آئی ایم ایف نے سب بتادیا

297

آئی ایم ایف اس بدمعاش کی طرح ہے جو کسی کو بھی کانا کرکے معاشرے میں دھکیل دیتا ہے۔ اور پھر اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ بدمعاش کی آنکھ کے اشارے پر ہر کام کر گزرتا ہے کیوں کہ بدمعاش کہتا رہتا ہے کہ سب بتادوں گا…. بدمعاشوں میں پھر بھی تھوڑی بہت حیا، شرم یا رواداری ہوتی ہے کہ سب نہیں بتاتے۔ لیکن یہ کمبخت کمبل تو نہ خود چھوڑتا ہے اور نہ ہی لپٹے ہوئے کو چھوڑنے دیتا ہے۔ اور جو کچھ لپٹنے سے پہلے کیا اور کرلیا ہوتا ہے وہ سب بھی بتادیتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بتادیتا ہے۔ چناں چہ ادھر سابق وزیر خزانہ اسد عمر خوش خبری دے رہے تھے کہ دو ماہ میں معیشت مستحکم ہوجائے گی اور اُدھر آئی ایم ایف نے بم دے مارا۔ ادارے کے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کے ڈائریکٹر جہاد آزور نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت مستقبل میں بڑے پیمانے پر سست روی کا شکار ہوجائے گی اور یہ خطے کی مجموعی معاشی ترقی پر بوجھ بن جائے گی۔ قرض دینے والے ادارے کے ڈائریکٹر کا فرمان ہے کہ قرض کی بڑھتی ہوئی شرح اقتصادی استحکام کے لیے بڑے پیمانے پر چیلنج بن گئی ہے۔ یہیں استحکام ہے جس کی نوید اسد عمر صاحب دے رہے ہیں اور وزیراعظم بھی ایسا ہی کچھ نقشہ پیش کرتے رہتے ہیں۔ اب نئے وزیر یا مشیر خزانہ یہیں کہیں گے۔ پاکستان ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی قرضے اور امداد لیتا رہتا ہے، چناں چہ ایشیائی بینک نے تو حقائق نامہ (فیکٹس شیٹ) جاری کردیا۔ تاہم یہ حقائق نامہ حقائق دکھانے والا ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کے معاشی چمپئن اس حقائق نامے سے بھی اسی طرح چشم پوشی کریں گے جس طرح وہ دیگر زمینی حقائق سے کرتے ہیں اور پھر زمین پر آگرتے ہیں۔ ایشیائی بینک کا مشورہ ہے کہ مالی اور جاری کھاتوں کے خسارے کا حل تلاش کیا جائے۔ زرمبادلہ کے ذخائر اور قرضوں کی واپسی پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا اور اداروں کو مستحکم کیا جائے۔ مزید یہ کہ سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے کاروباری اور ریگولیٹری ماحول کو بہتر بنانا ہوگا۔
آئی ایم ایف نے تو خوفناک صورت حال دکھا کر ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر اصلاحات پر عمل کرنا ہوگا اور اصلاحات کا ہدایت نامہ قرض کی شرائط سے قبل ہی تھما دیا گیا تھا۔ البتہ ایشیائی بینک نے ہمدردانہ مشورے دیے ہیں۔ اب بڑھکیں مارنے اور سنجیدہ کام کرنے والوں کا فرق بھی واضح ہوجائے گا۔ چناں چہ ایک ہاتھ سے قرض کی رقم کی پہلی قسط وصول کرکے دوسرے ہاتھ سے اصلاحات کا پیکیج مسلط کیا جائے گا، جس میں سے کئی شرائط پہلے ہی نافذ کی جاچکی ہیں اور پھر ساری کابینہ اور چمچے، پتیلے، دیگچیاں قوالی شروع کردیں گے کہ تبدیلی آئی رے…. میڈیا کے بارے میں کیا کہنا ان سے بڑھ کر قوالی گائے گا بقدر ہڈی ہر ادارہ دوسرے سے بڑھ کر تو یقین کرے گا۔ پھر پاکستان کی معیشت کا بیڑہ اس کے ماہر معیشت دانوں کے ہاتھوں غرق ہوجائے گا۔ انہیں تو یقین ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکتے اس لیے لُٹّو تے پُھٹو…. لیکن یہاں لوٹ کر پھوٹتا کون ہے۔ بھٹو کی پارٹی میں پیدا ہونے والے ضیا الحق دور میں اس پارٹی سے ایسے کھسک گئے جیسے تھے ہی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں نمودار ہوئے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے والوں میں آگے آگے رہے، پھر موقع کی مناسبت سے بھٹو کی پارٹی میں واپس آگئے۔ بھٹو دور میں لوٹ مار کرنے والے (ن) لیگ میں شامل ہوئے وہی کام اس کی حکومت کے دور میں کیا۔ جنرل پرویز کے آنے پر یہ (ن) تھوڑی سی تبدیلی سے ابتدائی حصہ مروڑنے کی وجہ سے ق بن گیا اور سب اس میں چلے گئے۔ پھر وہی کام جاری رکھا۔ پھر ن میں واپس آئے اور اب تحریک انصاف میں ہیں یا اتحادی ہیں۔ کسی کے عمل میں تبدیلی نہیں آئی۔ تو یہ لٹو تے پھٹو والے بھی نہیں ہیں بلکہ لُوٹ لُوٹ کر لَوٹ آتے ہیں۔ آدھی کابینہ مشرف کی، آدھی ن لیگ اور پی پی کی ایک دو نو وارد اور بس…. آئی ایم ایف نے تو سب بتادیا۔ ابھی قرض بھی نہیں دیا لیکن صاف بتادیا کہ پاکستانی معیشت کا کیا حال ہونے والا ہے۔ پاکستانی معیشت کے حوالے سے اب آئی ایم ایف یا عالمی بینک کی گواہی کی بھی ضرورت نہیں اسٹیٹ بینک بھی بار بار اس کی اطلاع دے رہا ہے اور پاکستانی تاجر اپنی لاکھ منافقتوں کے باوجود رو رہا ہے۔ منافقت یہ کہ حکومت کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں اور نجی محفلوں میں روتے ہیں پھر سارا بوجھ عوام پر ڈال دیتے ہیں۔
لیکن ٹھیریں…. ابھی فیصل واوڈا موجود ہیں ان کو اس رپورٹ سے بہت بڑا منصوبہ ہاتھ لگ گیا ہے۔ بس چند برسوں کی بات ہے بھارت کا خاتمہ…. معاشی تباہی…. جی ہاں…. واوڈا نے ابھی کہا نہیں ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ جس جس میں واوڈا کی روح حلول کر گئی ہوگی وہ یہی کہہ رہا ہوگا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ چناں چہ پاکستانی معیشت جوں جوں تباہ ہوگی خطے کی مجموعی معاشی ترقی پر بوجھ بن جائے گی اور اس بوجھ سے بھارتی معیشت تباہ ہوجائے گی۔ اور پھر اس پر واہ واہ سبحان اللہ کے نعرے ہوں گے۔ سنجیدہ اقدامات کی طرف کوئی نہیں جائے گا، یہی ڈھول پیٹا جائے گا، ایشیائی ترقیاتی بینک کے حقائق نامے کو دیکھیں تو پتا چلے گا کہ کرنے کا کام یہی ہے لیکن یہ کام سر درد کے واسطے صندل لگانے کے مترادف ہے۔ یہ لوگ یہیں کرنے والے۔ پہلا مشورہ ہے مالی اور جاری کھاتوں کا حل تلاش کیا جائے۔ ہمارے حکمران حل تلاش کرنے کے بجائے بڑا کشکول تلاش کرتے ہیں۔ جتنا قرض لے سکیں اتنا بھلا ہے۔ (قوم کا نہیں ان کا اپنا) دوسرا مشورہ ہے زرمبادلہ کے ذخائر اور قرضوں کی واپسی پر نظر رکھنا۔ اس کا صرف پہلا حصہ ہمارے حکمرانوں کے محل نظر ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس سے کہیں شور نہ مچ جائے۔ باقی قرضوں کی واپسی اس کے لیے تو کہتے ہیں کہ کل کس نے دیکھا ہے۔ بلکہ ان کی نظر قرضوں کی واپسی پر نہیں نئے قرضوں کے امکانات پر ہوتی ہے۔ اور ایک ناممکن مشورہ بھی دے ڈالا ایشیائی بینک نے…. کہ برآمدات میں اضافہ کریں اور اداروں کو مستحکم کریں…. یہ تو لگتا ہے کہ برآمدات کا بیڑا غرق کرنے اور ادارے تباہ کرنے آئے ہیں۔ نیا پاکستان بنا دیا، نئی ایف بی آر کی دھمکی دے دی، نئی پولیس بنادی، نئی عدالتیں بنادیں، بس بس بس…. نئی فوج بنانے کی دھمکی نہ دے ڈالنا، دے رگڑا ہوجائے گا، اور یہ مشورہ بھی ہمارے چھوٹے دماغ اور موٹی عقل والے حکمرانوں کو سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ سرمایہ کاری بہتر بنانے کے لیے کاروباری اور ریگولیٹری ماحول کو بہتر بنایا جائے۔ اسٹیٹ بینک نے کئی مشورے دے دیے، ایشیائی بینک نے بھی بار بار راہ سجھائی اور اب آئی ایم ایف بھی اُس شیطان کی طرح دغا دے گیا جو رب کے حضور کھڑے ہو کر کہے گا میں نے تو اسے نہیں بہکایا، یہ تو خود گناہ پر آمادہ تھا۔ ان حکمرانوں کے لیے بھی کہا جاچکا ہے کہ
فَبِایِّ حَدِیثِ بَعْدَہُ یُومِنُونَ۔