اور اب صدارتی نظام کا نسخ�ۂ شفا؟

357

ملک میں ایک بار پھر صدارتی نظام کی بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس حوالے بھی تذبذب کے اس مقام اور دوراہے پر کھڑا ہے جہاں وہ اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں تھا۔ عمومی خیال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت پارلیمانی نظام کا آخری تجربہ ہے۔ اس سے آگے پارلیمانی نظام کی سرنگ میں متبادل کی کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی البتہ اس سے پیچھے بھی کوئی روشن اور تاباں ماضی نہیں بھیانک یادیں، واقعات اور حادثات ہیں۔ عمران خان کو پارلیمانی نظام کا آخری تجربہ بننے سے بچایا جا سکتا تھا اگر پارلیمنٹ اپنا آزادانہ اور فعال کردار برقرار رکھتی۔ بے مقصدیت اور احتجاج کے بجائے پارلیمانی امور اور قانون سازی پر توجہ دیتی۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام تھا کیوں کہ دو بڑی پارلیمانی جماعتیں الزامات اور احتساب کی زد میں تھیں اور ایسے میں ان کے لیے حکومت کے ساتھ دستِ تعاون بڑھانا اور مسلسل بڑھائے رکھنا خاصا مشکل تھا۔ عمران خان انہیں جس قدر پارلیمنٹ سے باہر دھکیلتے مگر پارلیمانی نظام کی محبت میں دونوں جماعتیں عمران خان کو اسی نظام کے دائرے کے اندر رکھنے کی کوشش کرتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ان کے پاس جماعت کے نام پر ایک ہجوم ہے۔ وہ اس پارلیمانی نظام سے پہلے مستفید ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی اولاد یا بھانجے بھتیجے اس قطار میں کھڑے ہیں۔ انہیں پارلیمانی نظام کے قیام اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی محنت نہیں کرنا پڑی۔ ان کی بلا سے نظام جب تک چلتا ہے چلے گا اور جب جی بھر گیا وہ سب کھیل خراب کر سکتے ہیں۔ ایسے میں پارلیمانی نظام کی گنگا جمنا سے مستفید ہونے والی ماضی کی حکمران جماعتوں کی ذمے داری زیادہ تھی وہ عمران خان کو پارلیمان کے اندر رکھنے کی تدبیر کرتے مگر انہوں نے اپنے غصے پر قابو نہ رکھ کر عمران خان کو پارلیمان سے باہر رکھنے کی حکمت عملی اپنائی۔ اس سے پارلیمانی نظام کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوا۔ اب صدارتی نظام کی فیوض وبرکات پر مبنی ملک کے معروف اسکالرز اور دانشوروں ڈاکٹر اسرار احمد اور جنرل حمید گل کی تقریروں کے وڈیو کلپس سوشل میڈیا میں ایک بار پھر محو گردش ہیں۔
پارلیمانی نظام کی بساط لپیٹنے کی خاطر صدارتی نظام، خلافت، ملٹری ڈیموکریسی عدالتی مارشل لا کی باتیں اس ملک میں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں مگر اس وقت یہ باتیں دھیمے سُروں میں ہوتی تھیں۔ ان باتوں اور تجاویز کا دورانیہ بھی محدود ہوتا تھا۔ کچھ وقت تک گرماگرم بحث ہونے کے بعد معاملہ ختم ہوجاتا تھا۔ نوے کی دہائی میں نیشنل سیکورٹی کونسل کے قیام کی بحث ہی نے ایک آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو ہضم کر لیا تھا اور جہانگیر کرامت امریکا جا کر وہیں کے ہو رہ گئے۔ اس پورے عرصے میں پارلیمانی جمہوریت کا تسلسل فوجی حکمرانی نے توڑ دیا مگر فوجی حکمرانی کے خاتمے کے بعد پھر پارلیمانی جمہوریت کا ٹوٹا ہوا دھاگہ دوبار جڑ جاتا رہا۔ اس بار صدارتی نظام کی بحث شروع ہوئی ہے تو حالات کچھ مختلف ہیں۔ ماضی کی دوبڑی جماعتیں اپنی حکمرانی کے نقش چھوڑ چکی ہیں اور یہ نقش زیادہ خوش گوار بھی نہیں۔ دونوں بڑی جماعتیں اپنے عہد حکمرانی کے گورکھ دھندوں میں اُلجھ کر رہ گئی ہیں۔ احتساب کی جھاڑیوں میں دامن اُلجھائے یہ جماعتیں عمران خان کی حکومت کو اعداد وشمار کی بساط پر شہ مات تو دی سکتی ہیں مگر کوئی بڑا انقلاب برپا کرنے سے قاصر ہیں۔
پی ٹی آئی ایک جماعت کے طور پر کبھی منظم نہ ہو سکی۔ ابتدائے سفر میں یہ عمران خان کا فین کلب تھی تو اقتدار کی منزل قریب آنے کے بعد اس میں اقتدار پسند اور محبانِ کرسی کا اضافہ ہوگیا۔ ایسے بااثر طبقات کے نمائندوں نے اس جماعت کا رخ کیا جو ہر حکومت کے ساتھ شامل باجا رہے ہیں۔ یوں پی ٹی آئی ایک حقیقی سیاسی جماعت کے طور پر منظم نہ ہو سکی۔ تنظیم کی کمی کے ساتھ مناسب منصوبہ بندی کے فقدان کا معاملہ بھی حکومت سازی کے بعد عیاں ہوگیا۔ ماضی میں مسلم لیگ ن کے متبادل پیپلزپارٹی ہی کو سمجھا جا تا رہا۔ پی ٹی آئی کی آمد کے بعد اس دو فریقی کھیل میں تیسرے فریق کا اضافہ ہوگیا۔ اب تینوں فریق اپنی اپنی باریاں لگا چکے۔ شاید یہی وجہ ہے یہ حالات صدارتی نظام کی بحث کو ماضی کے تمام مکالموں اور تجاویز سے زیادہ سنجیدہ بنا رہے ہیں۔ گویا کہ ہم ایک بار پھر سسٹم کے وجود اور شکل وشباہت کے بنیادی نقطے پر آکھڑے ہوئے ہیں۔ نظام حکومت انسانوں کی بقا، بہتری، ترقی، بہبود کی خاطر اپنایا جاتا ہے اور یہ افراد کی اجتماعی دانش کا نچوڑ اور نتیجہ ہوتا ہے۔ نظام کوئی بھی ہو اگر اسے چلانے والے نیک نیت اور اصلاح پسند نہ ہوں تو وہ انسانوں کے روز وشب بدلنے کے بجائے ایک مخصوص کلاس کا نمائندہ اور ان کے مفادات کا محافظ بن کر رہ جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام کوئی صحیفہ آسمانی ہے نہ صدارتی نظام نسخ�ۂ شفا۔ کسی بھی نظام کو اپنانے یا ترک کرنے سے پہلے ہمیں اپنے قومی کردار کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جو پارلیمانی یا صدارتی نظام دنیا میں کامیابی سے چل رہا ہے وہ ہمارے ہاں ناکام کیوں ہو جاتا ہے؟۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی تاریخ میں مختلف نظاموں کا تجربہ کرتی اونچے نیچے راستوں پر سفر کرتی ہوئی ہماری اجتماعی گاڑی پارلیمانی نظام کے اسٹیشن پر آکر رک گئی ہے مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ قیام محض پڑاؤ اور وقفہ تھا اور عملی طور پر یہ نظام اب بھی ’’انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو‘‘ کے مقام اور کیفیت میں ہیں۔ منزل کی تلاش اب بھی ختم نہیں ہوئی۔
پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت کمانے کا جو تاثر وابستہ ہو گیا ہے اس نے صدارتی نظام کی آوازوں کو ماضی سے زیادہ جاندار بنا دیا ہے۔ پارلیمانی نظام کو دو بھوت چمٹ کر رہ گئے ہیں جن کے نام دولت اور اثر رسوخ ہے۔ پارلیمانی نظام سے حقیقی محبت کا تقاضا ہے کہ اسے ان دو بھوتوں سے نجات دلائی جائے۔ دولت نے اس نظام کو بدنام کیا اور صاحبان رسوخ نے اپنی طاقت اور دولت کے لیے اس نظام کو اپنی لونڈی بنا رکھا ہے۔ یہی صاحبان رسوخ حالات کے بادِنما کو دیکھ کر کسی نئی جماعت کی صورت میں اپنا ٹھکانہ تلاش اور منتخب کرتے ہیں اور یوں نئی سوچ کا راستہ روک کر نظام کو جوہڑ بنائے رکھتے ہیں۔