معیشت کی تنگی اور حکومتی ٹوٹکے

350

پاکستانی حکمران پریشان ہیں کہ دنیا بھر سے چندے، امداد، قرضے، اشتراک، آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی بینک وغیرہ سے قرضے لینے کے باوجود معیشت تنگ ہے۔ اور خود حکومتی وزرا بھی ڈراتے رہتے ہیں کہ فلاں ادارے کی شرط نہیں مانی تو معیشت تنگ ہوجائے گی۔ حکومت بلکہ ہر حکومت کا یہ مخصوص جملہ ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ سابق حکمران سب لوٹ کر لے گئے۔ کیا واقعی ایسا ہے۔ مسلم لیگ (ن) یا نواز شریف تیسری مرتبہ حکومت میں آئے یعنی دو مرتبہ سابق حکمران بنے، وہ بھی یہی کہتے رہے۔ پیپلز پارٹی بھی وفاق میں چار مرتبہ اقتدار میں رہی لیکن اس کی زبان پر بھی یہی جملے رہے۔ اور تو اور تماشا یہ ہورہا ہے کہ بھٹو، ضیا، بے نظیر، نواز شریف اور مشرف سب کی پارٹیوں میں رہنے والے اب تحریک انصاف کی حکومت میں ہیں اور وہ بھی یہی ترانہ سنا رہے ہیں کہ ہمیں تو خزانہ خالی ملا تھا۔ لیکن گزشتہ کئی دنوں سے حکمرانوں کا لہجہ بدل گیا ہے، وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ مہنگائی ہونے والی ہے، عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ پھر کہا کہ چیخنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ وزرا کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہتر ہورہی ہے۔ وزیر خزانہ نے بزعم خود اعلان کیا کہ ملکی معیشت آئی سی یو سے نکل کر استحکام وارڈ میں داخل ہوگئی ہے۔ دو تین ماہ، پھر ڈیڑھ ماہ کی خوشخبری دی۔ سابق چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو نے بھی یہی خبر دی کہ دو ماہ میں معیشت بہتر ہوجائے گی۔ لیکن سب سے اونچی پھینکی تو فیصل واوڈا نے کہ نوکریوں کی بارش ہونے والی ہے۔ جس روز یہ خبر سامنے آئی ہے اس روز سے فیصل واوڈا خبروں میں ہیں۔ لوگ خواہ مخواہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کے خلاف نہ بولا جائے۔ تنقید نہ کی جائے۔ اپوزیشن تو کچھ نہیں کررہی جو کچھ کررہے ہیں حکمران اور ان کے ترجمان کررہے ہیں۔ چیخیں نکلنے کا بیان کیا مولانا فضل الرحمن نے دیا تھا۔ انڈے مرغی، کٹے کے ذریعے معیشت سدھارنے کا اعلان کیا، بلاول کا تھا یا آدھی یا ایک روٹی کھانے کا مشورہ نواز شریف نے دیا تھا۔ وزیراعظم، شیخ رشید، فواد چودھری، فیصل واوڈا، محمد میاں سومرو سب ہی ایک ماہ، ڈیڑھ ماہ، دو ماہ میں معیشت مستحکم ہونے کی خبریں دے رہے ہیں اور اسٹیٹ بینک اور دیگر ادارے یہ خبر دے رہے ہیں کہ معیشت دو سال تک اسی طرح ڈوبتی رہے گی۔
ملک کی معیشت کیوں نہیں سنبھل رہی ہے۔ اس کے دو اسباب ہیں، ایک تو یہ کہ جن لوگوں کو حکومت میں لا کر بٹھایا گیا ہے وہ ان حالات سے نمٹنے کی اہلیت نہیں رکھتے، اس کے باوجود بھی حکومتیں چل جاتی ہیں۔ مگر نااہلیت کے ساتھ ساتھ اللہ اور رسولؐ سے جنگ جاری ہے۔ سودی نظام مسلط کر رکھا ہے، بین الاقوامی اداروں سے سود پر قرضے لیے جارہے ہیں، اللہ کے احکامات کے خلاف فیصلے ہورہے ہیں، توہین رسالت کے مجرموں کو وی آئی پی بنایا جارہا ہے، اسلام قبول کرنا جرم بنایا جارہا ہے، قاتلوں کو وی آئی پی ملزم بنا کر اور اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں لایا جارہا ہے، قادیانیوں کو نوازا جارہا ہے، دینی مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے، پوری کابینہ مذہبی امور میں فتوے جاری کررہی ہے، لیکن ملک میں بیروزگاری، مہنگائی، لاقانونیت اور دہشت گردی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ یہ سب چیزیں فیصل واوڈا کے دعوؤں سے تو ختم نہیں ہوں گی۔ فیصل واوڈا کے بیان کے بعد سماجی میڈیا پر ان کے حوالے سے جو کچھ سامنے آیا ہے وہ بڑا دلچسپ ہے۔ کسی نے کراچی کے ساحل سے 20 یورپی باشندوں کی لاشیں ملنے کی خبر دی ہے کہ یہ لوگ پاکستان میں نوکریوں کی بارش کی خبر پر یقین کرکے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش میں مارے گئے۔ لیکن جب چھوڑم چھاڑی کی بات ہورہی ہو تو اس کام کا ٹھیکا صرف پی ٹی آئی والوں کے پاس تو نہیں۔ چناں چہ کسی نے خبر چلائی کہ یورپی یونین نے فیصل واوڈا کو یورپ کا اعلیٰ ترین اعزاز دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کیوں کہ ان کے بیان کی وجہ سے ساری دنیا کے غیر قانونی تارکین وطن کا یورپ پر دباؤ ختم ہوگیا ہے اور سب پاکستان کا رُخ کررہے ہیں۔ اس اطلاع کے درست ہونے یا نہ ہونے کا انحصار ایک کروڑ یا ایک ارب نوکریوں کی بارش کی خبر کی صحت سے براہ راست ہے۔ تاہم یورپی یونین کا اصرار ہے کہ فیصل واوڈا کو اعزاز ضرور دیا جائے۔ بات بھی ایسی ہے ایوارڈ تو بنتا ہے۔
جو لوگ ایک دو ماہ میں معیشت مستحکم ہونے کی خبریں دے رہے ہیں ان کے اقدامات سے تو لگتا ہے کہ دو ماہ میں آئی ایم ایف کی معیشت مستحکم ہونے والی ہے۔ ان اقدامات سے عوام کی معیشت تو کم از کم مستحکم نہیں ہوگی۔ گیس کے نرخ 80 فی صد بڑھانے کا اعلان، ڈالر کی قدر مسلسل بڑھانے کا فیصلہ، مہنگائی میں اضافے اور آئی سی یو سے استحکام وارڈ میں منتقلی کے اعلانات سے معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ اگر حکومت سنجیدہ ہے (جس کا کوئی امکان نہیں نظر آتا) تو سب سے پہلے سود کو ترک کرے، عدالتیں انگریز کا قانون چھوڑ کر کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلے کریں، کم از کم عدالت عظمیٰ کی سطح پر تو قریش کے چودہ سو سال پرانے سوال کو وقعت نہ دی جائے کہ سود اور تجارت میں فرق بتاؤ۔ غریب اور امیر کو یکساں انصاف دیا جائے، حکمران اپنی عیاشیاں بند کریں خود سادگی اختیار کریں پھر قوم کو کچھ دن کی تکلیف سہنے کا مشورہ دیں۔ اور سب سے بڑھ کر سب کے لیے قانون یکساں طریقے سے نافذ کیا جائے۔ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کرکے معیشت سدھارنے چلے ہیں…. یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔