وزیرِ صحت کی برطرفی سے عوام سستی ادویا ت دستیاب ہو سکے گی؟

302

وہ دن دور نہیں جب ملک میں ادویات کی قیمتیں زیادوہ اورانسان کے لیے موت آسان ہو جائیگی

ا فارما انڈسڑیزکے مالکان بھاری رشوت ،ملکی اور غیر ملکی دوروں اور دیگر مراعات سے نواز ے جاتے ہیں،یہ خرچ کہا سے دیا جارہا ہے

گیارہ برس کی مدت ک ے لیے بلا امیتاز کسی بھی زمرے میں شامل ادویہ کی چاہے وہ کنڑول ہوں

یا نہ ہوں قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہیں دی گئی
وزیرِ صحت عامر محمود کیانی بننے پر مجبور کر دیا لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا سے ملک کے عوام کو کم قیمت ادویا ت مل سکے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں 

میڈکل اسٹورز اور اسپتالوں والوں کہنا ہے کہ ان کے پاس جعلی ادویا ت کمپنیز کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

 

قاضی جاوید
qazijavid61@gmail.com

ملک بھر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے ہمارے ادویات کے بھاؤ میں اضافہ کے عوام کے بیماری اور موت میں کو فرق باقی نہیں رہااور سروے کے مطابق پاکستان میں ادویات کی قیمتیں زیادہ اور موت سستی ہو چکی ہے لیکن اس بعد بھی حکمران ہمیشہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ حکمرانی عوام کی فلاح اور بہبود کے لیے کر رہے ہیں ۔ادویات کے قیمتوں میں اضافہ کے عمران خان نے وزیرِصحت کو سابق وزیرِ صحت عامر محمود کیانی بننے پر مجبور کر دیا لیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا سے ملک کے عوام کو کم قیمت ادویا ت مل سکے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ۔
پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسو سی ایشن کے چیئرمین زاہد سعید نے 8اور18اپریل کو اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے 400فیصد نہیں اور یہ اضافہ ڈالر کی قیمتوں میں 104روپے سے 142ادویات کے خام مال میں اسی تناسب سے اضافہ، بجلی کی قیمتوں میں 45فیصد ، گیس کی قیمتوں میں 65فیصد اور ڈیزل کی قیمت میں 75فیصد اضافہ اور مالی لاگت 100فیصد ہوجانے کے باعث یہ اضافہ سپریم کورٹ کی اجازت اور وزارت صحت اور ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کی ایک طویل کاروائی کے بعد فیصلہ کیا گیا اوراس اضافہ میں فارما انڈسڑی کا کوئی ہاتھ نہیں ہے ،8اپریل کی پریس کانفرنس میں چیئرمین زاہد سعیدنے بہت تفصیل سے قیمتوں میں اضافہ کا ذکر کیا اور ان کو کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 10اگست2018ء کو ادویا تکے بھاؤ59میں اضافہ کا فیصلہ کیا تھاجس کے بعد وزارت صحت اور ڈرگ ریگولیڑی اتھارٹی کی ایک طویل کاروائی کے بعد فیصلہ کی کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے ان کا مزید کہناتھا کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو فارما انڈسڑی بند ہوجاتی اور ملک کو کھربوں روپے کا نقصان اور عوام سستی و معیاری ادویات سے محروم ہوجاتے یہ باتانہوں نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں کو مختلف حکومتوں نے 2002 ء سے منجمند کیا ہوا تھا اور اس کے باوجود پاکستان چند خوش نصیب ملکوں میں شامل ہے جس میں دنیا کی سستی ترین ادویات دستیاب ہیں لیکن ان سے باربار پوچھنے کے باوجود وہ یہ بتانے کے بجائے منجمد قیمتوں اضافہ کیسے ہو جاتا ہے چیئرمین زاہد سعید کا یہی کہنا تھا کہ میڈیا میں کچھ اس طرح قیمتوں میں اضافے کو بیان کیاہے جیسے ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔ کیا ایسا نہیں ہے ۔اس بات کا بہت طویل جدجہد کی ضرورت نہیں ہے چیئرمین زاہد سعید صاحب اگر میڈیل اسٹور ز یاکسی اسپتال میں چلے جائیں تو کو خود پتہ چل جائے گا کہ اصل صورتحال کیا ہے ۔ ان کو مزید کہنا تھا کہ ۔ SRO100(I)/2002کے نفاذ سے، وفاقی حکومت نے 821کنڑول مالکییو لز ادویہ کو ان اصول پر تعین کے بعد 3 فیصد اضافے کی اجازت تھی۔بعد ازاں، گیارہ برس کی مدت کیلئے بلا امیتاز کسی بھی زمرے میں شامل ادویہ کی چاہے وہ کنڑول ہوں یا نہ ہوں قیمتوں میں اضافے کی اجازت نہیں دی گئی۔زاہد سعید نے بتایا کہ اکتوبر 2013 ء میں حکومتی مذاکرات میں پیش رفت سامنے آئی جب یہ تسلیم کیا گیا کہ 2002 ء سے منجمند ہونے سے اس ضمن میں 94فیصد تک کا اضافہ ریر التوا ہے ڈریپ اور وفاقی حکومت نے عبوری بحرانی کیفیت سے بچنے کیلئے جامع ڈرگ پرائسنگ پالیسی تشکیل دینے پر اتفاق رائے کیا اور پالیسی سطح پر ہونے والے اتفاق رائے ہونے تک 15فیصد عبوری اضافے کی اجازت بھی دے دی گئی۔انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے اس جاری کردی ایس آر او کو دو روز کے بعد ہی واپس لے لیا گیا اور اس کے نتیجے میں ڈریپ اور متعلقہ وزارت کیخلاف قانونی کاروائی کا آغاز ہوگیا اور اس قانونی چارہ جوئی کے نتیجے میں ہائی کورٹ نے غیر قانونی واپسی کو معطل کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 14نومبر 2018کو یہ معاملہ اٹھایا اور اسی روز ڈریپ اور وفاقی حکومت کو ادویہ کی نئی قیمتیں 15روز کے اند ر جاری کرنے کی ہدایت کی۔اُدھر دوسری جانب پالیسی بورڈ کو ہدایت دی کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور 15روز میں قیمت کا تعین نہ ہونے کی صورت میں متعدد جان بچانے والی ادویہ کی عدم دستیابی کو پیش نظر رکھتے ہو ئے ادویہ کی قیمتوں پر نظر ثانی کا فیصلہ کرے۔سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے حکم نامے اور ادویہ ساز صنعتوں کی جانب سے وفاقی حکومت اور ڈریپ سے تحریری طورپر رجوع کرنے کے بعد ڈریپ نے پالیسی بورڈ وفاقی کابینہ سے ہیلتھ ٹاسک فورس کے منظور کئے جانے کے بعد نوٹیفیکشن SRO 1610جاری کیا گیا جس کے مطابق 450ادویات کی قیمتوں میں پالیسی 2018میں درج طریقہ کار کے مطابق اضافہ کیا گیا۔10جنوری 2019کو سپریم کورٹ کے اسی حکم کی روشنی میں ڈرگ پرائس پالیسی 2018کے سیکشن 12(8)کے تحت ڈالر کی قیمت میں اضافے کے لحاظ سے تمام ادویات کی قیمت میں SRO34 کے ذریعے 15فیصد اضافے کی منظوری دی گئی۔زاہد سعید نے کہا کہ 450ادویات کی قیمتوں میں 15فی صد اور 350ادویات میں کی قیمتوں میں کمی بھی کی گئی مگر اسکا ذکر میڈیا نے کہیں نہیں کیا ۔زاہد سعید صاحب میڈیکل اسٹور ز اور اسپتالوں کو دورہ کریں آب کو خود معلوم ہو جائے گا کہ 350ادویات میں کی قیمتوں میں کمی نہیں بلکہ حقیقت یہ کم ہو تمام ادویا ت کی قیمتوں میں فیصد سے نہیں بے تحاشہ اضافہ ہو ا ہے

زاہد سعید18اپریل ایک دوسری پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررزایسو سی ایشن نے حکومت کے دباؤ اور صارفین کی پریشانی کو مد نظر رکھتے ہوئے 395ادویات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا۔اس کمی کا اطلاق آئندہ 15روز کے دوران ہوگااور قیمتوں میں کمی کا اطلاق ہارڈشپ کیسز سمیت تمام ادویات پر ہوگا۔اہد سعید نے کہا کہ 45ہزار ادویات کی قیمتوں میں صرف 15فیصد جبکہ صرف 105اوویات میں 50فیصد اضافہ کیا گیا ہے مگر میڈیا میں اس اضافے کو 200فیصد بیان کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی نہیں بلکہ وہ مصنوعات اور اجناس جو 100%لوکل اور ملکی پیداوار ہیں افراط زر کی زد میں آئی ہیں۔ادارہ شماریات کے مطابق صرف مارچ 2019میں 12%افراط زر ہوا ہے صرف آٹے کی قیمت 10روپے سے 40روپے پہنچ چکی ہے ان مشکل حالات میں فارما انڈسڑیز اب بھی ریجنل کی سطح پر قیمتیں رکھنے کو تیار ہے۔ زاہد سعید کی یہ بات درست ہے لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ فارما انڈسڑیزتباہی کے باوجود ان کمپنیز کے مالکان امیر سے امیر تر اور ان غیر ملکی اثاثہ جات میں تیزی کیسے اضافہ ہو رہا ہے
یہ بات ٹھک ہے کہ بھارت میں 1400میں سے صرف 124ادویات کی قیمتیں کنڑول ہیں جبکہ بنگلادیش میں ان کی تعداد صرف 92ہے۔اس تعداد کے علاوہ تمام ادویات کی قیمت کا تعین آزاد مارکیٹ نظام پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ان حقائق کے باوجود فارما انڈسڑیز سستی ادویات کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے جن کی کوالٹی دنیا کے کسی بھی ملک سے کم نہیں اور مقامی فارما انڈسڑی کی پیداواری لاگت دنیا میں کم ترین ہے جس کی وجہ پیداواری اور جدید ترین ٹیکنالوجی ہے۔
پرائس پالیسی 2018میں بھارت اور بنگلادیش کی قیمتوں کو معیار پر رکھاگیا ہے جو کہ برانڈ سے برانڈ کے تقابل کے نتیجہ میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ شاید قانونی طور پر تو نہیں لیکن پاکستان میں ایسا ہی ہے زاہد سعید کا کہنا تھا کہ200%اضافے کی سرخیاں لگائی گئیں جو کہ بہت محدود تعداد میں ہیںیا تو پاکستان میں بنتی نہیں یا ان کے خام مال کی بین الاقوامی قیمتوں سے کئی گنا اضافہ ہواہے۔لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہی 200فیصد والی ادویا ت بہت بھاری تعداد میں فروخت ہوتی اور فارما انڈسڑیزکے پالتوڈاکٹرجن کو فارما انڈسڑیزکے مالکان بھاری رشوت ،ملکی اور غیر ملکی دوروں اور دیگر مراعات سے نواز ے جاتے ہیں اور جس کے جواب میں یہ ڈاکٹرز200%اضافے والی ادویا ت مریضوں کو لکھ لکھ کر دیتے ہیں

پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررزایسو سی ایشن ہی اس سلسلے میں کچھ کر نے کی پوزیشن میں اور اسے اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے جو وہ نہیں کر رہی ہے ،اس کے علا وہ میڈکل اسٹورز اور اسپتالوں میں بھاری تعداد میں جعلی ادویا ت موجود ہیں اور میڈکل اسٹورز اور اسپتالوں والوں کہنا ہے کہ ان کے پاس یہ ادویات کمپنیز کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔اس کا تدارک کون کر ے گا۔اس سلسلے میں یہ بات واضع ہے کہ اگر حکومت نے ادویا ت کی قیمتوں پر کنٹرول نہ رکھا تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں ادویات کی قیمتیں زیادوہ اورانسان کے لیے موت آسان ہو جائیگی