پاکستان یعنی اقلیتوں کا جہنم؟

413

پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر صرف اسلام کے نہیں ’’اسلامی پاکستان‘‘ کے بھی دشمن ہیں۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور پاکستان کا ایسا ’’Image‘‘ تخلیق کرنے میں لگے رہتے ہیں جیسے وہ مذہبی اقلیتوں کا ’’جہنم‘‘ ہو۔ پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانشور اور صحافی پاکستان میں مشرف بہ اسلام ہونے والی ہر ہندو لڑکی کو ’’Forced Conversion‘‘ کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں، حالاں کہ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام چودہ سو سال سے غیر مسلموں کو مسلمان ہونے پر ’’مائل‘‘ کررہا ہے۔
اسلام اور پاکستان کے خلاف سیکولر عناصر کے پروپیگنڈے کی حالیہ مثال روزنامہ ڈان کراچی میں 23 مارچ 2019ء کو شائع ہونے والے پرویز ہود بھوئے کا مضمون ہے۔ مضمون کا عنوان ہے۔
’’Pakistan’s Terrified Christians‘‘
مضمون کی سرخی پڑھ کر کسی بھی عام آدمی کو خیال آسکتا ہے کہ پاکستان میں یقیناًبڑے پیمانے پر عیسائیوں کا قتل عام ہورہا ہے۔ ان کے گرجوں پر تالے ڈال دیے گئے ہیں، عیسائیوں کو ان کے گھروں میں محدود کردیا گیا ہے، ان کو ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا ہے، عیسائیت اور عیسائیوں کے ساتھ دہشت گردی، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کی اصطلاحیں وابستہ کردی گئی ہیں، عیسائیوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ڈان کے کالم نگار پرویز ہود بھوئے پاکستان کے عیسائیوں کو ’’خوف زدہ عیسائی‘‘ یا ’’Terrified Christian‘‘ کیوں قرار دیتے؟۔ مگر سوال یہ ہے کہ پرویز ہود بھوئے نے اپنے مضمون نما کالم یا کالم نما مضمون میں کہا کیا ہے؟۔
ہود بھوئے نے 2013ء میں پشاور کے ایک گرجا گھر میں ہونے والے بم دھماکے کا ذِکر کیا ہے۔ اس دھماکے میں 127 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ دوسری مثال انہوں نے یہ دی ہے کہ 1950ء کی دہائی میں عیسائی لڑکوں کے نام جیکب، جوزف، مائیکل، پال اور عیسائی لڑکیوں کے نام Mary، ریٹا، روتھ وغیرہ ہوا کرتے تھے مگر اب عیسائی لڑکوں کے نام اقبال، نوید، شفقت اور عیسائی لڑکیوں کے نام مریم، حنا اور صائمہ وغیرہ ہوتے ہیں۔ تیسری بات پرویز ہود بھوئے نے یہ کہی کہ کچھ عرصہ پہلے ایک عیسائی عورت کو اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور اسے زبردستی عیسائی سے مسلمان بنایا گیا اور اب مسئلہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ مسلمان ہوگئی ہے اس لیے وہ Revert نہیں کرسکتی، یعنی پھر سے عیسائی نہیں ہوسکتی۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہندوستان کا عظیم ترین اداکار کون ہے؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ دلیپ کمار۔ دلیپ کمار کی اداکارانہ عظمت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ بھارت کے ایک بھارتی سینما کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور دلیپ کمار سے پہلے کا ہے، دوسرا دور ان کے بعد کا ہے۔ بھارت کے ایک اور اداکار انوپم کھیر نے ایک بار دلیپ کمار کے بارے میں کہا تھا کہ ہم میں سے ہر شخص چھوٹا موٹا دلیپ کمار بننے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اب یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ دلیپ کمار ہندو نہیں ہیں، وہ مسلمان ہیں، ان کا اصل نام یوسف خان ہے، مگر ان کا فلمی نام دلیپ کمار ہے۔ آخر بھارت جیسے ’’جمہوری ملک‘‘ میں ایک مسلمان اداکار ہندو نام اختیار کرنے پر کیوں مجبور ہوا یا کیوں مجبور کیا گیا؟۔
ہندوستان کی عظیم ترین اداکاراؤں کی فہرست بنائی جائے گی تو ’’مینا کماری‘‘ کا نام سرفہرست ہوگا۔ مگر مینا کماری ہندو نہیں تھیں، وہ مسلمان تھیں، ان کا اصل نام ماہ جبیں بانو تھا۔ آخر بھارت جیسے جمہوری ملک میں بھارت کی عظیم ترین اداکارہ ماہ جبیں بانو کا نام مینا کماری کیوں رکھا گیا؟ بھارت کی خوبصورت ترین اور مشہور ترین اداکارہ کا نام مدھو بالا تھا۔ مگر مدھو بالا بھی ہندو نہیں تھیں، وہ مسلمان تھیں اور ان کا نام بیگم ممتاز جہاں دہلوی تھا۔ سوال یہ ہے کہ بیگم ممتاز جہاں دہلوی کو اپنا اصل نام ترک کرکے مدھو بالا کا تشخص کیوں اختیار کرنا پڑا؟۔ یہ کہانی یہاں تک محدود نہیں۔
ازبکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ مگر اس کے صدر کا نام ہے Shavkat Mirziyoyev۔ قازقستان بھی ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، اس کے صدر کا نام ہے Kassym Jomart Tokayev۔ آپ کو کچھ سمجھ میں آیا، ان ناموں کا تلفظ کیا ہے۔ قیاس سے کہا جاسکتا ہے کہ شاید پہلا نام ہے شوکت مرزیوف اور دوسرا نام ہے قاسم جماعت تو کاپیف۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بوسنیا ہرزیگووینا ایک مسلم اکثریتی خطہ تھا اور یہ گوسلاویہ سے آزادی کے بعد اس کے پہلے صدر کا نام تھا، عالیہ عزت بیگووچ اور وزیر خارجہ کا نام تھا حارث سلوٹیک۔ اب ناموں کے بغیر کا قصہ سنیے۔ بھارت میں یوسف خان، ماہ جبیں بانو اور بیگم ممتاز جہاں دہلوی اس لیے دلیپ کمار، مینا کماری اور مدھو بالا کہلائے کہ ہندوستان ہندو اکثریت کا ملک ہے اور ہندوستان میں ہندو نام کو ’’فروخت‘‘ کرنا اور زبان زد خاص و عام بنانا آسان ہے۔ ازبکستان اور قازقستان میں مسلمانوں کے نام اس لیے بگڑے کہ روس میں آنے والے کمیونسٹ انقلاب کے بعد ازبکستان اور قازقستان بھی کمیونسٹ ہوگئے تھے اور کمیونزم اسلام ہی کا نہیں مسلم ناموں کا بھی دشمن تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ روسی انقلاب صرف کمیونزم کو نہیں روسی زبان کو بھی ساتھ لے کر آیا۔ چناں چہ مسلمانوں کے اسلامی نام روسی زبان اور اس کے تلفظ کے زیر اثر آگئے۔ یہی تماشا بوسنیا ہرزیگو وسینیا میں بھی ہوا۔ چناں چہ وہاں بھی مسلمانوں نے اپنے ناموں کو مقامی اثرات اور زبانوں کے تحت کرلیا۔ چناں چہ پاکستان میں اگر ’’کچھ عیسائی‘‘ مسلمانوں جیسے نام رکھنے لگے ہیں تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے عیسائیوں کی عظیم اکثریت معاشی اعتبار سے کمزور طبقات پر مشتمل ہے اور یہ لوگ صرف معاشی فائدے کے لیے عیسائی ہوئے ہیں۔ چناں چہ جو لوگ معاشی فائدے کے لیے اپنا پرانا مذہب چھوڑ سکتے ہیں وہ معاشی اور سماجی فوائد کے لیے اپنا نام بھی بدل سکتے ہیں۔ ہم ہود بھوئے کو پندرہ بیس سال سے پڑھ رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی یہ بات نہیں لکھی کہ بھارت میں یوسف خان، ماہ جبیں بانو اور بیگم ممتاز جہاں دہلوی جیسے اداکاروں کو اپنے مسلمان نام چھوڑنے پر مجبور کیا گیا مگر پاکستان میں چند عیسائی اپنی مرضی سے اپنے مذہبی نام ترک کرکے مسلمان نام اختیار کررہے ہیں تو ہود بھوئے نے پاکستان کے عیسائیوں کو ’’Terrified Christian‘‘ بنادیا ہے۔
ہود بھوئے نے بالکل درست فرمایا کہ 2013ء میں پشاور کے گرجا گھر پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں 127 عیسائی ہلاک ہوگئے تھے لیکن 2013ء میں تو پورے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر چل رہی تھی اور عیسائی اقلیت کیا ’’مسلم اکثریت‘‘ بھی اس کی زد میں تھی۔ کیا پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں پانچ ہزار فوجی اور 70 ہزار سویلین جاں بحق نہیں ہوئے؟۔ ان لوگوں میں 99.99 فی صد افراد ’’مسلمان‘‘ تھے مگر ہود بھوئے کو 75 ہزار افراد اور اس کے نتیجے میں خوف زدگی کا شکار ہونے والے کروڑوں مسلمان تو نظر نہیں آئے مگر انہیں گرجا میں ہلاک ہونے والے 127 عیسائی ’’اتنے زیادہ‘‘ نظر آرہے ہیں کہ انہوں نے ان کی بنیاد پر پاکستان کی پوری عیسائی برادری کو ’’خوف زدہ‘‘ بنادیا ہے۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر کی بے ایمانی، بد دیانتی اور جانب داری اس امر سے بھی عیاں ہے کہ 1947ء سے اب تک ’’سیکولر بھارت‘‘ میں پانچ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے ’’مسلم کش فسادات‘‘ ہوچکے ہیں۔ ان فسادات میں لاکھوں مسلمان شہید اور لاکھوں زخمی ہوچکے ہیں۔ ان کی کھربوں روپے کی املاک تباہ ہوچکی ہیں مگر پاکستان کا کوئی سیکولر اور لبرل لکھنے والا بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کی حالت زار کو موضوع نہیں بناتا۔ پرویز ہود بھوئے اگر 127 عیسائیوں کی ہلاکت پر پاکستان کے تمام عیسائیوں کو Terrified دکھا کر درجنوں کالم لکھ سکتے ہیں تو انہیں بھارت کے Terrified Muslim’s کی بنیاد پر کم از کم پانچ سو کالم تو لکھنے ہی چاہئیں۔ مگر ہماری نظر سے آج تک ان کا ایسا کالم نہیں گزرا جس میں انہوں نے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ’’خوف‘‘ کا ’’ماتم‘‘ کیا ہو۔
امریکا کے ممتاز ہفت روزہ نیوز ویک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکا نے نائن الیون کے بعد سے اب تک جو جنگیں ایجاد کی ہیں ان پر 6 ہزار ارب ڈالر خرچ ہوئے ہیں اور ان جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ’’پانچ لاکھ‘‘ ہے۔ (روزنامہ دنیا۔ 12 مارچ 2019ء) یہاں ہمیں امریکا کی جون ہوپکنز یونیورسٹی کی کچھ سال پہلے کی ایک رپورٹ بھی یاد آرہی ہے۔ اس رپورٹ میں تحقیق کی بنیاد پر بتایا گیا تھا کہ عراق پر امریکا کے حملے سے پانچ برسوں میں چھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں ان میں ایک لاکھ لوگ براہ راست جنگ سے ہلاک ہوئے اور مزید پانچ لاکھ لوگ جنگ کے اثرات سے مارے گئے۔ پاکستان میں آج تک عیسائیوں اور ہندوؤں پر جو حملے ہوئے ہوں گے ان میں ایک ہزار افراد بھی ہلاک نہیں ہوئے ہوں گے، مگر پرویز ہود بھوئے اور ان جیسے لوگ پاکستان کو اقلیتوں کا جہنم باور کراتے ہوئے اس مسئلے پر لکھتے رہتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہود بھوئے کو امریکا کی مسلط کی ہوئی جنگوں سے ہلاک ہونے والے پانچ لاکھ لوگوں کی شہادت پر اب تک کم از کم 200 کالم تو لکھ ہی دینے چاہیے تھے، مگر ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ لکھا ہو۔
پاکستان کے سیکولر اور لبرل لوگ Forced Conversion کی بحث بھی اُٹھاتے رہتے ہیں۔
ہود بھوئے نے بھی ایک عیسائی عورت کے اغوا اور Conversion کی بحث اُٹھائی ہے اور فرمایا ہے کہ چوں کہ عیسائی عورت مسلمان ہوگئی ہے اس لیے اب وہ Revert بھی نہیں ہوسکتی۔ اوّل تو مسلمانوں نے چودہ سو سال میں کبھی کسی کو زور زبردستی سے مسلمان نہیں کیا، دوسرے یہ کہ اگر کوئی ایک آدھ واقعہ ایسا ہو بھی گیا ہوگا تو پورے معاشرے کو اس کا ذمے دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ سیکولر لوگوں کو ایک آدھ Forced Conversion تو نظر آتا ہے مگر یہ حقیقت نظر نہیں آتی کہ جدید مغرب نے اُمت مسلمہ کے کروڑوں لوگوں کو ’’Forced Conversion‘‘ کے ذریعے ’’جدید، سیکولر، لبرل، شرابی، جواری، سود خور، عیاش، آرام طلب اور دنیا کا کتّا‘‘ بنایا ہوا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی مسلمان ’’مغرب زدگی‘‘ ترک کرکے ’’Revert‘‘ ہونا اور دوبارہ اسلام سے جڑنا چاہتا ہے تو مغرب شور مچاتا ہے اور اسے دہشت گرد، بنیاد پرست اور انتہا پسند کہتا ہے۔ مسلم دنیا میں ایک بھی مسلمان حکمران ایسا نہیں جو سینہ تان کر مغرب کے سامنے کھڑا ہو اور کہے ہم تمہارے جعلی معیارات اور پیمانوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ مسلم حکمران خواہ وہ بادشاہ ہوں یا جرنیل روایت پسند ہوں یا جمہوری سب مغرب کے ہاتھ پر مشرف بہ مغرب ہوچکے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی نہیں جو Revert کرے اور کہے ہمیں صرف اسلام عزیز ہے۔ اس Forced Conversion کے بارے میں ہود بھوئے کا کیا خیال ہے؟۔