بھارت کے پارلیمانی انتخابات کا عمل جاری ہے اور اسی تسلسل میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں مرحلہ وار انتخابات ہور ہے ہیں۔ وادی کشمیر اس وقت فیض احمد فیض کے اس مصرعے ’’ہیں سنگ وخشت مقید اور سگ آزاد‘‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ آزادی پسند کیمپ سے وابستہ سرگرم کارکنوں سے کشمیر اور جموں کی جیلیں بھر دی گئی ہیں جبکہ بھارت نواز سیاسی جماعتوں کے لیے میدان مکمل خالی کر دیا گیا ہے۔ ان انتخابات کا سب سے اہم موضوع بھارتی آئین میں کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعہ 370 اور ایکٹ 35A ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی نے ان دفعات کا خاتمہ اپنے منشور کا حصہ قرار دیا ہے۔ وادی کی تمام جماعتیں ان دفعات کا بھرپور دفاع کر رہی ہیں اور یہ دھمکی دے رہی ہیں کہ ان دفعات کے خاتمے کے بعد سے کشمیر کی آزادی کا رسمی اعلان ہی باقی رہے گا کیوں کہ اس کے بعد دونوں کے درمیان آئینی تعلق ختم ہوجائے گا۔ نریندر مودی نے خود یہ بات دہرائی ہے کہ بھارتی آئین کے تحت کشمیر کو خصوصی شناخت دینے والی دفعات نے ریاست میں تعمیر وترقی نہیں ہونے دی اور اس سے آزادی پسندانہ جذبات کو تقویت اور جواز فراہم ہوتا رہا۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ بھارتیا جنتا پارٹی کشمیر کی خصوصی شناخت کے درپے ہے۔ اس کے مقابلے میں وادی کی جماعت نیشنل کانفرنس کے راہنما ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح جموں وکشمیر کے لیے صدر اور وزیر اعظم کے عہدے بحال کرائیں گے۔ فاروق عبداللہ نے یہ کہہ کر بھارت کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا چاہتا ہے وہی بات دہرائی جو کل تک حریت پسند کیمپ کہتا تھا اور جس کا خوف عام آدمی برسوں سے محسوس کرتا چلا آرہا ہے اور کشمیر میں بھارتیا جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت بننے کے بعد اسی خوف نے نہ تھمنے والے احتجاج کی شکل اختیار کی تھی۔
کشمیری ووٹروں کا دل لبھانے کے لیے فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے درمیان ایک دوڑ جاری ہے۔ بی جے پی جموں کے ہندؤوں کی ہمدردی سمیٹنے کے لیے کشمیر کی خصوصی شناخت پر مسلسل حملہ آور ہے تو وادی کی دو جماعتیں اس شناخت کو بحال کرنے اور اس میں اضافہ کرنے کے اعلانات کر رہی ہیں۔ محبوبہ مفتی نے تو اس راہ پر چلتے ہوئے یہ تک کہا ہے کہ بھارت نے جموں وکشمیر کی جیلوں کو کشمیریوں کے لیے ’’گوانتاناموبے‘‘ میں بدل دیا ہے۔ ایک اور بیان میں انہوں نے کشمیر میں صورت حال کو مارشل لا سے تعبیر کیا ہے۔ فاروق عبداللہ انتخابی مہم کے دوران ہی متعدد بار بی جے پی پر قائد اعظم کے دوقومی نظریے کو سچ اور جائز ثابت کرنے کا الزام لگا چکے ہیں گویا کہ وہ خود بھی اپنے والد شیخ محمد عبداللہ کی راہ سے انحراف کرتے ہوئے دوقومی نظریے کی اہمیت اور افادیت کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ سیاسی اور انتخابی ضرورتوں کے تحت ہی سہی مگر وادی کے کشمیری لیڈروں پر ان دنوں سچ کا دورہ پڑ گیا ہے۔ اس دوران میں دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بھی کہا ہے کہ بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 370ختم کرنے کی کوشش کی تو پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا اور اقوام متحدہ سے رجوع کرے گا۔
کشمیر کی خصوصی شناخت کا خاتمہ اس وقت بھارت میں گرما گرم انتخابی موضوع اور نعرہ ہے۔ انتخابات سے ایک دن پہلے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس دفعہ کو کشمیر کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ خود کشمیر کے لوگ اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ نریندر مودی نے مسئلہ کشمیر کو ڈھائی اضلاع کا مسئلہ کہہ کر ایک تاریخ سچائی کا مذاق بھی اُڑایا تھا۔ دوسرے لفظوں میں مودی یہ بتا رہے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ اور آزادی کا مطالبہ صرف واد�ئ کشمیر کے مسلمانوں کا نعرہ ہے۔ ہندو اور بودھ اس نعرے سے الگ ہیں۔ بظاہر یہی بات ہے کہ کشمیر کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور کشمیر کا مسلمان بھارت کے ساتھ موجودہ رشتہ وپیوند برقرار رکھنے کا کبھی روادار نہیں رہا۔ روز اول سے کشمیری مسلمانوں نے بھارت کے قبضے کو چیلنج کیا۔ کشمیر میں مسلمانوں کا اکثریت میں ہونا ہی مسئلہ کشمیر کی وجہ اور بنیاد بھی ہے۔ اسی وجہ سے ڈوگرہ حکمرانوں کو کبھی چین سے حکومت کرنا نصیب نہیں ہوا۔ بھارت اس حقیقت کو یوں بدلنا چاہتا ہے کہ وہ اکثریت کے بجائے اقلیت کو کشمیری عوام سمجھتا اور قرار دیتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جموں کے ہندو بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہوں۔ وہ کشمیر کی خصوصی شناخت کو ناپسند کرتے ہوں مگر اقلیت کی رائے کو اکثریت کی سوچ بنا کر پیش کرنا قطعی غیر جمہوری رویہ ہے۔
اس وقت بھارت کی حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی اس نعرے کو زور وشور سے لگارہی ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی کی مخالف کشمیری جماعتیں کھلے بندوں کہہ رہی ہیں کہ اگر بھارت نے کشمیرکی خصوصی شناخت کو ختم کردیا تو یہ کشمیر کی آزادی کا پہلا قدم ہوگا کیوں کہ کشمیر اور بھارت کے درمیان آئینی تعلق انہی دفعات کی وجہ سے قائم ہے اور ان دفعات کے خاتمے سے بھارت اور کشمیر کا آئینی تعلق ختم ہو جائے گا۔ محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ یہ موقف لے کر چلنے والوں میں پیش پیش ہیں۔ کشمیر کا حریت پسند کیمپ خصوصی شناخت کی اس بحث میں زیادہ اُلجھنے سے گریزاں ہے مگر عوام اپنے طور پر ووٹ مانگنے والے انتخابی امیدواروں کی مزاحمت کررہے ہیں۔ کئی ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں جن میں جنوبی کشمیر میں عوام نے انتخابی امیدواروں کی بات سننے کے بجائے انہیں بھاگنے پر مجبور کیا ہے۔