یہ شہر اتنا اُداس تو نہ تھا

285

کبھی کبھی شاعروں کی وجدانی کیفیت الہام سے قریب تر محسوس ہوتی ہے۔ خدا جانے! شاعرنے کس کیفیت کے زیر اثر یہ اشعار کہے تھے جو موجودہ دور کے عکاس بن گئے ہیں۔ ان اشعار پر غور کرنے کے بعد قارئین بھی شاعر کے ہم خیال ہوجائیں گے۔ سنیے!
گو! سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اُداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پھرا کرتے تھے دو چار دوڑتے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا انتخابی منشور بے روزگاری، مہنگائی اور بے گھری کے عذاب سے نجات دلانا تھا مگر جب وہ وزیراعظم کی مسند پر براجمان ہوئے تو انہوں نے قوم کو بے روزگاری، مہنگائی اور بے گھری کے سونامی میں ڈبو دیا ہے۔ ہماری عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس لینے میں جس چابک دستی اور مہارت کا مظاہرہ کرتی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ انتخابی منشور کی خلاف ورزی ایک ناقابل معافی جرم ہے جس پر ایکشن لینا عدالت عظمیٰ کی ذمے داری ہے مگر جو عدلیہ بنی گالا کو ریگورلرائز کرکے دیگر علاقوں پر بلڈوزر پھیر دے اس سے خیر کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟۔
نیب وطن عزیز کے معزز اور محترم لوگوں کو ہتھکڑی لگا کر اپنی طاقت کا بھرپور اظہار کررہی ہے مگر اس معاملے میں بھی عدلیہ ٹک ٹکٹ دیدم دم کشیدم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ لوگ نیب کے بلاوے پر خودکشی کرنے لگے ہیں، کیوں کہ وہ ہتھکڑی لگنے کی ذلت برداشت نہیں کرسکتے، اس ضمن میں ہمیں ایک جج صاحب سے کیا گیا مکالمہ یاد آرہا ہے۔ جعل سازی کے ایک مقدمے میں پولیس نے ملزمان کو بغیر ہتھکڑی لگائے عدالت میں پیش کیا تو مدعی نے جج صاحب سے کہا تھا کہ جناب والادیکھیے!ملزمان کتنے بااثر ہیں، پولیس نے بھی عزت و احترام کے ساتھ پیش کیا ہے۔ پولیس آفیسر نے کہا، ہمارے پاس ہتھکڑی نہیں تھی اس لیے ہتھکڑی لگائے بغیر ملزمان کو لائے ہیں۔ مدعی نے کہا، اگر مک مکا نہ ہوا ہوتا تو تم کسی بھینس کی گردن سے زنجیر اُتار کر ملزموں کے گلے میں ڈال دیتے۔ یہ مکالمہ سن کر جج صاحب نے کہا کہ ملزم کو ہتھکڑی لگانا ضروری نہیں ہوتا کیوں کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم سے مجرم جیسا سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ اب تو اسلامی کونسل بھی انہی خیالات کا اظہار کررہی ہے مگر نیب سب کو ایک لاٹھی سے ہانک رہی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں اور وزیراعظم عمران خان خدا کے لہجے میں بولنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ شاید انہیں احساس ہی نہیں کہ ان کا ورد سماعت خراشی کے سوا کچھ نہیں۔ مسائل سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کے بجائے بھارت اور اپنے پیش رو حکمرانوں کو ذمے دار ٹھیرا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ فوجی حکمران سول حکمرانوں سے زیادہ قانون پسند تھے۔ جسٹس کارنیلسن نے مولوی تمیز الدین کیس میں اختلافی نوٹ لکھا تھا، اگر جنرل ایوب نے اس اختلافی نوٹ کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ انہیں چیف جسٹس پاکستان بنادیا، وہ لگ بھگ آٹھ سال چیف جسٹس آف پاکستان رہے۔ جنرل ضیا الحق نے بھٹو کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے جسٹس محمد حلیم کو چیف جسٹس آف پاکستان بنایا اور وہ بھی تقریباً آٹھ برس چیف جسٹس آف پاکستان رہے، دونوں ہی فوجی آمر تھے مگر ان کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ قانون پسند تھے اس ضمن میں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سرعبدالرشید قائد اعظم محمد علی جناح سے گورنر جنرل کے عہدے کا حلف لے رہے تو قائد اعظم نے ایک قدم نیچے اُترنے کا کہا جواباً انہوں نے کہا تھا کہ جب حلف لے لوں گا تو آپ گورنر جنرل بن جائیں گے اور میں ایک قدم نیچے اُتر جاؤں گا۔ قائد اعظم مسکرانے لگے تھے کیوں کہ وہ قانون کی بالادستی سے آگاہ تھے۔