ذکر صدر رجب طیب اردوان کا 

298

26 فروری 1954 کو ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہونے والے طیب اردوان آج دنیائے اسلام کے مثالی اور طاقتور حکمران مانے جاتے ہیں۔ اسلامک سینٹر آف ایشیاء نے رجب طیب کو دنیا کا سب سے طاقتور مسلمان بھی قرار دیا ہے۔ کیوں کہ گزشتہ برسوں کے دوران میں دنیا کی طاقتور ریاست کہلانے والی متحدہ ریاست ہائے امریکا کو اپنے کئی اہم فیصلے رجب اردوان کے سامنے بدلنے پڑے یا یوں کہا جائے کہ امریکا کو اپنے فیصلوں پر مجبوراً نظر ثانی کرنی پڑی۔ اسی طرح اسرائیل بھی اپنے فیصلوں پر عمل کرنے میں ناکامی کے بعد اپنے فیصلوں واپس لے چکا ہے۔
دنیا بھر کے مسلمان رجب طیب اردوان کو ایک کٹر اسلام پسند مسلمان کہا کرتے ہیں۔ وہ ترکی کے کامیاب وزیر اعظم اور تاحال صدر ہیں۔ ان کی شہرت اور مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب تک وہ ترکی کے وزیراعظم رہے اس وقت تک عام لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ ترکی کا صدر کون ہے اور جب وہ صدر بنے تو لوگوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ ترکی کا وزیراعظم کون ہے۔ رجب طیب استنبول کے میئر بھی رہ چکے ہیں اب وہ جمہوریہ ترکی کے بارہویں منتخب صدر ہیں۔ رجب 28 اگست 2014ء سے صدارت کے منصب پر فائز اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ترکی کے سربراہ ہیں جو ترک پارلیمان میں اکثریت رکھتی ہے۔ رجب طیب اردوان سے ترک عوام کی محبت کا اندازہ تو دنیا نے اس وقت ہی لگایا تھا جب 15 جولائی 2016 کی شب فوج کے ایک دھڑے نے اچانک ملک میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا لیکن بغاوت کی اس سازش کو ترک عوام نے سڑکوں پر نکل کر، ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ناکام بنادیا اور یہ ثابت کیا کہ اصل حکمران وہ ہے جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں۔ رجب طیب لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے مثالی حکمران ثابت ہورہے ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں رجب طیب اردوان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ ان کی اسلام پسند سیاست ہے۔ وہ کئی مرتبہ اپنے بیانات میں اسلام دشمنوں کو مٹانے کی بات کرچکے ہیں۔ اردوان نے حال ہی میں اس بات کا بھی عزم کیا ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل کو مٹاکر رکھ دیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج سب مسلمان رجب طیب اردوان کے ساتھ کھڑے ہیں اور دنیا بھر کی طاقتور ہونے کی دعویدار غیر مسلم ریاست طیب اردوان اور ترکی سے ڈرنے لگی ہے۔
بھارتی ٹی وی ‘‘مخبر نیوز‘‘ نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ بتایا ہے کہ ’’مسلمان ممالک اردوان کو اپنا لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب اسرائیل نے مسجد اقصٰی میں میٹل ڈیٹکٹر لگائے تو ترکی اسرائیل پر حملے کی تیاری کرنے لگا جس سے ڈر کر اسرائیل کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ اردوان شام میں حملہ کرنے کے لیے جانے والے یہودی جہاز کو بھی تباہ کرچکے ہیں۔ بھارتی ٹی وی رجب طیب اردوان کی جرات مندی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ دنیا کے پہلے رہنما جنہوں نے امریکا کو اس کے اسلام دشمن اقدامات سے باز رہنے کی تنبیہ کی ہوئی ہے۔ اردوان ترکی کہ ایسے سربراہ ہیں جن کے فیصلوں سے ترکی کی کرنسی بہت مضبوط ہوئی۔ اردوان نے اپنے اقدامات سے ترکی کو دنیا کا چھٹا سب سے امیر ملک بنا دیا ہے۔ اب وہ ورلڈ بینک کو بھی قرضہ دینے کی پیشکش کرچکے ہیں۔ ترکی دنیا کے مسلمان ممالک کی بھی غیر معمولی مدد کیا کرتا ہے۔ طیب اردوان مسلمان ملکوں میں ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی چلانے کے لیے بھی زور دے رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو امریکا تباہ ہوجائے گا۔ اردوان کی عام لوگوں میں مقبولیت کی وجہ ان کی اخلاقیات اور سادہ زندگی ہے۔ وہ ایسے بڑے لیڈر ہیں جو کسی بچے یا بچی کی آواز پر بھی متوجہ ہوکر اس کی بات سنے بغیر نہیں جاتے۔ وہ پروٹوکول کے بھی خلاف ہیں۔ مگر وہ مسلمانوں کے خلاف ظلم و زیادتی برداشت نہیں کرتے۔ اس طرح کے واقعات پر ان کا غصہ واضح ہوجاتا ہے۔ 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کی دو مساجد پر حملے کے فوری بعد طیب اردوان نے واضح الفاظ میں نیوزی لینڈ کو متنبہ کیا تھا کہ اب دوبارہ نیوزی لینڈ میں ایسا کوئی واقعہ مسلمانوں کے ساتھ تو ترکی دہشت گردوں کو چن چن کر مار دے گا۔
آج دنیا کا طاقتور ترین انسان بن جانے والے اردوان کے بارے میں شاید ان کی کم عمری میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہوگا کہ بس اسٹاپ پر لیموں پانی فروخت کرنے والا یہ نوجوان آئند ترکی ہی کا نہیں بلکہ عالم اسلام کا بڑا لیڈر بن جائے گا۔ اکتوبر 2009ء میں دورۂ پاکستان کے موقع پر اردوان کو پاکستان کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز نشان پاکستان سے نوازا کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔ لیکن آج پاکستان میں وہ حکومت قائم ہوچکی ہے جو ملک کو مدینے کی ریاست کے مطابق چلانا چاہتی ہے جس کے دعووں کی قلعی اترنے لگی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کو کب اپنے دعووں کے مطابق بنا پائیں گے یہ نہیں پتا لیکن لوگ عمران خان کے اعلانات کو ’’باتیں کروڑوں کی اور دکان پکوڑوں کی‘‘ مثل کے طور پر ظاہر کرنے لگے ہیں۔ رجب طیب اردوان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کی جانب سے انہیں وقت نہ دینے پر رجب طیب اردوان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعے نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنادیا اور ترکی پہنچنے پر فرزندان ترکی نے اپنے ہیرو سرپرست کا نہایت شاندار استقبال کیا۔ اس کے بعد 31 مئی بروز پیر 2010ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک بار اردوان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھر ے اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب اردوان کے فلسطینی مسئلے خاص طورپر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا اور متعدد عرب صحافیوں نے انہیں قائد منتظر قرار دیا۔ اور وہ واحد راہنما ہیں جنہوں نے بنگلا دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسی پر اپنے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا۔