہو نہ مقدمات نسل در نسل چلیں اور نہ اپیل در اپیل کا اذیت ناک چکر چلے، مگر ایسا کون کرے گا؟ جھوٹ کے درخت کی جڑ میں حقیقت کا چونا کون ڈالے گا؟۔